Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ghulam Abbas's Photo'

غلام عباس

1909 - 1982 | کراچی, پاکستان

رجحان ساز افسانہ نگار ، اپنے افسانے’ آنندی‘ کے لیے مشہور

رجحان ساز افسانہ نگار ، اپنے افسانے’ آنندی‘ کے لیے مشہور

غلام عباس کے افسانے

3.8K
Favorite

باعتبار

سایہ

جدید معاشرے میں انسانی قدروں کو زندہ رکھنے والے ایک مزدور پیشہ انسان کی کہانی۔ سبحان نامی شخص شہر کے مشہور وکیل صاحب کے گھر کے باہر ٹھیلہ لگاتا ہے جو نسبتاً ایک غیرآباد علاقہ میں ہے۔ سبحان کی آمدنی کا سارا دارومدار وکیل صاحب کے کنبہ پر ہی ہے۔ وکیل صاحب بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں اور گھر کے افراد کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ سبحان کے یہاں سے ہی سامان خریدنے کو ترجیح دیں۔ سبحان دھیرے دھیرے وکیل صاحب کے افراد خانہ کے عادات و اطوار اور گھر کی معمولی سے معمولی باتوں سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ اسے وکیل صاحب کے گھر سے یک گونہ انسیت ہو جاتی ہے۔ بڑی صاحبزادی کا جب رشتہ طے ہو جاتا ہے تو سارے گھر میں خوشیاں منائی جاتی ہیں لیکن سبحان اپنے بعض تجربوں اور مشاہدوں سے یہ اندازہ لگا لیتا ہے کہ صاحبزادی اپنے بھائی کے دوست میں دلچسپی رکھتی ہیں لیکن حرف مدعا زبان پر لانے سے قاصر ہیں۔ ایک دن صاحبزادی کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو جاتی ہے تو پوری رات سبحان جاگ کر گزار دیتا ہے۔ رات تین بجے ایک کتا بھونکتا ہے تو وہ گھبرا کر مکان کی طرف بھاگتا ہے کہ شاید کچھ خبر ملے لیکن وہاں بدستور خاموشی تھی۔ سبحان پتھر مار کر کتے کو بھگا دیتا ہے۔

بردہ فروش

عورت کی ازلی بے بسی، مجبوری اور استحصال کی کہانی۔ مائی جمی نے بردہ فروشی کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ وہ کسی ایسے بڈھے کو تلاش کرتی جو نوجوان لڑکی کا خواہش مند یا ضرورت مند ہوتا اور پھر ریشماں کو بطور بیوی بھیج دیتی۔ ریشما چند دن میں گھر کے زیور اور روپے پیسے چرا کر بھاگ آتی اور نئے گاہک کی تلاش شروع ہو جاتی۔ لیکن چودھری گلاب کے یہاں ریشماں کا دل لگ جاتا ہے اور وہ وہاں سےجانا نہیں چاہتی ہے۔ مائی جمی انتقاماً پرانے گاہک یا شوہر کرم دین کو اطلاع کر دیتی ہے اور وہ آکر گلاب چند کو ساری صورت حال بتاتا ہے۔گلاب چند آگ ببولا ہوتا ہے۔ حق ملکیت کے لئے دونوں میں دیر تک مقابلہ ہوتا ہے۔ آخر دونوں ہانپ کر اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ آپس میں لڑنے کے بجائے لڑائی کی جڑ ریشماں کا ہی کام تمام کر دیا جائے۔ عین اسی وقت ٹیلے کے پیچھے سے مائی جمی نمودار ہوتی ہے اور دونوں کو اس بات پر راضی کر لیتی ہے کہ دونوں کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کر دیا جائے تو وہ ریشماں کو چھوڑ دیں گے۔ دونوں راضی ہو جاتے ہیں اور پھر وہ دونوں جو چند لمحے پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، بےتکلفی سے موسم اور منہگائی پر تبصرہ کرنے لگتے ہیں۔

تنکے کا سہارا

خاموش طبع اور ملنسار میر صاحب کے اچانک انتقال سے اہل محلہ ان کی غربت سے واقف ہوتے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ سید کی بیوہ اور ان کے بچوں کی پرورش سب مل کر کریں گے۔ چار سال تک سب کے تعاون سے بچوں کی پرورش ہوتی رہی لیکن پھر حاجی صاحب کی حد سے بڑھی ہوئی دخل اندازی سب کو کھلنے لگی کیونکہ یہ خیال عام ہو گیا تھا کہ حاجی صاحب اپنے بیٹے کی شادی بیوہ کی خوبصورت بیٹی سے کرنا چاہتے ہیں۔ بیوہ کی بیٹیاں جو حاجی صاحب کے گھر پڑھنے جایا کرتی تھیں ان کا جانا بھی موقوف ہو گیا اور محلہ کی مسجد کے امام صاحب بچیوں کی تعلیم پر مامور ہوئے۔ امام صاحب نے ایک دن محلہ کے سنجیدہ لوگوں کے سامنے بیوہ سے شادی کی تجویز رکھی اور پھر ایک ہفتہ بعد وہ بیوہ کے گھر اپنے مختصر سامان کے ساتھ اٹھ آئے۔ اگلے دن جب حسب معمول شیر فروش کا لڑکا دودھ دینے آیا تو امام صاحب نے اس سے کہا، میاں لڑکے، اپنے استاد سے کہنا وہ اب دودھ نہ بھیجا کریں، ہمیں جتنے کی ضرورت ہوگی ہم خود مول لے آئیں گے، ہاں کوئی نذر نیاز کی چیز ہو تو مسجد بھیج دیا کریں۔

ایک دردمند دل

نوجوانوں کے خوابوں کی شکست و ریخت اور ملازمت کا بحران اس کہانی کا موضوع ہے۔ فضل اپنے والد کی خواہش پر لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے لیکن ملک کی خدمت کے جذبہ سے سرشار فضل کا دل قانون کی تعلیم میں نہیں لگتا ہے۔ ذہنی طور پر فرار حاصل کرنے کے لئے وہ ڈانسنگ کا ڈپلوما بھی کر لیتا ہے۔ اتفاق سے اسے ایک لڑکی روز میری مل جاتی ہے جو ملک کی خدمت کے اس کے جذبے سے متاثر ہو کر اس کی معاون بننے کی خواہش ظاہر کرتی ہے۔ فضل فوری طور پر گھر تار دیتا ہے کہ وہ قانون کی تعلیم چھوڑ کر وطن واپس آرہا ہے اور اس نے شادی بھی کر لی ہے۔ بندرگاہ پہ اسے گھر کا ملازم خط دیتا ہے جس میں والد نے اس سے اپنی لا تعقی ظاہر کی تھی۔ ایک مہینے تک دونوں ایک ہوٹل میں ٹھہرے رہتے ہیں۔ اس دوران انتہائی بھاگ دوڑ کے باوجود فضل کو کوئی مناسب ملازمت نہیں مل پاتی ہے اور آخر ایک دن وہ ڈانسنگ روم کھول لیتا ہے۔ اس کو دیکھ کر روز میری کے چہرے کا رنگ فق ہو جاتا ہے تو فضل اس سے کہتا ہے، آخر فنون لطیفہ کی خدمت بھی تو قومی خدمت ہی ہے نا۔۔۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے