Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا

قرۃالعین حیدر

سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا

قرۃالعین حیدر

MORE BYقرۃالعین حیدر

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے شخص کی کہانی جو محبت تو کرتا ہے لیکن اس کے اظہار کی ہمت نہیں کر پاتا۔ پڑوسی ہونے کے باوجود وہ اس گھر کے ایک فرد کی طرح رہتا تھا، اس کے والد کی پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہونے کے باوجود وہ ان لوگوں سے ملنے آتا رہا۔ گھر والے سوچتے رہے کہ وہ ان کی چھوٹی بیٹی سے محبت کرتا ہے مگر وہ تو بڑی بیٹی سے محبت کرتا تھا، اس کی خواہش تھی کہ وہ اسے ایک بار ڈارلنگ کہہ سکے۔

    پھر شام کا اندھیرا چھا گیا۔

    کسی دور دراز کی سرزمین سے، نہ جانے کہاں سے میرے کانوں میں ایک دبی ہوئی سی، چھپی ہوئی آواز آہستہ آہستہ گا رہی تھی،

    چمک تارے سے مانگی، چاند سے داغِ جگر مانگا

    اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلفِ برہم سے

    تڑپ بجلی سے پائی، حورسے پاکیزگی پائی

    حرارت لی نفس ہائے مسیحِ ابن مریم سے

    ذرا سی پھر ربوبیت سے شانِ بے نیازی لی

    ملک سے عاجزی، افتادگی تقدیرِ شبنم سے

    خرامِ ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے

    چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے

    کوئی وائلن کے مدھم سروں پہ یہ گیت گاتا رہا اور پھر بہت سی آوازیں، پیاری سی، جانی بوجھی سی، دور پہاڑوں پر سے اترتی، بادلوں میں سے گزرتی، چاند کی کرنوں پر ناچتی ہوئی بالکل میرے نزدیک آگئیں۔ میرے آس پاس پرانے نغمے بکھیرنے لگیں۔ میں چپ چاپ خاموش پڑی تھی۔ میں نے آنکھیں بندکر لینی چاہیں۔ میں نے سنا، وائلن کے تار لرز اٹھے۔۔۔ اورپھر ٹوٹ گیے۔

    ’’امینہ آپا!‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    ’’امینہ آپا، السلام علیکم۔‘‘

    ’’وعلیکم‘‘

    ’’امینہ آپا، ایک بات سنیے۔‘‘

    ’’کیا ہے بھائی؟‘‘

    ’’افوہ، بھئی امینہ آپا آپ تو لفٹ ہی نہیں دیتیں۔‘‘

    ’’ارے بھئی کیا کروں تمہارا۔‘‘

    ’’باتیں کیجیے، ٹوفی کھائیے۔‘‘

    ’’ہم۔‘‘

    ’’امینہ آپا، ہوائی جہاز میں بیٹھئے گا؟‘‘

    ’’خدا کے لیے آصف میری جان پر رحم کرو۔‘‘

    ’’امینہ آپا واقعی اتنا بہترین فلائنگ فورٹرس آپ کے لیے کینیڈا سے لایا ہوں۔‘‘

    ’’آ۔۔۔ صف۔۔۔ اُل۔۔۔ لو۔۔۔‘‘ یہ میری آواز تھی۔ امینہ آپا انتہائی بے زاری اور فلسفے کے عالم میں صوفے پر اکڑوں بیٹھی، ’’ہندوستان کا غذائی بحران‘‘ پڑھنے میں مشغول تھیں۔ آصف نے مظلومیت کے ساتھ مجھے دیکھا، ’’چلو۔۔۔ مکینو سے تمہارا فلائنگ فورٹرس بنائیں گے۔۔۔ میرا پیارا بچہ۔۔۔‘‘ پھر ہم اندھیرا پڑنے تک ڈریسنگ روم کے دریچے میں بیٹھے مکینو سے طیاروں کے ماڈل بناتے رہے۔

    ’’امینہ آپا اب تک ایسی ہی ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا تمہارے داغِ مفارقت دے جانے کے غم میں تبدیل ہوجاتیں؟‘‘

    ’’بہت اونچی جاتی ہیں بھئی۔۔۔ ہندوستان کا غذائی بحران۔۔۔ وہ کیا ہوتاہے شاہ رخ؟‘‘

    ’’ڈیش اِٹ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم۔۔۔ اللہ، کون عظیم الشان چغد ان سے شادی کرے گا؟‘‘

    ’’فوہ۔۔۔ بہترین امریکی سگریٹ ہیں۔۔۔ پیوگی؟‘‘

    ’’چپ۔۔۔ امینہ آپا نے دیکھ لیا تو کان پکڑ کر گھر سے باہرنکال دیں گی۔‘‘

    ’’بور۔۔۔‘‘ پھر یہ آوازیں بھیگی رات کی ہواؤں کے ساتھ ناچتی ہوئی بہت دور ہوگئیں۔ میں نے سونے کی کوشش کی۔ میری آنکھوں کے آگے خواب کا دھندلکا پھیلتا چلا گیا۔ سرو کے درختوں کے پیچھے سے چاند آہستہ آہستہ طلوع ہو رہا تھا۔ وہ بالکل معمولی اور ہمیشہ کی سی ذرا سنہری رات تھی۔ ہم اسی روز 18۔ وارث روڈ سے شفٹ کر کے اس لین والی کوٹھی میں آئے تھے۔ اس رات ہم اپنے کمرے سجانے اور سامان ٹھیک کرنے کے بعد تھک اور اکتا کر کھانے کے انتظار میں ڈرائنگ روم کے فرش پر لوٹ لگا رہے تھے۔ عثمان ایک نیا ریکارڈ خرید کر لایا تھا اور اسے پچیسویں مرتبہ بجا رہا تھا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ وہ ملکہ پکھراج کا ریکارڈ تھا، ’’جاگیں تمام رات، جگائیں تمام رات۔‘‘ ملکہ پکھراج کی آواز پر ہم بہن بھائیوں کی قوم بالاتفاق مرتی تھی۔

    عثمان جماہیاں لے رہا تھا۔ صبیحہ کچھ پڑھ رہی تھی اورمیں کشنوں پر کہنیاں ٹیکے اور پیر اوپر کو اٹھائے قالین پر لیٹی لیٹی بور ہو رہی تھی۔ اور اس وقت سامنے کے برآمدے کے اندھیرے میں کچھ اجنبی سے بوٹوں کی چاپ سنائی دی اور ایک ہلکی سی سیٹی بجی، ’’ہلو۔۔۔ کوئی ہے۔۔۔‘‘ اور جیسے سمندر کی موجوں کے ترنم کے ساتھ ریوڈی کوٹن کے آرکیسٹرا کی دھن گونج اٹھی، ’’اب اس وقت کون ہوسکتا ہے؟‘‘ عثمان نے ایک طویل جما ہی لے کر ریڈیو گرام کاپٹ زور سے بند کردیا اورکھڑکی میں سے باہر جھانک کر دیکھا، ’’وہی ہوگا کر پا رام کا آدمی۔۔۔ انکم ٹیکس کے قصے والا۔۔۔‘‘ میں نے رائے ظاہر کی اور انتہائی بوریت (Boredome) کے احساس سے نڈھال ہو کر کروٹ بدل لی، ’’ہلو۔۔۔ ارے بھئی کوئی ہے اندر؟‘‘ باہر سے پھر آواز آئی، ’’یہ کرپا رام کا چپراسی قطعی نہیں ہوسکتا۔ اس کی توکچھ چارلس بوائر کی سی آواز ہے۔‘‘ صبیحہ کے کان کھڑے ہوگیے، ’’ڈوب جاؤ تم خدا کرے۔‘‘ میں اور بھی زیادہ بور ہوکر صبیحہ کو کھا جانے کے مسئلے پر غور کرنے لگی۔ باہر اندھیرے میں عثمان اور اس آدھی رات کے ملاقاتی کے درمیان انتہائی اخلاق اور تکلف میں ڈوبا ہوا مکالمہ بزبانِ انگریزی ہو رہا تھا، ’’ہمارے یہاں اچانک بجلی فیل ہوگئی ہے۔ میں یہ معلوم کرنے آیا تھا کہ ساری لائن ہی بگڑ گئی ہے یا صرف ہمارے یہاں ہی خراب ہوئی ہے۔‘‘

