اب اور کہنے کی ضرورت نہیں
مناسب اجرت لیکر دوسروں کی جگہ جیل کی سزا کاٹنے والے ایک ایسے شخص کی کہانی جو لوگوں سے پیسے لے کر ان کے کئے جرم کو اپنے سر لے لیتا ہے اور جیل کی سزا کاٹتا ہے۔ ان دنوں جب وہ جیل کی سزا کاٹ کر آیا تھا تو کچھ ہی دنوں بعد اس کی ماں کی موت ہو گئی تھی۔ اس وقت اس کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کر سکے۔ تبھی اسے ایک سیٹھ کا بلاوا آتا ہے، پر وہ جیل جانے سے پہلے اپنی ماں کو تجہیز و تکفین کرنا چاہتا ہے۔ سیٹھ اس کے لیے اسے منع کرتا ہے۔ جب وہ سیٹھ سے بات طے کرکے اپنے گھر لوٹتا ہے تو سیٹھ کی بیٹی اس کے آنے سے قبل اس کی ماں کے کفن دفن کا انتظام کر چکی ہوتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
ترقی پسند
طنز و مزاح کے پیرایہ میں لکھا گیا یہ افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاروں پر بھی چوٹ کرتا ہے۔ جوگندر سنگھ ایک ترقی پسند افسانہ نگار ہے جس کے یہاں ہریندر سنگھ آکر پڑاؤ ڈال دیتا ہے اور مسلسل اپنے افسانے سنا کر بو رکرتا رہتا ہے۔ ایک دن اچانک جوگندر سنگھ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی حق تلفی کر رہا ہے۔ اسی خیال کے تحت وہ ہریندر سے باہر جانے کا بہانہ کرکے بیوی سے رات بارہ بجے آنے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن جب رات میں جوگندر اپنے گھر کے دروازہ پر دستک دیتا ہے تو اس کی بیوی کے بجائے ہریندر دروزہ کھولتا ہے اور کہتا ہے جلدی آ گئے، آو، ابھی ایک افسانہ مکمل کیا ہے، اسے سنو۔
سعادت حسن منٹو
کتبہ
شریف حسین ایک کلرک ہے۔ ان دنوں اس کی بیوی میکے گئی ہوتی ہے۔ وہ ایک دن شہر کے بازار جا پہنچتا ہے اور وہاں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک سنگ مرمر کا ٹکڑا خرید لیتا ہے۔ ایک روز وہ سنگ تراش کے پاس جاکر اس سنگ مر مر کے ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کرا لیتا ہے کہ جب اس کی ترقی ہو جائے گی تو وہ اپنا گھر خریدے گا اور اپنے مکان پر یہ نیم پلیٹ لگائےگا۔ عمر بیت جاتی ہے لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ بالآخر یہ کتبہ اس کا بیٹا اس کی قبر پر لگوا دیتا ہے۔
غلام عباس
پت جھڑ کی آواز
یہ کہانی کے مرکزی کردار تنویر فاطمہ کی زندگی کے تجربات اور ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ تنویر فاطمہ ایک اچھے خاندان کی تعلیم یافتہ لڑکی ہے لیکن زندگی جینے کا فن اسے نہیں آتا۔ اس کی زندگی میں یکے بعد دیگرے تین مرد آتے ہیں۔ پہلا مرد خشوقت سنگھ ہےجو خود سے تنویر فاطمہ کی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ دوسرا مرد فاروق، پہلے خشوقت سنگھ کے دوست کی حیثیت سے اس سے واقف ہوتا ہے اور پھر وہی اسکا سب کچھ بن جاتا ہے۔ اسی طرح تیسرا مرد وقار حسین ہے جو فاروق کا دوست بن کر آتا ہے اور تنویر فاطمہ کو ازدواجی زندگی کی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے۔ تنویر فاطمہ پوری کہانی میں صرف ایک بار اپنے مستقبل کے بارے میں خوشوقت سنگھ سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ فیصلہ اس کے حق میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی میں آئے اس پہلے مرد خشوقت سنگھ کو کبھی بھول نہیں پاتی ہے۔
