کہانی کی کہانی
’’یہ کہانی ایک ریلوے اسٹیشن، اس کےاسٹیشن ماسٹر اور ٹکٹ بابو کے گرد گھومتی ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کا ماننا ہے کہ پورے ہندوستان میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ بہت کم لوگ ہی اس رشتہ کو دیکھ پاتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ اس رشتہ سے انکار کرتے ہیں وہ باغی ہیں۔ اسٹیشن ماسٹر کے مطابق ان رشتوں کو جوڑے رکھنے میں آم کے باغ اہم رول نبھاتے ہیں۔ اگر کہیں آم کے باغ نہیں ہیں تو وہ علاقہ اور وہاں کے لوگ سرے سے ہندوستانی ہی نہیں ہے۔ کسی بھی شخص کو ہندستانی ہونے کے لیے یہاں کی تہذیب میں آم کے باغ کی اہمیت کو سمجھنا ہی ہوگا۔‘‘
آم کا کنج اور بڑے بابو، ان دونوں میں کوئی تعلق بظاہر تو معلوم نہیں ہوتا، لیکن ہندوستان باوجود ضرب المثل کثرت کے وحدت کاملک ہے۔ یہاں ہر چیز دوسری چیز سے رشتہ رکھتی ہے، یہ رشتہ ہر شخص کو نظر نہیں آتا، لیکن شاعر (یہاں اس لفظ کے وسیع معنی مراد ہیں) کی درد پرور نظر اسے دیکھتی ہے اور دوسروں کو دکھاتی ہے اور جو دیکھنے سے انکار کرے وہ ’’باغی‘‘ کہلاتا ہے۔ باغی کا مفہوم سمجھنے کے لیے تعزیرات ہند، عدالت اور کالا پانی کاخیال دل سے نکال دیجیے اور ذرا دیر کے لیے ناموسِ فطرت کی طرف توجہ کیجیے جو انسان یعنی ’’کائنات مجمل اور اس کے ماحول یعنی کائنات مفصل‘‘ میں ہم آہنگی چاہتا ہے اور جس کی خلاف ورزی ’’بغاوت‘‘ ہے۔ مگر خدا کے لیے ان مسائل میں اتنے محو نہ ہو جائیے گا کہ قصے کی سادگی، اندازبیان کی دل آویزی اور ایک خاص طرح کی ظرافت جو بجا موجود ہے نظر سے چھپ جائے۔
(ڈاکٹر سید عابد حسین)
ایک چھوٹے سے دیہاتی اسٹیشن کا ذکر ہے، مسافر یہاں بہت کم دیکھنے میں آتے تھے اور گاڑیاں اور بھی کم، لیکن کسی مصلحت سے خداوندانِ تدبیر نے تین ملازمان ریلوے کا یہاں تعین کر رکھا تھا جن کی تفصیل یہ ہے، ایک اسٹیشن ماسٹر (بڑے بابو) ایک ٹکٹ بابو اور ایک سگنل والا۔
کشن پرشاد اسٹیشن ماسٹر کشیدہ قامت متین آدمی تھے۔ ان کا چہرہ چوڑا چکلا تھا اور مونچھیں بھری بھری اور کسی قدر نیچے کی طرف مڑی ہوئی، ظاہر ہے کہ ان کی ذات گویا اسٹیشن کے مرقعے میں نقش مرکزی تھی۔ یہ اپنی تنہائی کی زندگی پر قانع بلکہ اس میں مگن تھے اور جو کوئی ان کے پرسکون چہرے اور خاموشی بھری آنکھوں پر نظر ڈالتا اسے اس بات پر حیرت نہ ہوتی۔ ان کے چہرے سے غور و فکر، علم و فضل کا اظہار ہوتا تھا، حالانکہ انھوں نے برائے نام تعلیم پائی تھی اور ان کی چمک ان کے کور سواد ساتھیوں کے ساتھ۔۔۔ تقابل کا نتیجہ تھی۔
