غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی کے اشعار
چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے
پریشانی سے سر کے بال تک سب جھڑ گئے لیکن
پرانی جیب میں کنگھی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
زمانے کا چلن کیا پوچھتے ہو ؔخواہ مخواہ مجھ سے
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
اڑا کر دیکھ لے کوئی پتنگیں اپنی شیخی کی
بلندی پر اگر ہوں بھی تو کنے کاٹ سکتا ہوں
کسی کی نظر ؔخواہ مخواہ لگ نہ جائے
بڑھاپے میں لگتے ہو تم نوجواں سے
سیاست داں جو طبعی موت مرتے
تو سازش کی ضرورت ہی نہ ہوتی
سمجھ لے نام تیرا ہی لکھا ہے دانے دانے پر
کبھی مت سوچ معدے کے لئے اچھا برا کیا ہے
گناہ گاروں اور عاصیوں کو عذاب دوزخ سے واعظو تم
ڈراؤ بے شک مگر نہ اتنا کہ دل دہل جائے آدمی کا
جھگڑ کر جب کہا بیگم نے ہم سے گھر سے جانے کو
بہت بے آبرو ہو کر خود اپنے گھر سے ہم نکلے
کسی کی ڈھل گئی کیسی جوانی دیکھتے جاؤ
جو تھیں بیگم وہ ہیں بچوں کی نانی دیکھتے جاؤ
ٹنگی ہے جو مرے ہینگر نما کندھوں پہ میلی سی
مری شادی کی ہے یہ شیروانی دیکھتے جاؤ
پہلے پہلے شوہر کو ہر موسم بھیگا لگتا ہے
یوں سمجھو بلی کے بھاگوں ٹوٹا چھیکا لگتا ہے