    ’’ہمارے یہاں کی بجلی توبالکل ٹھیک ہے۔ آپ فیوز کے تار لے جائیں۔‘‘ پھر کچھ کھٹ پٹ کے بعد عثمان نے ہیٹ ریک کی دراز میں سے تاروں کا لچّھا نکال کر ہمسائے صاحب کی نذر کیا اور وہ بوٹوں کی چاپ برآمدے کی سیڑھیوں پر سے اتر کے روش کی بجری پر سے ہوتی ہوئی پھاٹک تک پہنچ کر لین کے اندھیرے میں کھو گئی۔ اگست کی رات کا نارنجی چاند سرو کے درختوں پر جھلملا رہا تھا۔ یہ آصف تھا۔۔۔ آصف انور۔۔۔ تمہیں یاد ہے زارہ! میں نے ایک دفعہ تمہیں لاہور سے لکھا تھا کہ ہماری ایک بے حد دلچسپ خاندان سے دوستی ہوگئی ہے۔ ہمارے ہمسائے ہیں بے چارے۔ بالکل ہمارے sort کے لوگ۔ اب کی کرسمس میں تم دہرہ دون کے بجائے لاہور آجاؤ تو خوب enjoyکریں۔ ہم سب نے ماہ رخ کی ریاست تک بیل گاڑیوں پرجانے کی اسکیم بنائی ہے۔ یہ آصف کی تجویز تھی جسے ممی آفت کہتی تھیں۔ ان ہی دنوں ماہ رخ کی نئی نئی شادی میڈیکل کالج کے ایک موٹے اوربے انتہا دلچسپ لڑکے سے ہوئی تھی اور اس نے ہم سب کو ہمسایوں سمیت اپنے گاؤں مدعو کیا تھا۔

    اللہ۔۔۔ وہ دن۔۔۔ وہ راتیں! ہماری اور ان کی کوٹھیوں کے بیچ میں وارث روڈ کی آخری لین اور اس کے دونوں طرف باغ کی نیچی سی دیوار تھی۔ ہم اسی دیوار کو پھلانگ کر ایک دوسرے کے یہاں جایا کرتے تھے۔ اکثر جاڑوں کی دھوپ میں اپنی اپنی چھتوں پر بیٹھ کر گرامو فون بجانے کا مقابلہ رہتا۔ خطرے کے موقعوں پر ان بہن بھائیوں کو آئینے کی چمک کے ذریعے ایس۔ او۔ ایس کے پیغام بھیجے جاتے۔ یہ معلوم ہو کر کہ یہ لوگ بھی یو پی کے ہیں کس قدر خوشی ہوئی تھی۔ سب سے بڑی بہن ذکیہ، امینہ آپا کے ساتھ ایم۔ اے کر رہی تھیں۔ شکیلہ اور پروین صبیحہ کے ساتھ سیکرڈ ہارٹ میں تھیں۔ آصف صاحب ان کے اکلوتے بھائی تھے۔ سب کی آنکھوں کا تارا۔ متوقع تھے کہ ہم لوگ بھی انہیں آنکھ کا تارا سمجھ کر ہمیشہ ان کے fusses برداشت کریں گے۔ آپ ایف۔ سی۔ میں کیمسٹری میں ایم۔ ایس۔ سی فرما رہے تھے۔ پٹرول کے رنگ تبدیل کرنے کے تجربوں کے بے انتہا شوقین تھے۔ سیٹی کے ساتھ ساتھ وائلن بہترین بجاتے تھے۔ مغالطہ تھا کہ بے حد خوب صورت ہیں۔ گھر کی بزرگ خواتین اور بچوں سے دوستی کر لی تھی۔ کار اتنی تیز چلاتے تھے کہ ہمیشہ چالان ہوتا رہتا تھا۔ لاہور کے سارے چوراہوں کے پولس مین آپ سے اچھی طرح واقف تھے۔ مال پر پیدل جاتی ہوئی الٹراموڈرن لڑکیوں کوکار میں لفٹ دینے کے تجربوں کے بہت قائل تھے۔ مختصر یہ کہ انتہائی دلچسپ آدمی تھے۔

    اور امینہ آپا۔۔۔ ان کا یہ عالم کہ ہم سے تین چار سال پہلے کیا پیدا ہوئی تھیں کہ قیامت آگئی تھی۔ صبح سے شام تک ہم سب کو بوس کرنے پر مستعد۔ بی۔ اے انہوں نے علی گڑھ سے کیا تھا۔ ایم اے اور بی۔ ٹی کے لیے ہمارے یہاں آگئی تھیں اور ہماری جان کے لیے مستقل قسم کا کورٹ مارشل۔ مجھے وہ شام کتنی تفصیل سے اچھی طرح یاد ہے جیسے یہ باتیں ابھی ابھی کل ہی ہوئی ہیں۔ سفید کشمیری اون کا گولا سلجھاتے ہوئے میں نے آواز میں رقت پیدا کر کے کہا تھا، ’’امینہ آپا!‘‘

    ’’فرمائیے، کوئی نئی بات؟‘‘

    ’’امینہ آپا، پیاری آج شام کو اوپن ایر میں عذرا آپا کا رقص ہے۔‘‘

    ’’جی۔ شہر بھر کے سارے پروگرام آپ کو زبانی یاد ہوتے ہیں۔۔۔ اور پلازا میں آج کون سا فلم ہو رہا ہے؟‘‘

    ’’امینہ آپا! ہنک۔۔۔ ہوں۔۔۔‘‘

    ’’ارشاد؟‘‘

    ’’امینہ آپا ہمیں لے چلو۔۔۔ اودے شنکر اور عذرا آپا روز روز کہاں نظر آئیں گے بھلا۔۔۔ ذکیہ باجی اورشکیلہ وکیلہ سب جارہی ہیں۔‘‘

    ’’آصف بھی ساتھ ہوگا۔‘‘

    ’’مجبوراً چلے گا۔ بے چارا۔ کار وہی ڈرائیو کرتا ہے۔۔۔ ان کا ڈرائیور تو آج کل بیمار ہے۔‘‘

    ’’کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ اور میں تقریباً روتے ہوئے جاکر اپنے ڈریسنگ روم کی کھڑکی میں اون سلجھانے میں مصروف ہوگئی۔ شام کا اندھیرا پھیلتا جارہا تھا۔ نیچے موٹر گیرج کی طرف جانے والی سڑک پر سے وہ آتا ہوا نظر آیا۔ کھڑکی کے پاس پہنچ کر ٹارچ کی روشنی تیزی سے چمکا کر اس نے آہستہ سے کہا، ’’ہلو، جو لیٹ!‘‘

    ’’خوب۔۔۔ معاف فرمائیے، میں کم از کم آپ کے ساتھ تو سیرینیڈ کرنے کو تیار نہیں ہوں۔‘‘

