آپ شہر میں خوبصورت اور نفیس گاڑیاں دیکھتے ہیں۔۔۔ یہ خوبصورت اور نفیس گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے کام نہیں آ سکتیں۔ گندگی اور غلاظت اٹھا کر باہر پھینکنے کے لئے اور گاڑیاں موجود ہیں جنہیں آپ کم دیکھتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں تو فوراً اپنی ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔۔۔ ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے اور ان عورتوں کا وجود بھی ضروری ہے جو آپ کی غلاظت اٹھاتی ہیں۔ اگر یہ عورتیں نہ ہوتیں تو ہمارے سب گلی کوچے مردوں کی غلیظ حرکات سے بھرے ہوتے۔
زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔۔۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔
ویشیا اور باعصمت عورت کا مقابلہ ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہیئے۔ ان دونوں کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویشیا خود کماتی ہے اور با عصمت عورت کے پاس کما کر لانے والے کئی موجود ہوتے ہیں۔
ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان موریو ں اور بدروؤں کا ذکر کیو ں نہیں کر سکتے جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں۔ اگر ہم مندروں اور مسجدوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان قحبہ خانوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں سے لوٹ کر کئی انسان مندروں اور مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔۔۔ اگر ہم افیون، چرس، بھنگ اور شراب کے ٹھیکو ں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان کوٹھوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں ہر قسم کا نشہ استعمال کیا جاتا ہے؟
ویشیا پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔ یا خود بنتی ہے۔ جس چیز کی مانگ ہوگی منڈی میں ضرور آئے گی۔ مرد کی نفسانی خواہشات کی مانگ عورت ہے۔ خواہ وہ کسی شکل میں ہو۔ چنانچہ اس مانگ کا اثر یہ ہے کہ ہر شہر میں کوئی نہ کوئی چکلہ موجود ہے۔ اگر آج یہ مانگ دور ہو جائے تو یہ چکلے خود بخود غائب ہو جائیں گے۔
جس عورت کے دروازے شہر کے ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جو اپنی جیبوں میں چاندی کے چند سکے رکھتا ہو۔ خواہ وہ موچی ہو یا بھنگی، لنگڑا ہو یا لولا، خوبصورت ہو یا کریہة المنظر، اس کی زندگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
ویشیا پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔ یا خود بنتی ہے۔
میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔
ویشیاؤں کے عشق میں ایک خاص بات قابل ذکر ہے۔ ان کا عشق ان کے روز مرہ کے معمول پر بہت کم اثر ڈالتا ہے۔
ویشیا کا وجود خود ایک جنازہ ہے جو سماج خود اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، اس کے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی۔
میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا، اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں، میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا، سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔ یہ میرا خاص انداز، میرا خاص طرز ہے جسے فحش نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر، کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔
ویشیا اپنی تاریک تجارت کے باوجود روشن روح کی مالک ہو سکتی ہے۔
گداگری قانوناً بند کر دی جاتی ہے مگر وہ اسباب و علل دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی جو انسان کو اس فعل پر مجبور کرتے ہیں۔ عورتوں کو سر بازار جسم فروشی کے کاروبار سے روکا جاتا ہے مگر اس کے محرکات کے استیصال کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔
-
موضوعات : جنسی ضرورتاور 1 مزید
چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔۔۔ اس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں، میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں، اس کا چڑچڑاپن، اس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔۔۔ میں ان کے متعلق لکھتا ہوں اور گھریلو عورتوں کی شستہ کلامیوں، ان کی صحت اور ان کی نفاست پسندی کو نظر انداز کر جاتا ہوں۔