باسو، ٹکٹ بابو جو ایک دبلا پتلا نوجوان تھا اور جسے یہ عہدہ اپنے گاؤں کے مدرسے میں قابل ترین ریاضی داں ہونے کے صلے میں ملاتھا اور ہی طرز کا آدمی تھا۔ وہ بہت کمزور قلب کا اختلاجی آدمی تھا۔ ہمیشہ ہاتھ ملا کرتا تھا اور جب سر جھکاکر چلتا تھا تو معلوم ہوتا تھا گویا وہ ایک بھاری بوجھ پیٹھ پر اٹھائے اپنے بوتے سے زیادہ تیز جا رہا ہے اور اس کا بوجھ بس گراہی چاہتا ہے، اسے ہر وقت جلدی رہا کرتی تھی اور کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ وہ بڑے بابو سے کوئی بات کہہ کر ان کے جواب کے انتظار میں اور ان کے سکون و اطمینان سے عاجز آکر جلدی جلدی ان کے گرد پھرتا تھا اور اپنے سوال کو اس وقت تک دہرائے جاتا تھا جب تک جواب نہ مل جاتا۔
سگنل والا ایک قریب کے گاؤں کا رہنے والا مسلمان تھا، وہ ان دونوں کی صحبت میں بہت کم دکھائی دیتا تھا۔ عام طور پر وہ اپنے کیبن (سگنل کی اونچی کوٹھری) میں بیٹھا کھڑکی میں سے جھانکا کرتا تھا اور مزے میں اپنا ناریل پیا کرتا تھا۔ وہ بہت خاموش رہتا تھا اور کبھی بڑے بابو یا ٹکٹ بابو سے بے تکلف ہونے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ ان دونوں کو وہ بشر نہیں بلکہ کسی برتر درجے کی مخلوق سمجھتا تھا۔ اس کا سبب شاید یہ ہوگا کہ وہ بالکل ناخواندہ تھا اور باسو چھ سات برس سے، جب سے کہ دونوں کا ساتھ تھا اس کے دل پر یہ نقش کرتا رہا تھا کہ وہ ادنی درجہ کا آدمی ہے۔ بڑے بابو کو اس کی صحبت سے احتراز نہ تھا لیکن چونکہ وہ ٹکٹ بابو کی کارروائیوں سے ناواقف تھے اس لیے سمجھا کرتے تھے کہ سگنل والا خود تنہا رہنا پسند کرتا ہے۔
ٹکٹ بابو اپنے اختیارات کے بارے میں ہمیشہ سے گستاخ اور خودسر تھا اور بڑے بابو نے یہ دیکھ کر کہ اس کے فلسفۂ زندگی کے بدلنے کے لیے ساری کوششیں بےکار ہیں، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ لیکن دراصل ان دونوں کے تعلقات مرغی اور اس کے بچے کے سے تھے۔ یہ بات اس وقت واضح ہو جاتی تھی جب ٹکٹ بابو کسی سبب سے سہم کر اسٹیشن ماسٹر کے چوڑے چکلے جسم کی آڑ ڈھونڈھتا تھا اور ان کے ڈھیلے ڈھالے کپڑوں میں چھپ جاتا تھا، جیسے مرغی کا بچہ مرغی کے پروں میں۔ جب کوئی بات ایسی نہ ہو جو اسے بڑے بابو کی پناہ ڈھونڈھنے پر مجبور کرے تو وہ ان کے سکون واطمینان پر جھلایا کرتا تھا اور وہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ اتنا بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اسے ایک نہ بدلنے والی چیز سمجھ کر صبر کرلے بلکہ وہ صدق دل سے یہ سمجھتا تھا کہ اس کے افسر کو یہ خصلت چھوڑ دینا چاہیے جس سے اس کے ماتحتوں کو تکلیف ہوتی ہے اور کاشت کاروں پر رعب نہیں پڑتا۔