    ’’آہ۔۔۔ اوہ۔۔۔ وہ دیکھو سرو کے پیچھے سے چاند کس قدر اسٹائل سے جھانک رہا ہے۔‘‘

    ’’بلواؤں امینہ آپا کو!‘‘

    ’’پٹواؤگی!‘‘اندر کمرے میں سے غرارے کی سرسراہٹ کی آواز سنائی دی، ’’چپ، آگئیں امینہ آپا۔‘‘ میں ذرا اندھیرے میں جھک گئی۔ امینہ آپا شاید گیلری کی طرف جاچکی تھیں۔ وہ دیر تک نیچے کھڑا باتیں کرتا رہا، ’’کیسی خالص ۱۲ بور ہیں تمہاری امینہ آپا۔‘‘ وہ بی۔ ایس۔ سی تک علی گڑھ میں پڑھ چکا تھا اس لیے ہم آپس کا ضروری تبادلہ خیال وہیں کی زبان میں کرتے تھے۔ ’’۱۲۔۔۔ ۲۲ بلکہ آغا خانی بور۔۔۔‘‘ میں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔ اور پھر ہمیں زور کی ہنسی آگئی۔

    سوچو تو، امینہ آپا آغا خانی بور ہیں! اور چاند کے سائے میں گیت گاتی ہوئی شامیں گزرتی چلی گئیں۔ پچھلی کوٹھی کے ہمارے کمرے کی سنگھار کمرے کی سمت والے سائڈ روم میں وائلن بجتا اور صبیحہ پڑھتے پڑھتے کتابوں پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیتی۔ سرو اور چنار کے پتوں کی سرسراہٹ میں سے چھنتی ہوئی اس کے پسندیدہ گیتوں کی آواز خواب میں کہیں پریوں کے ملک سے آتی ہوئی معلوم ہوتی، ’’سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا۔‘‘ اور امینہ آپا جھنجلا کر تیزی سے ٹائپ کرنا شروع کردیتیں۔ ایک مرتبہ عثمان صاحب کیرم میں ہارتے ہارتے جوش میں آکر گانے لگے، ’’ستارے جھلملا اٹھتے ہیں جب میں شب کو روتا ہوں۔‘‘

    ’’اوہو آپ شب کو روتے بھی ہیں۔ چچ چچ چچ۔۔۔‘‘ آصف بولے۔ بے چارہ عثمان جھینپ گیا۔ ’’وہ دیکھیے، ستارے جھلملا رہے ہیں، اب آپ رونا شروع کر دیجئے۔‘‘ ہم سب اوپرکھلی چھت کی منڈیروں پربیٹھے تھے۔ ذکیہ باجی اور امینہ آپا ایک طرف کومڑی ہوئی کچھ اشتراکیت اور ہندوستان کے پوسٹ دار مسائل پر ہماری عقل و فہم سے بالا تر گفتگو کر رہی تھیں، ’’آصف! اگر تم اترانہ جاؤ تو تم سے کچھ نغمہ سرائی کی درخواست کی جائے۔‘‘ شکیلہ نے کہا۔

    ’’وعدہ کرتا ہوں قطعی نہیں اتراؤں گا۔ بے حد عمدہ موڈ ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’وہی عالم بالا والا۔۔۔‘‘ صبیحہ نے کہا، ’’وہ جو تم علی گڑھ کے کسی شاعر کے ترنم میں پڑھا کرتے ہو، وہی بھئی۔۔۔ مغرب میں اک تارا چمکا۔‘‘ میں نے کہا، ’’کیا کہیے مجھے کیا یاد آیا؟ آپ تو سامنے تشریف رکھتی ہیں، مجھے اس وقت کیا خاک یاد آئے گا؟‘‘

    ’’شروع ہوئی اتراہٹ۔‘‘ پھر ہم دیر تک اس سے سنتے رہے،

    مغرب میں اک تارا چمکا

    کیا کہیے مجھے کیا یاد آیا

    جب شام کا پرچم لہرایا

    کیا کہیے مجھے کیا یادآیا

    فضا خاموش تھی۔۔۔ دورآسمان کی نیلگوں بلندیوں میں چند چھوٹے چھوٹے رو پہلے ستارے جگمگا کر دھندلکے میں کھو گیے۔ ’’کیا سچ مچ یہ مدھم تارے ہماری قسمتوں کی اکیلی راہوں پر جھلملاتے ہیں۔‘‘ صبیحہ نے کچھ سوچتے ہوئے، آہستہ آہستہ، جیسے اپنے آپ سے پوچھا۔ ’’اور کیا۔۔۔ کتابوں میں جو لکھا ہے۔ شیرو کا۔۔۔‘‘ آصف نے فوراً بڑی مستعدی سے ذرا عالمانہ انداز میں کہنا شروع کیا، ’’قول ہے کہ۔۔۔‘‘ وہ اس قدر Tom Boyish تھا اوربعض دفعہ حیرت ہوتی تھی کہ ایسے طفلانہ مزاج کا لڑکا بڑوں کے سامنے اور تکلف کی سوسائٹی میں کس طرح اتنا سنجیدہ بن جاتا ہے۔ ہم سب پھر چپ ہوگیے۔

    خاموش رات اور کھلی ہوئی فضاؤں کی موسیقی میں خوابوں کی پریاں سرگوشیاں کر رہی تھیں، محبت۔۔۔ زندگی۔۔۔ محبت۔۔۔ زندگی۔۔۔ او بلند و برتر خدا وند! سیاہ افق کے قریب ایک بڑا سا روشن ستارہ ٹوٹ کر ایک لمبی سی چمکیلی لکیر بناتا ہوا اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ ہم آسمان کو دیکھنے لگے، ’’کوئی بڑا آدمی مرگیا۔‘‘ میں نے کہا، ’’واقعی؟ امینہ آپا دی مہاتما گیے۔‘‘ آصف نے ذرا اونچی آواز میں کہا۔ دوسرے لحظے میں ایک اور ننھا سا تارا ٹوٹا۔ ’’ارے ان کے سیکرٹری بھی۔۔۔‘‘ عثمان چلایا۔ اس رات بہت سے ستارے ٹوٹے اور ہم ساری باتیں چھوڑ چھاڑ کر آسمان کو دیکھتے رہے۔ اور جو ستارہ ٹوٹتا اس کے ساتھ کسی بڑے لیڈر کو چپکا دیتے۔ ’’ساری ورکنگ کمیٹی ہی سفر کر گئی۔‘‘ آخر میں آصف انتہائی رنجیدہ آواز میں بولے۔ امینہ آپا نے ہماری باتیں نہیں سنیں ورنہ خیریت نہیں تھی۔ وہ بے حد مشغولیت سے ہمارے ایک سوشلسٹ قسم کے بھائی اور ذکیہ باجی کے ساتھ سیاسیات پر تبصرہ کر رہی تھیں، ’’راجندربابو اور ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس روز یہی کہا تھا۔‘‘

    ’’وردھا سے لوٹتے میں شری چندر شیکھر جی نے مجھے بھی یہی بتایا تھا کہ اکھنڈ بھارتیہ گھاسیہ گیند بلا بھڑنت۔۔۔‘‘ سوشلسٹ بھائی نے کچھ کہنا شروع کیا۔ ذکیہ باجی بے حد عالمانہ اور مفکرانہ صورت بنائے ان کی طرف عقیدت کے ساتھ متوجہ تھیں۔ ’’اب یہاں سے بھاگنا چاہیے۔‘‘ آصف نے چپکے سے کہا اور ہم سب ان سیاست دانوں کو وہیں چھت پر ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کرتے چھوڑ کر منڈیروں پر سے چھلانگتے ہوئے نیچے اتر آئے۔