قرۃالعین حیدر
دیکھ کبیرا رویا
کبیر کو علامت بنا کر یہ کہانی ہمارے معاشرے کی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے جس کے بنا پر لوگ ہر اصلاح پسند کو کمیونسٹ، آمریت پسند قرار دے دیتے ہیں۔ سماج میں ہو رہی برائیوں کو دیکھ کر کبیر روتا ہے اور لوگوں کو ان برائیوں سے روکتا ہے۔ لیکن سب جگہ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں اور مار کر بھگا دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
بہروپیا
ہر پل شکل بدلتے رہنے والے ایک بہروپیے کی کہانی جس میں اس کی اصل شکل کھو کر رہ گئی ہے۔ وہ ہفتے میں ایک دو بار محلے میں آیا کرتا تھا۔ دیکھنے میں خوبصورت اور ہنسوڑ مزاج کا شخص تھا۔ ایک چھوٹے لڑکے نے ایک دن اسے دیکھا تو اس سے بہت متاثر ہوا اور وہ اپنے دوست کو ساتھ لے کر اس کا پیچھا کرتا ہوا اس کی اصل شکل جاننے کے لیے نکل پڑا۔
غلام عباس
ساڑھے تین آنے
اس افسانہ میں صاحب اقتدار اور حکمراں طبقے پر شدید طنز کیا گیا ہے۔ رضوی جیل سے باہر آنے کے بعد ایک کیفے میں بیٹھ کر فلسفیانہ انداز میں معاشرتی جبر پر گفتگو کرتا ہے کہ کس طرح یہ معاشرہ ایک ایک ایماندار انسان کو چور اور قاتل بنا دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ پھگو بھنگی کا ذکر کرتا ہے جس نے بڑی ایمانداری سے اس کے دس روپے اس تک پہنچائے تھے۔ یہ وہی پھگو بھنگی ہے جس کو وقت پر تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ساڑھے تین آنے چوری کرنے پڑتے ہیں اور اسے ایک سال کی سزا ملتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
پان شاپ
کہانی میں اپنی محبوب اشیا کو گروی رکھ کر قرض لینے والوں کے استحصال کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ بیگم بازار میں فوٹو اسٹوڈیو، جاپانی گفٹ شاپ اور پان شاپ پاس پاس ہیں۔ پہلی دو دکانوں پر نام کے مطابق ہی کام ہوتا ہے اور تیسری دوکان پر پان بیچنے کے ساتھ ہی قیمتی چیزوں کو رہن رکھ کر پیسے بھی ادھار دیے جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے فوٹو اسٹودیو کا مالک اور جاپانی گفٹ شاپ والا پان والے کی ہمیشہ برائی کرتے ہیں۔ جب ایک روز انھیں خود پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ دونوں ایک دوسرے سے چھپ کر پان والے کے ہاں اپنی قیمتی چیزیں گروی رکھتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی
گوندنی
دوہری زندگی جیتے ایک شخص کی کہانی جو چاہتے ہوئے بھی کھل کر اپنے احساسات کا اظہار نہیں کر پاتا۔ مرزا برجیس کا خاندان کسی زمانے میں بہت امیر تھا لیکن اس وقت اس خاندان کی حالت دیگرگوں ہےَ۔ اس کے باوجود مرزا اسی شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کے ساتھ رہنے کا ڈھونگ کرتا ہے۔ ایک روز بازار میں خریداری کرتے وقت اس سے کھانے کے لیے پیسے مانگے تو اس نے اسے جھڑک دیا مگر شام کو سینما دیکھتے ہوئے جب اس نے ایک بوڑھیا کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو رو دیا۔
غلام عباس
سجدہ