خود اس کانصب العین کچھ اور ہی تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اسٹیشن ماسٹر کو ایک قوی ہیکل غضب آلود آنکھوں والا آدمی ہونا چاہیے جو رعب دار وردی پہنے ہو اور جس کے انداز سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ ذرا سی نافرمانی یا بیہودہ پن پر آدمی کو اور نہیں تو اٹھاکر نگل ضرور جائےگا۔ برخلاف اس کے یہ بڑے بابو جن کی نگرانی میں اسے کام کرنا پڑتا تھا ہمیشہ سکون اور خاموشی کی حالت میں رہتے تھے، کسانوں کو گالی دینا ایک طرف ڈانٹتے تک نہ تھے۔ ہر شخص کو مہربانی کی نظر سے دیکھتے اور وردی کبھی نہیں پہنتے تھے۔ بلکہ ہمیشہ ایک قمیص پہنے اور ایک لمبی سی دھوتی باندھے نظر آتے اور نیم برہنہ بےوقوف کسانوں کو مرعوب کرنے کے لیے ان کے پاس ایک ریشمی صدری کے اور کچھ نہ تھا۔
تھوڑے دن پہلے ایک واقعہ پیش آیا تھا جس کے سبب سے ٹکٹ بابو اپنے افسر سے اور بھی زیادہ ناراض ہو گیا تھا اور جتنا وہ پہلے کسانوں کو حقیر سمجھتا تھا اسی قدر اب ان سے خائف تھا اور اس کے دل میں یہ وہم سما گیا تھا کہ جو کسان اسے ملے گا اس کا سر توڑ ڈالےگا اور جب کبھی اس پر خوف کی کیفیت طاری ہوتی تو وہ ڈر کر بڑے بابو کے پاس جاتا تھا اور ان سے التجا کرتا تھا کہ وہ زیادہ سخت تدابیر اختیار کریں اور کسانوں کے مقابلے میں زیادہ استحکام دکھائیں۔
موسم خزاں کا ایک دن تھا اور سہ پہر کا وقت، آسمان پر بادل گھرا ہوا تھا اور ہوا میں خنکی تھی۔ چونکہ رات کو آٹھ بجے تک کوئی گاڑی نہیں آتی تھی اس لیے بڑے بابو نے طے کیا کہ وہ ٹہلنے کے لیے جائیں گے اور ٹکٹ بابو سے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ ٹکٹ بابو نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’کہاں تک چلیےگا؟‘‘ اسے خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو گاڑی کے وقت واپسی نہ ہو سکے۔ بڑے بابو نے نہایت اطمینان سے ایک آموں کے کنج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو چند سوگز کے فاصلے پر تھا، جواب دیا کہ ’’صرف اس باغ تک‘‘ ٹکٹ بابو نے کہا کہ ’’بہت اچھا، لیکن تیز چلیے۔‘‘ بڑے بابو نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘ ٹکٹ بابو کو اس کے وجوہ پیش کرنے کی ہمت نہیں پڑی اور وہ بڑے بابو کے قدم بہ قدم آہستہ آہستہ چلنے لگا۔
یہ دونوں کھیتوں کے بیچ میں اٹھی ہوئی تنگ منڈیر پر جا رہے تھے۔ ٹکٹ بابو کا پیر بار بار پھسل کر کھیت میں جا پڑتا تھا اور وہ انتہائی پھرتی کے ساتھ اچک کر مینڈ پر آ جاتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کھیت والا دیکھ لے اور گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دے۔ بڑے بابو بھاری بھاری قدم رکھتے ہوئے چل رہے تھے اور ان کا قدم ذرا بھی نہیں ڈگمگاتا تھا، جس پر ٹکٹ بابو کو سخت تعجب تھا۔ وہ اپنے آس پاس کی سب چیزوں پر خاموش مسرت کی نظر ڈال رہے تھے اور نرم اور فرحت بخش ہوا میں گہری سانس لیتے جاتے تھے، وہ پیچھے مڑکر نہیں دیکھتے تھے، اس لیے انھیں نہیں معلوم تھا کہ ٹکٹ بابو راستے میں کیا کیا کرتب دکھاتا جا رہا ہے۔