بغاوت فرانس میں پہلی گولی پیرس کی ایک ویشیا نے اپنے سینے پر کھائی تھی۔ امرت سر میں جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کی ابتدا اس نوجوان کے خون سے ہوئی تھی جو ایک ویشیا کے بطن سے تھا۔
-
موضوعات : جلیانوالہ باغاور 1 مزید
ویشیا صرف اسی مرد پر اپنے دل کے تمام دروازے کھولے گی، جس سے اسے محبت ہو۔ ہر آنے جانے والے مرد کے لئے وہ ایسا نہیں کر سکتی۔
عصمت فروش عورت ایک زمانے سے دنیا کی سب سے ذلیل ہستی سمجھی جاتی رہی ہے۔ مگر کیا ہم نے غور کیا ہے کہ ہم میں سے اکثر ایسی ذلیل و خوار ہستیوں کے در پر ٹھوکریں کھاتے ہیں! کیا ہمارے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ ہم بھی ذلیل ہیں۔
ویشیا کو صرف باہر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے رنگ روپ، اس کی بھڑکیلی پوشاک، آرائش و زیبائش دیکھ کر یہی نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ وہ خوش حال ہے۔ لیکن یہ درست نہیں۔
جس طرح باعصمت عورتیں ویشیاؤں کی طرف حیرت اور تعجب سے دیکھتی ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ بھی ان کی طرف اسی نظر سے دیکھتی ہیں۔
ایک با عصمت عورت کے سینے میں محبت سے عاری دل ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس چکلے کی ایک ادنیٰ ترین ویشیا محبت سے بھرپور دل کی مالک ہو سکتی ہے۔
چور اچکے رہزن اور ویشیائیں بغیر شراب کے زندہ نہیں رہ سکتیں۔
جس طرح گھر کے نوکر جھٹ پٹ اپنے آقاؤں کے بستر لگا کر اپنے آرام کا خیال کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ویشیا بھی اپنے گاہکوں کو نمٹا کر اپنی خوشی اور راحت کی طرف پلٹ آتی ہے۔
جب تک سماج اپنے قوانین پر از سر نو غور نہ کرے گا وہ ’’نجاست‘‘ دور نہ ہوگی جو تہذیب و تمدن کے اس زمانے میں ہر شہر اور ہر بستی کے اندر موجود ہے۔
ایکٹرس چکلے کی ویشیا ہو یا کسی باعزت اور شریف گھرانے کی عورت، میری نظروں میں وہ صرف ایکٹرس ہے۔ اس کی شرافت یا رذالت سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ اس لئے کہ فن ان ذاتی امور سے بہت بالاتر ہے۔
بازاری عورتیں سماج کی پیداوار ہیں اور سماج کے وضع کردہ قوانین کی کھاد ان کی پرورش کرتی ہے۔ اگر ان کو اچھا بنانا درکار ہے تو سارے جسم کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک سماج اپنے قوانین پر از سر نو غور نہ کرے گا، وہ ’’نجاست‘‘ دور نہ ہوگی جو تہذیب و تمدن کے اس زمانے میں ہر شہر اور ہر بستی کے اندر موجود ہے۔
اگر ویشیا کا ذکر فحش ہے تو اس کا وجود بھی فحش ہے۔ اگر اس کا ذکر ممنوع ہے تو اس کا پیشہ بھی ممنوع ہونا چاہئے۔ اس کا ذکر خود بخود مٹ جائے گا۔
تعجب تو اس بات کا ہے کہ جب صدیوں سے ہم یہ سن رہے ہیں کہ ویشیا کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا تو ہم کیوں اپنے آپ کو اس سے ڈسواتے ہیں اور پھر کیوں خود ہی رونا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ویشیا ارادتاً یا کسی انتقامی جذبے کے زیر اثر مردوں کے مال و زر پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ وہ سودا کرتی ہے اور کماتی ہے۔
ویشیا یا طوائف اپنے تجارتی اصولوں کے ماتحت ہر مرد سے جو اس کے پاس گاہک کے طور پر آتا ہے، زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر وہ مناسب داموں پر یا حیرت انگیز قیمت پر اپنا مال بیچتی ہے تو یہ اس کا پیشہ ہے۔ بنیا بھی تو سودا تولتے وقت ڈنڈی مار جاتا ہے۔ بعض دکانیں زیادہ قیمت پر اپنا مال بیچتی ہیں بعض کم قیمت پر۔
ویشیا ارادتاً یا کسی انتقامی جذبے کے زیر اثر مردوں کے مال و زر پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ وہ سودا کرتی ہے اور کماتی ہے۔
بیسوائیں اب سے نہیں ہزارہا سال سے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کا تذکرہ الہامی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اب چونکہ کسی الہامی کتاب یا کسی پیغمبر کی گنجائش نہیں رہی، اس لئے موجودہ زمانے میں ان کا ذکر آپ آیات میں نہیں بلکہ ان اخباروں، کتابوں یا رسالوں میں دیکھتے ہیں جنہیں آپ عود اور لوبان جلائے بغیر پڑھ سکتے ہیں اور پڑھنے کے بعد ردی میں بھی اٹھوا سکتے ہیں۔
طوائفیت کا مسئلہ طوائفوں کو گالی دینے سے حل نہ ہوگا بلکہ عورتوں کو تعلیم دینے سے، عورتوں کی بھوک مٹانے سے، عورتوں پر دنیا کے دروازے کھولنے سے حل ہوگا۔ جب تک یہ کام حکومت نہیں کرے گی طوائفیں قائم رہیں گی۔