Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

ادریس آزاد

ادریس آزاد کے اشعار

14.5K
Favorite

باعتبار

عید کا چاند تم نے دیکھ لیا

چاند کی عید ہو گئی ہوگی

اتنے ظالم نہ بنو کچھ تو مروت سیکھو

تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالو گے ہمیں

دل کا دروازہ کھلا تھا کوئی ٹکتا کیسے

جو بھی آتا تھا وہ جانے کے لیے آتا تھا

تری تعریف کرنے لگ گیا ہوں

محبت نے دیانت چھین لی ہے

میں خود اداس کھڑا تھا کٹے درخت کے پاس

پرندہ اڑ کے مرے ہاتھ پر اتر آیا

میں نے جتنے بھی لوگ دیکھے ہیں

سب کے سینوں میں روگ دیکھے ہیں

تم نے تاروں کو رہنما جانا

ہم نے تاروں کی رہنمائی کی

اسے احساس ہونا چاہیے تھا

کہ بچے کو کھلونا چاہیے تھا

کون کافر ہے جو کھیلے گا دیانت سے یہاں

جب مری جیت ہے وابستہ تری ہار کے ساتھ

وہ شہر بھر کو فسانے سناتا پھرتا ہے

ہمارے سامنے سچا بنے تو بات بنے

ٹوٹی نشست دل تو محبت کی آبرو

واپس اسی مقام پہ لائی نہ جا سکی

جہاں تصویر بنوانے کی خاطر لوگ آتے تھے

وہاں پس منظر تصویر جو دیوار تھی میں تھا

کھینچ لاتی ہے سمندر سے جزیرے سر آب

جب مری آنکھ کو منظر کی تمنا ہو جائے

وہ شوق ربط نو میں کھڑی جھولتی رہی

میں شاخ اعتبار سے پھل کی طرح گرا

تری رونمائی کی رات بھی میں جہاں کھڑا تھا کھڑا رہا

کہ ہجوم شہر کو چیر کر مجھے راستہ نہیں چاہیے

بجتا رہتا ہے مسلسل کسی بربط کی طرح

کس کی دستک پہ لگا ہے مرا دروازۂ دل

ترے رنگ و بو کو بھی دیکھتے نہ خیال تھا نہ مجال تھی

جو سکت ملی تجھے دیکھنے کی تو رنگ و بو سے نکل گئے

بجتا رہتا ہے مسلسل کسی بربط کی طرح

کس کی دستک پہ لگا ہے مرا دروازۂ دل

ٹوٹی نشست دل تو محبت کی آبرو

واپس اسی مقام پہ لائی نہ جا سکی

دل کا دروازہ کھلا تھا کوئی ٹکتا کیسے

جو بھی آتا تھا وہ جانے کے لیے آتا تھا

ترے رنگ و بو کو بھی دیکھتے نہ خیال تھا نہ مجال تھی

جو سکت ملی تجھے دیکھنے کی تو رنگ و بو سے نکل گئے

وہ شوق ربط نو میں کھڑی جھولتی رہی

میں شاخ اعتبار سے پھل کی طرح گرا

میں جس میں دفن ہوں اک چلتی پھرتی قبر ہے یہ

جنم نہیں تھا وہ دراصل مر گیا تھا میں

وہ شہر بھر کو فسانے سناتا پھرتا ہے

ہمارے سامنے سچا بنے تو بات بنے

کون کافر ہے جو کھیلے گا دیانت سے یہاں

جب مری جیت ہے وابستہ تری ہار کے ساتھ

تری رونمائی کی رات بھی میں جہاں کھڑا تھا کھڑا رہا

کہ ہجوم شہر کو چیر کر مجھے راستہ نہیں چاہیے

جب چھوڑ گیا تھا تو کہاں چھوڑ گیا تھا

لوٹا ہے تو لگتا ہے کہ اب چھوڑ گیا ہے

تری تعریف کرنے لگ گیا ہوں

محبت نے دیانت چھین لی ہے

اسے احساس ہونا چاہیے تھا

کہ بچے کو کھلونا چاہیے تھا

میں اپنے آپ سے رہتا ہوں دور عید کے دن

اک اجنبی سا تکلف نئے لباس میں ہے

نہیں نہیں میں اکیلا تو دل گرفتہ نہ تھا

شجر بھی بیٹھا تھا مجھ سے کمر لگائے ہوئے

جہاں تصویر بنوانے کی خاطر لوگ آتے تھے

وہاں پس منظر تصویر جو دیوار تھی میں تھا

اتنے ظالم نہ بنو کچھ تو مروت سیکھو

تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالو گے ہمیں

میں تو اتنا بھی سمجھنے سے رہا ہوں قاصر

راہ تکنے کے سوا آنکھ کا مقصد کیا ہے

کھینچ لاتی ہے سمندر سے جزیرے سر آب

جب مری آنکھ کو منظر کی تمنا ہو جائے

میں خود اداس کھڑا تھا کٹے درخت کے پاس

پرندہ اڑ کے مرے ہاتھ پر اتر آیا

عید کا چاند تم نے دیکھ لیا

چاند کی عید ہو گئی ہوگی

میں نے جتنے بھی لوگ دیکھے ہیں

سب کے سینوں میں روگ دیکھے ہیں

تم نے تاروں کو رہنما جانا

ہم نے تاروں کی رہنمائی کی

Recitation

Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

بولیے