کبھی تصویر سے باہر نکل کر بول بھی اٹھو
ہمیشہ ایک سا چہرہ لئے کیوں تکتے رہتے ہو
ذرا ہونٹوں کو جنبش اور لفظوں کو رہائی دو
اکیلا پڑ گیا ہوں میں ذرا میری صفائی دو
ماں اکثر میری کھانسی پر تمہارا دھوکا کھاتی ہے
یہ بڑ کی میری اک عادت تمہاری سی بتاتی ہے
تمہاری یاد آتی ہے
کبھی پوچھو کہ اتنی رات کو کیوں گھر میں آتا ہوں
کبھی ڈانٹو کہ میں اس طرح کیوں پیسے اڑاتا ہوں
جنہیں تم ٹوکتے تھے میں وہ سارے کام کرتا ہوں
تمہارا نام کرنے سے رہا بدنام کرتا ہوں
میں اک ہوٹل میں سگریٹ پی رہا ہوں تم دکھائی دو
میں روٹھا ہوں میرا کاندھا چھوؤ
پھر مسکراؤ اور کھانے پر بلا لو
مجھے ڈر لگ رہا ہے آج
مجھ کو اپنے بستر پر سلا لو
میں اس میلے میں چل کر تھک گیا ہوں
اپنے کاندھے پر بٹھا لو
قدم پھر لڑکھڑاتے ہیں
مجھے انگلی دو گرتا ہوں سنبھالو
مجھے سر درد ہے سر چھو کے
اپنے لمس کی عمدہ دوائی دو
میں پھر سے پاس ہو کر آ گیا ہوں تھپتھپاؤ
تو آخر میرا بیٹا ہے کہو ماں کو چڑھاؤ
مجھے پھر سے اسی حلوائی کی لا کر مٹھائی دو
سنو اب لوگ اکثر پوچھتے ہیں
کس کے بیٹے ہو
تمہارا نام لیتا ہوں
تو وہ مرحومؔ کہتے ہیں
مگر نادان ہیں وہ
باپ بھی مرحوم ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.