ایک بہت شرارتی اور زندہ دل شخص حمید کی کہانی ہے۔ حمید ایک ملنسار انسان تھا۔ اپنے دوستوں سے بڑی بے تکلفی سے ملا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے شرارت میں اپنے ایک مولانا دوست کو جن پلا دی۔ اپنی اس حرکت پر مولانا کا ردعمل دیکھ کر اسے سخت صدمہ پہنچا۔ اس نے خدا سے توبہ کی اور معافی کے لیے گلی کے فرش پر ہی سجدہ کر لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کا وہی مولانا دوست شراب کی کئی بوتلیں لے کر آیا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر پینے لگا۔ اس کا یہ رویہ دیکھ کر حمید کو بہت صدمہ پہنچا اور اسے اپنا وہ سجدہ فضول لگنے لگا۔
سعادت حسن منٹو
چھوکری کی لوٹ
کہانی میں شادی جیسے روایتی سنسکار کو ایک دوسری ہی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ بیٹیوں کے جوان ہونے پر مائیں اپنی چھوکریوں کی لوٹ مچاتی ہیں جس سے ان کا رشتہ پکا ہو جاتا ہے۔ پرسادی کی بہن کی جب لوٹ مچی تو اسے بہت غصہ آیا، کیونکہ رتنا خوب روئی تھی۔ بعد میں اس نے دیکھا کہ رتنا اپنے کالے کلوٹے پتی ساتھ خوش ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ رتنا کی شادی زبردستی کی شادی نہیں تھی بلکہ وہ تو خود سے اپنا لوٹ مچوانا چاہتی تھی۔
راجندر سنگھ بیدی
روغنی پتلے
’’قوم پرستی جیسے مدعے پر بات کرتی کہانی، جو شاپنگ آرکیڈ میں رکھے رنگین بتوں کے گرد گھومتی ہے۔ جن کے آس پاس سارا دن طرح طرح کے فیشن پرست لوگ اور نوجوان لڑکے لڑکیاں گھومتے رہتے ہیں۔ مگر رات ہوتے ہی وہ بت آپس میں گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حالات پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ صبح میں آرکیڈ کا مالک آتا ہے اور وہ کاریگروں کو پورے شاپنگ سینٹر اور تمام بتوں کو پاکستانی رنگ میں رنگنے کا حکم سناتا ہے۔‘‘
ممتاز مفتی
آدھے چہرے
کہانی ایک ایسے نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو مس آئیڈینٹٹی کا شکار ہے۔ ایک دن وہ ایک ڈاکٹر کے پاس آتا ہے اور اسے اپنی حالت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ جب وہ محلے میں ہوتا ہے تو حمید ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کالج میں جاتا ہے تو اختر ہو جاتا ہے۔ اپنی یہ کیفیت اسے کبھی پتہ نہ چلتی اگر بیتے دنوں ایک حادثہ نہ ہوتا۔ تبھی سے اس کی سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کون ہے؟ وہ ڈاکٹر سے سوال کرتا ہے کہ وہ اسے بتائے کہ وہ حقیقت میں کیا ہے؟
ممتاز مفتی
جب میں چھوٹا تھا
بچوں کی نفسیات پر مبنی کہانی ہے۔ بچوں کے سامنے بڑے جب اخلاق و عادات سنوارنے کے لئے اپنے بچپن کے واقعات سناتے ہیں تو ان واقعات میں ان کی شبیہ ایک نیک اور انتہائی شریف بچے کی ہوتی ہے، درحقیقیت ایسا ہوتا نہیں ہے، لیکن مصلحتاً یہ دورغ گوئی بچوں کی نفسیات پر برا اثر ڈالتی ہے۔ اس کہانی میں ایک باپ اپنے بیٹے کو بچپن میں کی گئی چوری کا واقعہ سناتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس نے دادی کے سامنے اعتراف کر لیا تھا اور دادی نے معاف کر دیا تھا۔ لیکن بچہ ایک دن جب پیسے اٹھا کر کچھ سامان خرید لیتا ہے اور اپنی ماں کے سامنے چوری کا اعتراف نہیں کرتا تو ماں اس قدر پٹائی کرتی ہے کہ بچہ بیمار پڑ جاتا ہے۔ بچہ اپنے والد سے چوری کا واقعہ سنانے کی فرمائش کرتا ہے، باپ اس کی نفسیات سمجھ لیتا ہے اور کہتا ہے بیٹا اٹھو اور کھیلو، میں نے جو چوری کی تھی اس کا اعتراف آج تک تمہاری دادی کے سامنے نہیں کیا۔