    دوسرے روز صبح کی چاء کی میز پر انہیں سوشلسٹ بھائی نے، جو تین چار دن سے بمبئی سے ہمارے یہاں آئے ہوئے تھے اپنی سیاہ فریم کی عینک میں سے، جو ان کی لمبی سی ناک پر بے حد انٹلک چوئل انداز سے رکھی تھی، غور سے دیکھا۔ وہ مستقل تین روز سے خاموش قسم کا پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ ہم لڑکیاں ان سے وہ سب کتابیں اور پمفلٹ خرید لیں جو ان کے زبردست چرمی بیگ میں بند ہمارے ذہنوں کی سیاسی تربیت کا انتظار کر رہے تھے۔ ’’شاہ رخ آپا، اکھنڈ بھارتیہ گھاسیہ گیند بلا بھڑنت۔۔۔‘‘ عثمان نے چاء دانی میری طرف دھکیلتے ہوئے چپکے سے کہا۔ مجھے اور صبیحہ کو زور کی ہنسی آگئی۔ امینہ آپا نے عثمان کی بات سن کر ہمیں ہنستے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے ہم پر کھا جانے والی نظریں ڈالیں اور چائے بنانے میں ممی کی مدد کرنے لگیں۔ وہ ہمیں سدھارنے کی طرف سے بالکل نا امید ہوچکی تھیں۔ غسل خانے میں چھوٹا عارف نہاتے ہوئے زور زور سے گارہا تھا، ’’مغرب میں اک تارا چمکا۔۔۔ مغرب میں اک تارا چمکا۔۔۔‘‘ اور سوشلسٹ بھائی جلدی جلدی سنترہ کھانے میں مصروف ہوگیے۔

    دوپہر کو ڈرائنگ روم کے فرش پر امینہ آپا اور ان کی رفیقوں کی ایک میٹنگ ہو رہی تھی جو سوشلسٹ بھائی کے بمبئی سے آنے کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔ ہم نے شیشوں میں سے جھانک کر دیکھا۔ کس قدر اسٹائل سے وہ سوشلسٹ بھائی پائپ کادھواں اڑا رہے تھے۔ اسی وقت آصف سیٹی بجاتا ہوا آنکلا، ’’یا اللہ! کیسی کیسی مخلوق تم نے نمونتاً اپنے یہاں جمع کر رکھی ہے۔‘‘ اس نے گھبرا کر کہا۔

    ’’چپ، جانتے ہو سوشلسٹ بھائی صبیحہ سے شادی کرنے کی فکر میں ہیں۔‘‘ میں نے بتایا اور آصف کا ہارٹ فیل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ شام کو بے حد تفصیلاً اپنے دوستوں کو ہم نے اس میٹنگ کی کارروائی کی رپورٹ سنائی کہ ہمارے گھر پر ہندوستان کی کیسی کیسی مقتدر اور اعلیٰ و ارفع ہستیاں آتی ہیں۔ آصف نے پوچھا، ’’کیا واقعی سوشلسٹ بھائی والی بات سچ ہے؟‘‘

    ’’اور کیا۔ تم کو کم از کم ڈویل تو لڑنا ہی پڑے گا۔‘‘

    ’’اور کون کون لوگ تھے یہ۔‘‘

    ’’تم سب سے باری باری ڈویل لڑلو۔‘‘

    ’’۔۔۔ کو ایک بارمیں نے بھی دیکھا تھا۔ ذکیہ باجی! خدا کی قسم یہ لمبی داڑھی۔‘‘ عارف نے اپنی معلومات سے اضافہ کرنا چاہا۔ ’’اور ایک صاحب ہیں، امینہ آپا کے خاص رفیق، جن کے ساتھ وہ لکھنؤ میں پربھات پھیریوں کے گیت لکھا کرتی تھیں۔ وہ یوں اچک اچک کر چلتے ہیں۔‘‘ عثمان نے باقاعدہ demonstrate کر کے بتایا۔ ’’لکھنؤ میں ریڈیو اسٹیشن پر میں نے سلام صاحب کو دیکھا تھا۔ اس قدر۔۔۔ بس کیا بتاؤں۔۔۔ جو لڑکی فی البدیہہ ان کو نظرآتی ہے اس پر ایک نظم لکھ ڈالتے ہیں۔‘‘ صبیحہ صاحبہ نے ارشاد کیا تاکہ آصف اور جلے۔ ’’فی البدیہہ نظر آتی ہے؟ ذرا اپنی اردو پر غور کیجئے۔‘‘ میں نے جل کر آصف کی حمایت میں کچھ اور کہنا چاہا لیکن پیچھے سے شکیلہ کی آواز آئی، ’’ارے خرگوشو! امینہ آپا ادھر آرہی ہیں۔ اپنی برادری والوں کے متعلق ایسی باتیں کرتے پایا تو جان کی خیرنہیں۔‘‘ امینہ آپا اور سوشلسٹ بھائی پائپ کا دھواں اڑاتے، ہاتھ میں تین چار تمباکو کے ڈبّے سنبھالے واقعی لان کی طرف چلے آرہے تھے۔ ہم سب بھیگی بلّیوں کی طرح ادھر ادھر بھاگ گیے۔

    کچھ عرصہ بعد سوشلسٹ بھائی بمبئی واپس چلے گیے۔ بارشوں کا موسم شروع ہوچکا تھا۔ مارہ رخ کے شوہر کی جب میڈیکل کالج میں چھٹیاں ہوئیں تو وہ چند روز کے لیے اپنی سسرال کے گاؤں سے ہمارے یہاں آگیے۔ بڑے انتظام سے آصف سے اس کا پہلی بار تعارف کرایا گیا۔ اس کے گیچو سے شوہر صاحب، جو ڈاکٹری کے پانچویں سال میں پڑھتے تھے، بے حد جلے کہ کیسے اسمارٹ اور شان دار لڑکے سے ان لوگوں کی دوستی ہوئی ہے۔ ماہ رخ کے آنے پر ہم نے بہت سے پروگرام بنائے تھے لیکن مستقل بارش ہونے لگی اور ہم کوئی ایکٹی وٹی نہ کرپائے۔ اس روز صبح جب میں کالج جانے کے لیے موٹر خانے سے سائیکل نکالنے کے لیے گئی تو ہمارے ٹماٹر یا چقندر جیسی شکل والے کشمیری چپراسی نے اپنی سرخ لمبی لمبی مونچھیں بے حد مفکرانہ انداز میں ہلا کر کہا، ’’بی بی جی آج تو کچھ برسات کا ارادہ ہو رہا ہے، مدرسے مت جاؤ۔‘‘ میں چڑ گئی۔ اندر ماہ رخ پچاس مرتبہ کہہ چکی تھی کہ ’’تم کو آج کالج قطعی نہیں جانا چاہیے، برج کھیلیں گے، نئے ریکارڈ بجائیں گے اور آصف کو بلا کر باتیں کریں گے۔‘‘ میں نے تقریباً چلّا کر کہا، ’’علی جو! تم سیدھے میری سائیکل نکال کر صاف کرو۔ سمجھے۔ میں ضرور جاؤں گی کالج۔‘‘

    ’’ضرور جاؤ۔ اور جو وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ آج رینی ڈے کی چھٹی ہے تو محترمہ بھیگتی ہوئی تشریف لے آئیے گا۔ اترا ہی گئیں بالکل۔‘‘ صبیحہ نے ڈریسنگ روم کی کھڑکی میں سے جھانک کر کہا، ’’بی بی، صاحب آتے ہی ہوں گے۔ میں موٹر پر آپ کو پہنچا دوں گا۔‘‘ علی جو نے پھر مونچھیں ہلائیں۔ میں نے کچھ جواب نہیں دیا اور اس کے ہاتھ سے سائیکل لے کر تیزی سے نکل کر سڑک پر آگئی۔ اسی وقت آصف اپنے پھاٹک سے باہر نکلا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے اپنی سائیکل میرے ساتھ ساتھ کردی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ گھر کے باہر ہمارا ساتھ ہوا تھا، ’’ہلو۔۔۔ آپ کی تھوتھنی کیوں چڑھی ہوئی ہے؟‘‘

