ایک مکالمہ
الف : گرمیوں کا مہینہ جارہا ہے۔ ہم ایک قدم اور قبر کی طرف بڑھا چکے ہیں۔ دوپہر کو بگولے اڑتے ہیں۔ غریبوں کے محلوں میں لوگ دھڑا دھڑ مر رہے ہیں۔
ب : سنا ہے بڑی سخت وبا پھیلی ہے۔
الف : ہاں۔ وبا پھیلی ہے اور لوگ مرتے ہیں۔ اگر نہ مریں تو دنیا کی آبادی اور بڑھ جائے اور مزید گڑ بڑپھیلے۔
ب : پہلے ہی کیا کم گڑ بڑ ہے؟
الف : خدا سے امید ہے پچاس لاکھ تومر ہی جائیں گے۔
ب : اتنے بہت سے؟
الف : تب بھی کمی نہیں آئے گی، دنیا بھری پڑی ہے۔
ب : خصوصاً ایشیا۔
الف : زیادہ تر ان لوگوں کو مرنا چاہئے جو بالکل بے کار ہیں۔ تم نے ان کے مکان دیکھے ہیں؟
ب : نہیں۔
الف : نا قابل یقین۔ یہ لوگ گندگی میں زندہ رہتے ہیں۔ مکھّیوں اور بھنگوں کی طرح،اور مکھّیوں کی طرح مرتے ہیں۔ ان کو شرم بالکل نہیں ۔
ب : انہوں نے خدا کی حسین دنیا کو تباہ کردیا۔۔۔ اس قدر غلاظت!
الف : ہاں۔ میں نے ایک روز ان کے لیڈر سے کہا کہ شفق کی سرخی اور پھولوں کے حسن کو دیکھ کر ایمان تازہ کرے مگر وہ اسی طرح ٹرّاتا رہا۔
ب : کوئی اچھی خبر سناؤ۔
الف : اچھی خبریں بہت کم ہیں۔ تم کل کہتے تھے زلزلہ آنے والا ہے۔
ب : جو بات کی۔ منحوس ۔۔۔میں نے استعارہ استعمال کیا تھا۔
الف : ’’اولڈ آرڈر۔۔۔‘‘ابھی سالم اور محفوظ ہے؟
ب : جب تک عبدل موجود ہے اولڈ آرڈرمحفوظ رہے گا۔
الف : عبدل کا تمہیں ممنون ہونا چاہیے۔ میں اسے دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔
ب : تم آج کل گرمیاں کہاں گزارتے ہو؟
الف : بڑا پرابلم ہے۔ پچھلے سال ویزا لے کر مسوری گیا تھا مگر وہاں جاکر اور بور ہوا۔ دنیا بدل چکی ہے۔
ب : ٹھیک کہتے ہو۔
الف : دنیا بدل گئی ہے اور ہم بھی۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کس طرح بدلی؟ کیا ہم اس کی کایا پلٹ کو نہیں روک سکتے۔۔۔؟ تم میرا مطلب سمجھتے ہو۔۔۔؟
ب : ہاں! مگر تم بہت خوف زدہ ہو۔ اتنا گھبرانے کی بات نہیں۔ اب بھی کچھ نہیں کھویا بلکہ کچھ بھی نہیں کھویا۔
الف : لڑکیاں تک بدل گئی