راجندر سنگھ بیدی
ہڈیاں اور پھول
حاصل کی ناقدری اور لاحاصل کے لئے گلہ شکوہ کی انسانی فطرت کو اس کہانی میں اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں میاں بیوی کے درمیان شک و شبہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تلخی کا بیان ہے۔ ملم ایک چڑچڑا موچی ہے، گوری اس کی خوبصورت بیوی ہے، ملم کے ظلم و زیادتی سے عاجز آ کر گوری اپنے مائکے چلی جاتی ہے تو ملم کو اپنی زیادتیوں کا احساس ہوتا ہے اور وہ بے خودی کے عالم میں عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے لیکن جب وہی گوری واپس آتی ہے تو اسیشن پر بھیڑ کی وجہ سے ایک اجنبی سے ٹکرا جاتی ہے اور ملم غصے سے ہکلاتے ہوئے کہتا ہے, یہ نئے ڈھنگ سیکھ آئی ہو۔۔۔ پھر آ گئیں میری جان کو دکھ دینے۔
راجندر سنگھ بیدی
بھیک
’’ایک ایسے شخص کی کہانی، جو پہاڑوں پر سیر کرنے کے لیے گیا ہے۔ وہاں اسے ایک غریب لڑکی ملتی ہے، جسے وہ اپنے یہاں نوکری کرنے کا آفر دیتا ہے۔ مگر اگلے دن امید سے لبریز جب وہ لڑکی اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ ڈاک بنگلے پر پہنچتی ہے تو ایک ساتھ اتنے بچوں کو دیکھ کر وہ اسے نوکری پر رکھنے سے منع کر دیتا ہے۔ انکار سن کر لڑکی جب واپس جانے لگتی ہے تو وہ اسے دو روپیے دے دیتا ہے۔‘‘
حیات اللہ انصاری
چڑیا چڑے کی کہانی
’’ایک چڑیا اور چڑے کی معرفت افسانہ انسانی سماج میں مرد و زن کے رشتوں کے بارے میں بات کرتا ہے۔ چڑا اپنے حصہ کی کہانی سناتا ہوا کہتا ہے کہ مرد کبھی بھی ایک جگہ ٹک کر نہیں رہتا۔ وہ ایک کے بعد دوسری عورت کے پاس بھٹکتا رہتا ہے۔ وہیں چڑیا سماج میں عورت کی حالت کو بیان کرتی ہے۔‘‘
سجاد حیدر یلدرم
ایوا لانش
جہیز کی لعنت پر لکھا گیا افسانہ ہے۔ کہانی کا راوی ایک واش لائن انسپکٹر ہے، معاشی قلت کی وجہ سے اس کی دو بیٹیوں کے رشتے طے نہیں ہو پا رہے ہیں۔ راوی کے کنبہ میں چھ لوگ ہیں، جن کی ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے کاندھے پر ہے۔ جہیز پورا کرنے کے لئے وہ رشوتیں بھی لیتا ہے لیکن پھر بھی لڑکے والوں کی فرمائشیں پوری ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ راوی غم سے نجات پانے کے لئے اخبار میں پناہ لیتا ہے۔ ایک دن اس نے پڑھا کہ ایوالانش آجانے کی وجہ سے ایک پارٹی دب کر رہ گئی۔ اسی دوران رشوت کے الزام میں راوی برطرف کر دیا جاتا ہے۔ اسی دن اس کی چھوٹی بیٹی دوڑتی ہوئی آتی ہے اور بتاتی ہے ایک رسیکیو پارٹی نے سب لوگوں کو بچا لیا۔ راوی اپنی بیٹی سے پوچھتا ہے: کیا کوئی ریسکیو پارٹی آئے گی۔۔۔ رقو۔۔۔ کیا وہ ہمیشہ آتی ہے؟
راجندر سنگھ بیدی
بڑھاپا
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو ایک ویشیا سے محبت کے باعث اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔ اس کے اس طلاق میں مسجد کا مولوی دونوں فریقین کو خوب لوٹتا ہے۔ پچاس سال بعد جب وہ دوبارہ اس گاؤں میں آتا ہے تو مولوی اسے ساری باتیں سچ سچ بتا دیتا ہے۔ مولوی کا بیان سن کر وہ اپنی بیوی کی قبر پر جاتا ہے، لیکن چاہ کر بھی رو نہیں پاتا۔