    ’’آپ سے مطلب؟‘‘

    ’’اوہو تو گویا آپ خفگی فرما رہی ہیں۔ جرم! کیا سوشلسٹ بھائی آپ کے لیے بھی پیغام دے گیے ہیں؟‘‘ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ دونوں سائیکلیں برابر چلتی رہیں۔ وارث روڈ بالکل خاموش اور بھیگی بھیگی پڑی تھی۔ سوکھے تالاب کے نزدیک کسی بدتمیز نے گا کر کہا، ’’اوئے ساون کے نظارے ہیں۔۔۔‘‘ اور غصے کے مارے میرا جی چاہا کہ بس مرجاؤں۔ ابھی ہم سڑک کے موڑ تک بھی نہ پہنچے تھے کہ بارش کا ایک زور دار ریلا آگیا، ’’آخر تم جا کہاں رہی ہو بھئی؟‘‘

    ’’جہنم میں۔۔۔ پھر تم بولے۔‘‘ اور میں نہ جانے کیوں جیل روڈ پر مڑ گئی۔ ابھی میں گھر سے بہت دور نہیں گئی تھی۔ درختوں کے جھنڈ میں سے اپنی کوٹھی کی چھت اب بھی نظر آرہی تھی لیکن واپس جاکر شکست کااعتراف کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ ’’شاہ رخ گھر واپس جاؤ۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کیا صبیحہ سے صبح صبح لڑائی ہوئی ہے؟‘‘

    ’’آپ کو کیوں اتنی میری فکر پڑی ہے۔ اپنا راستہ لیجیے آپ۔‘‘

    ’’اور تمہیں یوں بیچ منجدھار میں چھوڑ جاؤں۔‘‘

    ’’آپ میری حفاظت کا حق کب سے رکھتے ہیں؟‘‘

    ’’اچھا میں بتاؤں بہترین ترکیب۔ یہاں پہاڑی پر کسی سایہ دار درخت کے نیچے رک جاؤ اور جب بارش کم ہوجائے تو جاکر کہہ دینا کہ صرف ایک پیریڈ اٹنڈ کر کے آرہی ہوں۔‘‘

    ’’جی ہاں، اور آپ بھی اس درخت کے نیچے تشریف رکھیں۔ اس نازک خیالی کی داد دیتی ہوں۔‘‘

    ’’اچھا تو اسی طرح بارش میں سڑکوں کے چکر لگاتی رہیے۔ میرا کیا ہے، نمونیہ ہوگا، مرجاؤ گی۔‘‘ اس نے واقعی جل کرکہا اور اپنی سائیکل وارث روڈ کی طرف موڑ لی۔ ’’مرجاؤ تم خود۔۔۔‘‘ میں نے ذرا زور سے کہا۔ وہ کافی دور نکل گیا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ واقعی یوں لڑکوں کی طرح سڑکوں پر چکر لگانا کس قدر زبردست حماقت ہے۔ میں نے اس کے قریب پہنچ کر کہا، ’’آصف!‘‘ وہ چپ رہا۔ ’’آصف صلح کر لو۔‘‘

    ’’پھر لڑو گی؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’وعدہ فرمائیے۔‘‘

    ’’وعدہ تو نہیں لیکن کوشش ضرور کروں گی۔‘‘ میں نے اپنا پسندیدہ اور نہایت کار آمد جملہ دہرایا۔ ’’گھر چلو واپس۔‘‘ اس نے حکم لگایا۔ میں نے اسی میں عافیت سمجھی کیوں کہ اچھی خاصی سردی محسوس ہونے لگی تھی۔ چنانچہ میں نے خاموشی سے اس کے ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ ابھی ہم وارث روڈ کے موڑ پر ہی تھے کہ کیا نظر آیا کہ چلی آرہی ہیں امینہ آپا کار میں بیٹھی ہوئی زنّاٹے میں۔ ہمارے قریب پہنچ کر زور سے بریک لگا کے انہوں نے کار روک لی اور سائیکل پر بیٹھے بیٹھے میری روح فی الفور قفس عنصری سے عالم بالا کی طرف پرواز کر گئی۔ انہوں نے مجھے بالکل سالم کھاجانے والی نظروں سے دیکھا۔

    ’’آپا! میں کالج سے آرہی تھی کہ تو رستے میں دیکھیے بارش آگئی۔‘‘ میں نے اپنی آواز بے انتہا مری ہوئی پائی۔ ’’اوہو، آپ کا کالج اب اتوار کے روز بھی کھلتا ہے۔‘‘ اور اس وقت مجھے یاد آیا کہ آج کم بخت اتوار تھا۔ بھیگی بلّی کی طرح میں بے چاری ان کے پاس جا بیٹھی۔ ڈرائیور نے سائیکل پیچھے باندھی اور ہم چل دیے گھر کو۔ امینہ آپا نے اخلاقاً بھی آصف سے نہ کہا کہ تم بھی کار میں آ جاؤ۔ وہ بے چارا بھیگتا بھاگتا نہ جانے کدھر کو چلا گیا۔ گھر پہنچ کر اتنے زور کی ڈانٹ پلائی ہے امینہ آپا نے کہ لطف آگیا۔

    اس سانحے کے بعد کچھ عرصے کے لیے آصف کے ساتھ برج اور کیرم موقوف، وائیلن، سیٹیاں، ٹارچ اور آئینے کی چمک کے ذریعہ ایس۔ او۔ ایس۔ کے پیغامات ملتوی۔۔۔ اور مغرب میں جھلملاتے تاروں کے سارے رومان کا خاتمہ بالخیر ہوگیا۔ میڈیکل کالج جب کھلا تو ماہ رخ اپنی ریاست واپس چلی گئی۔ ایک روز ہم نے سنا کہ عارف ہماری بدمذاقی سے خفا ہو کر مری جارہا ہے۔ در اصل وہ ضروری کام کے لیے وہاں جارہا تھا۔ بہر حال ہم کو اس کا بے حد افسوس تھا کہ محض امینہ آپا کی وجہ سے کیسا اچھا اور دلچسپ دوست ہم سے ناراض ہوگیا۔ مری میں اس کے چچا رہتے تھے جن کی بھورے بالوں اور سبز آنکھوں والی خوب صورت لڑکی سے اکثر اس کی منگنی کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔

    پھر اس روز ہمیں کتنی خوشی ہوئی ہے جب یہ معلوم ہوا ہے کہ امینہ آپا مسلم گرلز کالج میں اکنومکس کی لیکچرر ہو کر علی گڑھ جارہی ہیں۔ جانے والی شام وہ بڑے سکون کے ساتھ آئینے کے سامنے کھڑی اسٹیشن جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ میں نے ان کی نظر بچا کر کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ وہ سرو کے درختوں کے اس پار اپنے کمرے میں لیمپ کے سامنے انتہائی انہماک سے پڑھنے میں مصروف تھا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ کاش وہ روٹھا ہوا نہ ہوتا تو ہمیشہ کی طرح امینہ آپا پر کوئی ایکٹی وٹی کرتے۔ سنگھار میز پر سے دستی آئینہ اٹھا کر اس کی چمک کے ذریعے ایس۔ او۔ ایس کا پیغام بھیجنے کی فکر کر رہی تھی کہ امینہ آپا نے جھٹ میرے ہاتھ سے آئینہ لے لیا اور اس میں اپنے بالوں کا جائزہ لینے لگیں اور میں ان کے علی گڑھ پہنچتے ہی کسی حد سے زیادہ وحشت زدہ پروفیسر کے عشق میں مبتلا ہوجانے کے انہماک پر غور کرنے لگی۔