آخرکار وہ کنج میں پہنچ گیے اور ایک درخت کے نیچے زمین کے ایسے حصے پر بیٹھ گیے جسے ہوا نے گویا انھیں کی خاطر پتیوں اور خاک سے صاف کردیا تھا۔ بڑے بابو نے ٹکٹ بابو کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’باسو، تمہیں معلوم ہے، مجھے ایک ایسی چیز کی تلاش ہے جو ہماری قوم اور ہمارے ملک کی تمام اہم خصوصیتوں کا مرکز ہو۔ میں نے بہت ڈھونڈھا لیکن آم کے کنج سے زیادہ معنی خیز مجھے کوئی چیز نہیں ملتی۔ حقیقت میں ہماری زندگی کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی جھلک تمہیں ان میں نظر نہ آئے۔ آم کے جس کنج کو دیکھو معلوم ہوتا ہے وہ ہمیشہ سے اسی جگہ موجود تھا جہاں اب ہے۔ کسی کو نہیں معلوم ان درختوں کو کس نے لگایا تھا اور کوئی ایسا بے رحم نہیں جو انھیں کاٹ کر پھینک دے۔ ہماری زندگی ہمیشہ سے ہے اور ہمارا ملک بھی جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ہمارا ملک دنیا میں ہے اور ہم اس میں رہتے ہیں، باوجود ان شیطانوں اور برم راکششوں کی مخالفت کے جن کا ذکر ہماری مذہبی کتابوں میں ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے یہاں آم کے کنج نہ ہوتے تو ہماری زندگی بڑی بوجھل ہو جاتی، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ خود مجھ پر یہ بات صادق آتی ہے اگر میں اپنی کھڑکی سے اور اسٹیشن سے اتنے آم کے درخت نہ دیکھ سکتا تو میں کب کا مر گیا ہوتا یا نوکری چھوڑ کر چلا گیا ہوتا۔‘‘
ٹکٹ بابو موقع پاتے ہی بول اٹھا، ’’مگر آم کے کنج تو سارے ایک ہی سے ہوتے ہیں۔‘‘ بڑے بابو نے کہا، ’’ہاں اسی طرح سب ہندوستانی قریب قریب ایک سے ہوتے ہیں اور جو دوسری طرح کے ہیں وہ باغی ہیں۔ جو کوئی آم کےکنج کی خوبصورتی کا قائل نہ ہو وہ باغی ہے چاہے وہ کوئی بڑا بھاری انگریز افسر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
ٹکٹ بابو کے ذہن میں باغی کا تصور ایک خوفناک مجرم کا تھا جو پھانسی کا سزاوار ہو اور جس کا تعاقب سارے ملک کی پولیس کر رہی ہو اور کسی انگریز کے ساتھ یہ بات ناممکن تھی، لیکن وہ اس وقت بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے تردید کے لیے صرف سر ہلا دیا۔ ایک منٹ تک خاموشی رہی، بڑے بابو نے باسو کے اظہار تردید کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ وہ اپنے خیالات میں ڈوبے ہوئے تھے اور گہری سانس لیتے ہوئے شوق اور پسندیدگی کی نظر سے ان پتیوں کو دیکھ رہے تھے جو ہوا میں جھکولے کھا رہی تھیں اور تھک کر زمین پر گرنے والی تھیں۔ ٹکٹ بابو اسٹیشن کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہاتھا کہ بڑے بابو کب اٹھیں گے اور واپس چلیں گے۔
آخر بڑے بابو نے مہر خموشی کو توڑا،