    لیکن خدا ایسی تجویز قبول کب کرتا ہے! امینہ آپا جارہی تھیں۔ میں نے چپکے سے صبیحہ سے کہا کہ وہ باغ کی پچھلی دیوار پر ایس۔ او۔ ایس (صبیحہ، عثمان، شاہ رخ) کا پیغام لکھ آئے۔ صبیحہ نے کوئلے سے لکھ دیا، ’’مت جاؤ۔‘‘ صبح کو اس کے نیچے لکھا ہوا ملا، ’’ضرورجاؤں گا۔‘‘ اور آصف بھی چلا گیا۔ بڑی جان جلی۔ لیکن کیا کرتے۔ اس کے کچھ عرصے بعد سرما کی چھٹیوں میں ہم زارہ کے پاس دہرہ دون چلے گیے۔ وہاں ایک رات زارہ اپنی ایک دوست کے ساتھ اوڈین سے نکل کر باہر اندھیرے میں جب اپنی کار میں بیٹھی اور کہا کہ غفور، پرمیلا بابا کولٹن روڈ پہنچاتے ہوئے اب سیدھے گھر چلو۔ سامنے ڈرائیور کی سیٹ پر سے کسی صاحب نے مری ہوئی آواز میں عرض کیا کہ ’’جی میں غفور قطعی نہیں ہوں۔ میرا نام پائیلٹ آفیسر آصف انورہے۔ اور مجھے آپ سے مل کر یقین فرمائیے، انتہائی قلبی مسرت محسوس ہوئی ہے۔‘‘ اور کار اسٹارٹ کردی گئی۔ زارہ اور پر میلا خوف اور غصے سے چلا اٹھیں، ’’آپ کون ہیں اور ہماری کار میں کیوں گھس گئے؟ روکیے فوراً۔‘‘

    ’’جی اتفاق سے یہ کار خاکسار کی ہے۔ دہرہ دون میں اوڈین کے سامنے ایک ہی طرح کی دوکاروں کا پارک ہوجانا بہت زیادہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔‘‘

    ’’ختم کیجیے اپنی تقریر اور روکیے موٹر۔‘‘

    ’’پر میلا بابا کولٹن روڈ پہنچا دیا جائے گا۔ اس قدر پریشان نہ ہوئیے، کہرا بہت زیادہ ہے۔ رات بے حد سرد ہے اور ہم آدھے رستے آگیے ہیں۔‘‘ دونوں بچیاں بے چاری جھنجھلاہٹ اورغصے کے مارے کچھ اور کہہ بھی نہ پائی تھیں کہ چند منٹوں میں کار زنّاٹے سے ہماری برساتی میں داخل ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ آپ دہرہ دون میں ایئر فورس کے انٹرویو کے بعد میڈیکل کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ خوب آپ کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ ممی نے ڈانٹا کہ تم ہم سب سے رخصت ہوئے بغیر ہی اس طرح اچانک مری چلے گیے۔ اس نے بگڑ کر کہا کہ امینہ آپا نے کیوں شاہ رخ کو سائیکل پر بارش میں بھیگنے کی وجہ سے ڈانٹ پلائی تھی۔ سوشلسٹ بھائی منطق اور جغرافیے کے کس نقطے کی رو سے صبیحہ سے شادی کرنے کی فکر میں تھے اور ماہ رخ کے میاں، قبلہ ڈاکٹر صاحب، کس لیے اس سے جلے جاتے تھے؟ مختصر یہ کہ ہم لوگوں میں صلح صفائی ہوگئی اور پھر پہلے کی طرح دوست بن گئے۔ پھر وہی برج، کیرم، شرارتیں اورگانے۔ وہی مغرب میں ایک تارا چمکا۔ آتش دان کی روشن آگ کے سامنے بیٹھے ہوئے ہم سب اس سحر انگریز آواز اور وائلن کے نغمے سنتے،

    کیا کہیے مجھے کیا یاد آیا

    کیا کہیے مجھے کیا یاد آیا

    ٹیلے کی طرف چرواہے کی بنسی کی صدا ہلکی ہلکی

    اور شام کی دیوی کی چنری شانوں سے پرے ڈھلکی ڈھلکی

    مغرب میں اک تارا چمکا۔۔۔!

    اور پھر جو ایک روز میں نے آصف کے اپنے بہنوئی بننے کے امکانات پر نظر کی تو مجھے یہ خیال بہت خاصا پسند آیا۔ کرسمس کی تعطیلات میں امینہ آپا بھی علی گڑھ سے دہرہ دون آگئی تھیں۔ ممی تک پہنچانے کے لیے امینہ آپا کے سامنے یہ تجویز پیش کردینی بے حد ضروری تھی۔ ایک رات جب کھانے کے بعد امینہ آپا ششماہی امتحان کے پرچے دیکھ رہی تھیں میں دبے پاؤں ان کے کمرے میں پہنچی اور ادھر اُدھر کی بے معنی باتوں کے بعد ذرا ڈرتے ہوئے بولی، ’’امینہ آپا۔۔۔!‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    ’’امینہ آپا۔ ایک بات سنیے۔‘‘

    ’’فرمائیے۔‘‘

    ’’ار۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔ اگر آصف کی شادی کردی جائے تو کیسا رہے گا؟‘‘

    ’’بہت اچھا رہے۔‘‘

    ’’میرا مطلب ہے صبیحہ کے ساتھ۔‘‘

    ’’آپ کی بلند نظری کی داد دیتی ہوں۔ کس قدر اعلیٰ خیالات ہیں۔‘‘

    ’’لیکن۔۔۔ لیکن امینہ آپا آپ کو معلوم نہیں کہ آصف اور صبیحہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں، یعنی دوسرے لفظوں میں یہ محبت کرتے ہیں ایک دوسرے سے‘‘ میں نے ذرا ایسے mild طریقے سے کہا، آمینہ آپا کو دفعتاً shock نہ ہوجائے۔ امینہ آپا کی انگلیوں سے قلم چھوٹ گیا اور اس طرح دیکھنے لگیں جیسے اب انہیں قرب قیامت کا بالکل یقین ہوچلا ہے۔ ’’۔۔۔ کیا کہا۔۔۔؟ محبت! محبت!! اُف کس قدرتباہ کن، مخرب الاخلاق خیالات ہیں۔ محبت۔ یا اللہ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایسی واہیات باتیں بھی تم لوگوں کے دماغ میں گھس سکتی ہیں۔ میری ساری تربیت۔۔۔‘‘

    ’’لیکن امینہ آپا دیکھیے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟ آصف نوکر بھی ہوگیا ہے۔ ایک دم سے ساڑھے چھ سو کا اسٹارٹ اسے مل رہا ہے۔ وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ صبیحہ بھی بہت اچھی لڑکی ہے۔ دونوں کی کتنی اچھی گزرے گی اگر ان کی شادی۔۔۔‘‘

    ’’شادی۔۔۔ شادی۔۔۔ کیا اس لغویت کا خیال کیے بغیر تم لوگ رہ ہی نہیں سکتے۔ تمہیں دنیا میں بہت کام کرنے ہیں، طوفانوں سے لڑنا ہے، ملک کا مستقبل سنوارنا ہے۔‘‘

    ’’پر امینہ آپا ایک کے بجائے دو انسان ساتھ ساتھ طوفانوں سے زیادہ بہتر طریقے پر لڑ سکتے ہیں۔ اور آصف تو ہوائی جہاز اڑانے لگے گا۔۔۔!‘‘

    ’’چپ رہو۔۔۔ آصف۔۔۔ ہنہ۔۔۔ یہ لڑکا مجھے قطعی پسند نہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ کچھ بہت عجیب سا شخص ہے۔ بچوں کی طرح ہنستا ہے۔ لڑکیوں میں حد سے زیادہ دل چسپی لیتا ہے اور غضب یہ کہ کل شام صبیحہ کو ڈرالنگ کہہ کر پکار رہا تھا۔۔۔ انتہا ہوگئی!‘‘ امینہ آپا کچھ اور لیکچر پلاتیں اس لیے میں نے اپنی خیریت اسی میں دیکھی کہ چپکے سے اٹھ کر چلی آؤں۔ اپنے کمرے میں آکر سوچنے لگی، آصف مجھے قطعی پسند نہیں۔ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ لڑکیوں میں حد سے زیادہ دل چسپی لیتا ہے۔ تو کیا اسے لڑکیوں کی بجائے الماریوں اور چاء کے چمچوں میں دل چسپی لینا چاہیے؟ اب کیا کیا جائے؟

    آصف صاحب ٹریننگ کے لیے انبالے اور پھر شاید پونا تشریف لے گیے اور بہت جلد نہایت اعلیٰ درجے کے ہوا باز بن گیے۔ انتہا سے زیادہ daring اور خطرے کی اڑانیں کرنے میں ماہر اور پیش پیش۔ حادثوں سے کئی بار بال بال بچے۔ ایک دفعہ ایک نئی مشین کی ٹسٹ فلائٹ کے لیے ایروڈروم سے اس زنّاٹے سے نکلے کہ اوپر پہنچ کر معلوم ہوا صرف انجن آپ کے پاس ہے اور طیارے کی باڈی پیچھے زمین پر رہ گئی ہے۔ ہم دہرہ دون ہی میں تھے جب وہ انبالے سے سہارن پور ہوتا ہوا دہر ہ دون آیا۔ راستے میں ڈاٹونگ کے شوق میں آپ اس قدر نیچے اترے کہ ایک کوٹھی کی چھت پر لگے ہوئے ایریل ہوائی جہاز کے پہیوں میں الجھ کر ساتھ ساتھ اڑتے چلے گیے۔ آس پاس کی ساری کوٹھیوں کے تار اس طرح ہل گیے جیسے زلزلہ آگیا ہے اور لوگ گڑگڑاہٹ کے شور سے پریشان ہو کر باہر نکل آئے۔ وہ کوٹھی ایک انگریز کرنل کی تھی۔ آصف بہت ڈرا کہ کہیں وہ آصف کے افسروں سے اس کی شکایت نہ کردے لیکن عین موقعے پر اس بوڑھے کرنل کی لڑکی، جس کی خواب گاہ کے روشن دانوں کے اوپر سے آپ گزرے تھے، آپ کے عشق میں مبتلا ہوگئی اور معاملہ رفع دفع ہوا۔

    پونا سے آصف کو ایک دم کناڈا بھیج دیا گیا۔ سمندر پار جانے سے پہلے وہ ہم سب سے رخصت ہونے کے لیے گھر آیا۔ پپا کا تبادلہ لاہور سے ہوچکا تھا اور ہم سب لکھنؤ آگئے تھے۔ ممی اور خالہ بیگم نے اس کے بہت سارے امام ضامن باندھے اور عثمان اور عارف نے ڈھیروں پھولوں سے لاد دیا۔ ہم نے اس کی پسندیدہ ’’ڈرمربوائے ٹافی‘‘ کا ایک بڑا سا ڈبّہ اس کے اٹیچی میں رکھ دیا۔ چلتے وقت اس نے کہا، ’’شاہ رخ پیاری! امینہ آپا جب علی گڑھ سے آئیں تو ان سے میرا سلام کہہ دینا اور اگر سوشلسٹ بھائی سے صبیحہ نے شادی کر لی تو یاد رکھنا میں چپکے سے ایک روز آکر ان کے گھر پر بم گرا جاؤں گا۔ ہم برآمدے کی سیڑھیوں پر سے آہستہ آہستہ اتر رہے تھے۔ ’’شاہ رخ۔۔۔ صبیحہ، ڈارلنگز۔۔۔‘‘

    ’’آصف! ہم ہمیشہ بہترین دوست رہیں گے نا؟‘‘

    ’’ہمیشہ۔۔۔!‘‘

    ’’اور تم کناڈا سے بہت سارے پکچر پوسٹ کارڈ بھیجو گے؟‘‘

    ’’بہت سارے۔‘‘

    ’’اور وہاں جتنے گانے سیکھو گے ان کی ٹیونیں لکھ لکھ کر بھیجا کرو گے۔‘‘

    ’’بالکل۔‘‘

    ’’اور ہوائی جہاز اتنا نیچا نہیں اڑاؤ گے کہ لوگوں کے گھروں کے ایریل اور انگریز لڑکیوں کے دل ٹوٹ جائیں۔‘‘

    ’’قطعی نہیں۔‘‘ پھر وہ چلا گیا۔ بہت دنوں سمندر پار رہنے کے بعد وہ پچھلی جنوری میں رخصت پر گھر آیا۔ اب وہ اس قدر ace اور شان دار ہوا باز بن چکا تھا کہ جب وہ اپنی گرجتی ہوئی امریکن کار میں سے اتر کر ہری کین کے بگولے کی طرح کمرے میں داخل ہوا، ہم سب کے سب بے انتہا مرعوب ہوگیے۔ So the boy comes homeصبیحہ نے خوشی سے چلا کرکہا اور اس نے جھک کر صبیحہ کو ایک ہلکی پھلکی گڑیاکی طرح اٹھا لیا، ’’اوہ ڈارلنگز۔۔۔ میری ننھی خرگشنیو۔‘‘ اور امینہ آپا یہ سن کر بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گئیں۔ رخصت ختم ہونے کے بعد وہ پھر اپنے مستقر پر چلا گیا اور وہاں سے جرمنی کے فضائی محاذ پر بھیج دیا گیا۔ کچھ عرصے تک حسب معمول اس کے ایئرگراف باقاعدگی سے ہمارے اور اس کے اپنے گھر والوں کے پاس آتے رہے۔ اور پھر۔۔۔ میں نے آنکھیں بند کر لینی چاہیں لیکن خوابوں کا پھیلتا ہوا دھندلکا سمٹ چکا تھا۔

    وہ مانوس اور پیاری آوازیں اندھیرے میں ڈوبتی چلی گئیں۔ باہرسرو کے جھنڈ میں تیز ہوائیں سیٹیاں بجا رہی تھیں۔ مئی کی رات کا زرد اور بیمار چاند اس خوابیدہ، فریب خوردہ، خستہ دنیا پر اپنی اداس کرنیں برسا رہا تھا۔ یورپ کی جنگ ختم ہوچکی۔ دوسری منزل پر ریڈیو میں شکرانہ کی سروس ہو رہی تھی۔ آرگن کی مدھم گونج اور مقدس و بلند خدا کی حمد کے نغمے فضا میں لہرا رہے تھے۔ کاش، کاش آصف نہ مرتا۔۔۔ کاش آصف نہ مرتا۔۔۔ یا اللہ! میں نے آنکھیں بند کر کے تکیوں میں منہ چھپا لیا۔ صبح بریگیڈیئر اسٹینلی، ممی اور صبیحہ سے فون پر کہہ رہے تھے، ’’بیگم صاحبہ آپ کا بھانجہ۔۔۔ مس احمد آپ کا منگیتر انتہائی بہادری سے لڑا اور اس نے شان دار جواں مردی سے جان دی۔۔۔ ہمیں اپنے ایسے لڑکوں پر کتنا فخر اور غرور ہے۔۔۔ بیگم صاحبہ۔۔۔ میری دلی ہمدردی قبول کیجیے۔۔۔‘‘

    دلی ہمدردی۔۔۔ امینہ آپا اپنے کمرے میں ٹائپ میں مصروف تھیں۔ کھٹ کھٹ کی آواز بے ترتیب اورمنتشر ہوتی جارہی تھی۔ مئی کی خشک ہوائیں بہار کے بادلوں کو برسائے بغیر اڑا لے گئیں۔ درختوں کی زرد پتیاں شہد کی مکھیوں کی اداس بھنبھناہٹ کے ساتھ ساتھ فضا میں بکھر رہی تھیں۔ وہ دوپہر کا غمگین وقت تھا۔ میں پچھلے برآمدے کے ایک ستون کے طویل سائے میں فرش پر بیٹھی تھی۔ وہ باتیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں جو آصف کا ایک ساتھی عثمان رو رو کر سنا رہا تھا۔

    یا اللہ!

    اللہ۔۔۔ وہ ایک انتہائی سرد صبح تھی اور غضب کا کہرہ پڑ رہا تھا جب رائن کے دوسرے کنارے پر پٹرول کرنے کا حکم دیا گیا۔ بہت خطرناک کام تھا۔ پوچھا گیا کوئی آفیسر اس وقت جانے کو تیار ہے۔ آصف نے خود کو فوراً والنٹیر کردیا۔ کہر اس قدر گہری تھی کہ سامنے چند گز کا فاصلہ نظر نہ آتا تھا۔ وہ اپنی مشین لے کر طیارہ گاہ سے نکلا ہی تھا کہ خطرے کے سائرن بجنے لگے۔ کہرے کے اس پار رائن کے دوسرے کنارے پر جرمن طیاروں کا ایک زبردست بیڑہ پہنچ چکا تھا۔ آصف بہت اونچے بادلوں میں سے ڈرائیو کر کے اپنے ساتھیوں کا انتظار کیے بغیر سیدھا رائن پر پرواز کرنے لگا اور چند لمحوں کی سخت فضائی جنگ کے بعد جرمن طیارہ شکن توپوں کانشانہ بن کر نیچے دریا کے ایک پل پر گر پڑا۔ اس کی مشین میں آگ لگنے سے پہلے ہی کئی امریکن اور انگریزی ہوائی جہاز اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے پہنچ چکے تھے۔۔۔ لیکن موت۔۔۔ وہ کسی کا انتظار نہیں کرتی۔

    وہ شاید وائر لیس سے اپنی طیارہ گاہ کو پیغام بھیجنے میں کامیاب ہوگیا تھا جس کے پہنچتے ہی فوراً آفیسرز کی ایک امدادی پارٹی دوسرے ہوائی جہاز پر اس کے پیچھے گئی اور پرسکون اور سردرائن کے ایک ٹوٹے ہوئے پل کے قریب اس کے بمبار کو چور چور اور جلا ہوا پایا۔ وہ مشین سے کچھ فاصلے پر بے جان پڑا تھا اور اس کے چہرے اور جسم پرکوئی خراش تک نہ تھی، بالکل جیسے وائلن بجاتے بجاتے سبزے پرتھک کر سو گیا ہو۔۔۔ اللہ۔۔۔ آصف اور موت۔۔۔ کیسی غلط، نا قابلِ یقین، غیر ممکن بات تھی۔۔۔ لیکن وہ وہاں شبنم آلود گھاس اور ستارۂ سحری کے مرجھائے ہوئے پھولوں پر پڑا تھا۔ خاموش اور سرد۔۔۔ پھر جنوبی انگلستان کے اس فضائی مستقر سے اس کا سامان گھر بھیجا گیا۔۔۔ کتابیں۔۔۔ پکچر پوسٹ کارڈ۔۔۔ ڈر مربوائے ٹافی کے ڈبے، ڈھیروں تصویریں جو اس نے مختلف مقامات پر اتاری تھیں۔۔۔ وہ ادھورے خط جو کبھی پوسٹ نہ کیے جاسکے۔

    ہوا کا ایک تیز جھونکا ایک نیلے کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو اڑاتا ہوا بہت دور افق کی تنہائیوں میں کھو گیا۔ خاموش ستاروں اور دھندلی کہکشاں کے رو پہلی راستوں سے پرے۔۔۔ بہت دور سے ایک مدھم آواز آہستہ آہستہ آرہی تھی، امینہ آپا۔۔۔ کاش امینہ آپا۔۔۔ تمہیں معلوم ہوتا کہ میں تم سے۔۔۔ تم سے کس قدر محبت کرتا تھا۔۔۔ کتنا دیوانہ وار تمہیں چاہتا تھا۔ چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش۔۔۔ کیسی طفلانہ حماقت تھی۔۔۔ تم نے ہمیشہ میرا مذاق اڑایا۔ کاش امینہ آپا تم مجھے اتنی اجازت دیتیں کہ میں تمہیں صرف ایک بار ڈارلنگ کہہ کر پکار سکوں اور پھر مرجاؤں۔۔۔ ڈارلنگسٹ۔۔۔

    اس فضول اور انتہائی سستے سے لفظ میں میری روح، میری جان سمٹ کر آجاتی ہے۔ تم کہتی تھیں۔۔۔ محبت۔۔۔ محبت۔۔۔ محبت۔۔۔ کتنی تھرڈ ریٹ اور بے کار افسانوں کی سی باتیں ہیں۔ اپنی نظر، اپنے خیالات کو بلندکرو، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو سنوارو۔۔۔ طوفانوں سے لڑو۔۔۔ یہ کرو۔۔۔ وہ کرو۔۔۔ امینہ آپا تمہارے لکچر۔۔۔ آج رائن کے سرد پانیوں پر زرد اور بھاری کہرہ چھارہا ہے۔۔۔ ستارے جھلملا کر بجھتے جارہے ہیں۔ پائن کے اونچے درخت شمالی سمندر پر سے آتی ہوئی برفانی ہواؤں کے جھونکوں سے جاگ اٹھے ہیں۔ میرا بمبار اپنے مہیب جموداور خاموش گرج کے ساتھ میرے قریب شیڈ میں آنے والی صبح کا سکون کے ساتھ انتظار کر رہا ہے۔

    امینہ آپا! میں اپنی اس زندگی، کائنات کی اس پیہم اور یک رنگ جد و جہد سے تھک چکا ہوں۔ سرچ لائٹ کی تیز لکیریں پچھلی رات کے کالے بادلوں کو کاٹتی ہوئی افق میں گرتی جارہی ہیں۔ میری اس دنیا سے بہت دور۔۔۔ بہت علاحدہ، تم اس وقت نہ جانے کیا کر رہی ہوگی۔۔۔ کیا سوچ رہی ہوگی۔۔۔ امینہ آپا! کاش میں تمہیں سمجھ سکتا۔۔۔ تم مجھے سمجھ سکتیں۔۔۔ پھر اونچے اور نیلے آسمانوں پر ایک ملکوتی نغمہ بلند ہوا۔۔۔ اور محبت کے فرشتوں کے بربط کے نقرئی تار ایک ایک کر کے ٹوٹ گیے۔۔۔ زندگی کا آخری گیت ختم ہوچکا تھا!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے