گرم کوٹ
کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے ایک گرم کوٹ کی شدید ضرورت ہے۔ پرانے کوٹ پر پیوند لگاتے ہوئے وہ اور اسکی بیوی دونوں تھک گیے ہیں۔ بیوی بچوں کی ضرورتوں کے آگے وہ ہمیشہ اپنی اس ضرورت کو ٹالتا رہتا ہے۔ ایک روز گھر کی ضروریات کی فہرست بنا کر وہ بازار جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جیب میں رکھا دس کا نوٹ کہیں گم ہو گیا ہے، مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ نوٹ کوٹ کی پھٹی جیب میں سے کھسک کر دوسری طرف چلا گیا تھا۔ اگلی بار وہ اپنی بیوی کو بازار بھیجتا ہے۔ بیوی اپنا اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے شوہر کے لیے گرم کوٹ کا کپڑا لے آتی ہے۔
میں نے دیکھا ہے، معراج الدین ٹیلر ماسٹر کی دکان پر بہت سے عمدہ عمدہ سوٹ آویزاں ہوتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر اکثر میرے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ میرا اپنا گرم کوٹ بالکل پھٹ گیا ہے اور اس سال ہاتھ تنگ ہونے کے باوجود مجھے ایک نیا گرم کوٹ ضرور سلوا لینا چاہیے۔ ٹیلر ماسٹر کی دکان کے سامنے سے گزرنے یا اپنے محکمہ کی تفریح کلب میں جانے سے گریز کروں تو ممکن ہے، مجھے گرم کوٹ کا خیال بھی نہ آئے۔ کیوں کہ کلب میں جب سنتا سنگھ اور یزدانی کے کوٹوں کے نفیس ورسٹڈ (Worsted) میرے سمندِ تخیل پہ تازیانہ لگاتے ہیں تو میں اپنے کوٹ کی بوسیدگی کو شدید طور پر محسوس کرنے لگتا ہوں۔ یعنی وہ پہلے سے کہیں زیادہ پھٹ گیا ہے۔
بیوی بچّوں کو پیٹ بھر روٹی کھلانے کے لیے مجھ سے معمولی کلرک کو اپنی بہت سی ضروریات ترک کرنا پڑتی ہیں اور انھیں جگر تک پہنچتی ہوئی سردی سے بچانے کے لیے خود موٹا جھوٹا پہننا پڑتا ہے۔ یہ گرم کوٹ میں نے پارسال دہلی دروازے سے باہر پُرانے کوٹوں کی ایک دکان سے مول لیا تھا۔ کوٹوں کے سوداگر نے پُرانے کوٹوں کی سینکڑوں گانٹھیں کسی مرانجا، مرانجا اینڈ کمپنی کراچی سے منگوائی تھیں۔ میرے کوٹ میں نقلی سلک کے استر سے بنی ہوئی اندرونی جیب کے نیچے ’مرانجا، مرانجا اینڈ کو‘ کا لیبل لگا ہوا تھا۔ مگر کوٹ مجھے ملا بہت سستا۔ مہنگا روئے ایک بار سستا روئے بار بار۔ اور میرا کوٹ ہمیشہ ہی پھٹا رہتا تھا۔
اسی دسمبر کی ایک شام کو تفریح کلب سے واپس آتے ہوئے میں ارادتاً انارکلی میں سے گزرا۔ اس وقت میری جیب میں دس روپئے کا نوٹ تھا۔ آٹا دال، ایندھن، بجلی، بیمہ کمپنی کے بل چکا دینے پر میرے پاس وہی دس کا نوٹ بچ رہا تھا۔ جیب میں دام ہوں تو انارکلی میں سے گزرنا معیوب نہیں۔ اس وقت اپنے آپ پر غصّہ بھی نہیں آتا بلکہ اپنی ذات کچھ بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اس وقت انارکلی میں چاروں طرف سوٹ ہی سوٹ نظر آ رہے تھے اور ساڑھیاں۔ چند سال سے ہر نتھو خیرا سوٹ پہننے لگا ہے۔ میں نے سُنا ہے گزشتہ چند سال میں کئی ٹن سونا ہمارے ملک سے باہر چلا گیا ہے۔ شاید اسی لیے لوگ جسمانی زیبائش کا خیال بھی بہت زیادہ رکھتے ہیں۔ نئے نئے سوٹ پہننا اور خوب شان سے رہنا ہمارے افلاس کا بدیہی ثبوت ہے۔ ورنہ جو لوگ سچ مچ امیر ہیں، ایسی شان شوکت اور ظاہری تکلّفات کی چنداں پروا نہیں کرتے۔
کپڑے کی دکان میں ورسٹڈ کے تھانوں کے تھان کھلے پڑے تھے۔ انھیں دیکھتے ہوئے میں نے کہا، کیا میں اس مہینے کے بچے ہوئے دس روپوں میں سے کوٹ کا کپڑا خرید کر بیوی بچوں کو بھوکا ماروں؟ لیکن کچھ عرصہ کے بعد میرے دل میں نئے کوٹ کے ناپاک خیال کا ردِ عمل شروع ہوا۔ میں اپنے پُرانے گرم کوٹ کا بٹن پکڑ کر اسے بل دینے لگا۔ چونکہ تیز تیز چلنے سے میرے جسم میں حرارت آ گئی تھی، اس لیے موسم کی سردی اور اس قسم کے خارجی اثرات میرے کوٹ خریدنے کے ارادے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر رہے۔ مجھے تو اس وقت اپنا وہ کوٹ بھی سراسر مکلّف نظر آنے لگا۔
ایسا کیوں ہوا؟ میں نے کہا ہے جو شخص حقیقتاً امیر ہوں وہ ظاہری شان کی چنداں فکر نہیں کرتے، جو لوگ سچ مچ امیر ہوں انھیں تو پھٹا ہوا کوٹ بلکہ قمیص بھی تکلف میں داخل سمجھنی چاہیے تو کیا میں سچ مچ امیر تھا کہ۔۔۔؟
میں نے گھبرا کر ذاتی تجزیہ چھوڑ دیا اور بہ مشکل دس کا نوٹ صحیح سلامت لیے گھر پہنچا۔ شمی، میری بیوی، میری منتظر تھی۔ آٹا گوندھتے ہوئے اس نے آگ پھونکنی شروع کر دی۔ کم بخت منگل سنگھ نے اِس دفعہ لکڑیاں گیلی بھیجی تھیں۔ آگ جلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ زیادہ پھونکیں مارنے سے گیلی لکڑیوں میں سے اور بھی زیادہ دھواں اٹھا۔ شمی کی آنکھیں لال انگارہ ہو گئیں۔ ان سے پانی بہنے لگا۔
’’کم بخت کہیں کا۔ منگل سنگھ۔‘‘ میں نے کہا، ’’ان پُرنم آنکھوں کے لیے منگل سنگھ تو کیا میں تمام دنیا سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو جاؤں۔‘‘
بہت تگ و دو کے بعد لکڑیاں آہستہ آہستہ چٹخنے لگیں۔ آخر ان پُرنم آنکھوں کے پانی نے میرے غصّے کی آگ بجھا دی۔ شمی نے میرے شانہ پر سر رکھا اور میرے پھٹے ہوئے گرم کوٹ میں پتلی پتلی انگلیاں داخل کرتی ہوئی بولی۔
’’اب تو یہ بالکل کام کا نہیں رہا۔‘‘
میں نے دھیمی سی آواز سے کہا، ’’ہاں۔‘‘
’’سی دوں؟ یہاں سے۔‘‘
’’سی دو۔ اگر کوئی ایک آدھ تار نکال کر رفو کر دو تو کیا کہنے ہیں۔‘‘
کوٹ کو الٹاتے ہوئے شمی بولی، ’’استر کو تو موئی ٹڈیاں چاٹ رہی ہیں۔ نقلی ریشم کا ہے نا۔ یہ دیکھیے۔‘‘
میں نے شمی سے اپنا کوٹ چھین لیا اور کہا، ’’مشین کے پاس بیٹھنے کی بجائے تم میرے پاس بیٹھو۔ شمی۔۔۔ دیکھتی نہیں ہو، دفتر سے آ رہا ہوں۔ یہ کام تم اس وقت کر لینا جب میں سو جاؤں۔‘‘
شمی مسکرانے لگی۔
وہ شمی کی مسکراہٹ اور میرا پھٹا ہوا کوٹ۔
شمی نے کوٹ کو خود ہی ایک طرف رکھ دیا۔ بولی، ’’میں خود بھی اس کوٹ کی مرمت کرتے کرتے تھک گئی ہوں۔ اسے مرمت کرنے میں اس گیلے ایندھن کو جلانے کی طرح جان مارنی پڑتی ہے۔ آنکھیں دکھنے لگتی ہیں۔ آخر آپ اپنے کوٹ کے لیے کپڑا کیوں نہیں خریدتے؟‘‘
میں کچھ دیر سوچتا رہا۔
یوں تو میں اپنے کوٹ کے لیے کپڑا خریدنا گناہ خیال کرتا تھا، مگر شمی کی آنکھیں! ان آنکھوں کو تکلیف سے بچانے کے لیے میں منگل سنگھ تو کیا، تمام دنیا سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو جاؤں۔ ورسٹڈ کے تھانوں کے تھان خرید لوں۔ نئے گرم کوٹ کے لیے کپڑا خریدنے کا خیال دل میں پیدا ہوا ہی تھا کہ پشپا مُنی بھاگتی ہوئی کہیں سے آ گئی۔ آتے ہی برآمدے میں ناچنے اور گانے لگی۔ اس کی حرکات کتھا کلی مدرا سے زیادہ کیف انگیز تھیں۔
مجھے دیکھتے ہوئی پشپا منی نے اپنا ناچ اور گانا ختم کر دیا۔ بولی، ’’بابوجی۔ آپ آ گئے؟ آج بڑی بہن جی (استانی) نے کہا تھا۔ میز پوش کے لیے دو سوتی لانا اور گرم کپڑے پر کاٹ سکھائی جائے گی۔ گنیاماپ کے لیے اور گرم کپڑا۔‘‘
چونکہ اس وقت میرے گرم کوٹ خریدنے کی بات ہو رہی تھی، شمی نے زور سے ایک چپت اس کے منھ پر لگائی اور بولی، ’’اس جنم جلی کو ہر وقت۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ خریدنا ہی ہوتا ہے۔ مشکل سے انھیں کوٹ سلوانے پر راضی کر رہی ہوں۔‘‘
وہ پشپا منی کا رونا اور میرا نیا کوٹ!
میں نے خلافِ عادت اونچی آواز سے کہا، ’’شمی‘‘
شمی کانپ گئی۔ میں نے غصّے سے آنکھیں لال کرتے ہوئے کہا، ’’میرے اس کوٹ کی مرمت کر دو ابھی۔ کسی طرح کرو۔ ایسے جیسے رو پیٹ کر منگل سنگھ کی گیلی لکڑیاں جلا لیتی ہو۔ تمھاری آنکھیں! ہاں! یاد آیا۔ دیکھو تو پشپا منی کیسے رو رہی ہے۔ پوپی بیٹا! ادھر آؤ نا۔ اِدھر آؤ میری بچّی۔ کیا کہا تھا تم نے؟ بولو تو۔ دو سوتی؟ گنیاماپ کے لیے اور کاٹ سیکھنے کو گرم کپڑا؟ بچّو ننھا بھی تو ٹرائسکل کا راگ الاپتا اور غبارے کے لیے مچلتا سو گیا ہو گا۔ اسے غبارہ نہ لے دو گی تو میرا کوٹ سِل جائے گا۔ ہے نا؟ کتنا رویا ہو گا بے چارہ شمی! کہاں ہے بچّو؟‘‘
’’جی سو رہا ہے۔‘‘ شمی نے سہمے ہوئے جواب دیا۔
’’اگر میرے گرم کوٹ کے لیے تم ان معصوموں سے ایسا سلوک کرو گی، تو مجھے تمھاری آنکھوں کی پروا ہی کیا ہے؟‘‘ پھر میں نے دل میں کہا۔ کیا یہ سب کچھ میرے گرم کوٹ کے لیے ہو رہا ہے۔ شمّی سچّی ہے یا میں سچا ہوں۔ پہلے میں نے کہا۔ دونوں۔ مگر جو سچا ہوتا ہے، اس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر رہتا ہے۔ میں نے خود ہی دبتے ہوئے کہا،
’’تم خود بھی تو اس دن کافوری رنگ کے مینا کار کانٹوں کے لیے کہہ رہی تھیں۔‘‘
’’ہاں۔ جی۔ کہہ تو رہی تھی مگر۔۔۔‘‘
مگر۔ مگر اس وقت تو مجھے اپنے گرم کوٹ کی جیب میں دس روپئے کا نوٹ ایک بڑا خزانہ معلوم ہو رہا تھا۔
دوسرے دن شمی نے میرا کوٹ کہنیوں پر سے رفو کر دیا۔ ایک جگہ جہاں پر سے کپڑا بالکل اڑ گیا تھا، صفائی اور احتیاط سے کام لینے کے باوجود سلائی پر بدنما سلوٹیں پڑنے لگیں۔ اس وقت معراج دین ٹیلر ماسٹر کی دکان کی دکان میرے ذہن میں گھومنے لگی اور یہ میرے تخیل کی پختہ کاری تھی۔ میرے تخیل کی پختہ کاری اکثر مجھے مصیبت میں ڈالے رکھتی ہے۔ میں نے دل میں کہا، ’’معراج دین کی دکان پر ایسے سُوٹ بھی تو ہوتے ہیں جن پر سلائی سمیت سو روپئے سے بھی زیادہ لاگت آتی ہے۔ میں ایک معمولی کلرک ہوں۔ اس کی دکان میں لٹکے ہوئے سوٹوں کا تصوّر کرنا عبث ہے۔ عبث۔۔۔
مجھے فارغ پاکر شمی میرے پاس آ بیٹھی اور ہم دونوں خریدی جانے والی چیزوں کی فہرست بنانے لگے۔ جب ماں باپ اکٹھے ہوتے ہیں تو بچّے بھی آ جاتے ہیں۔ پُشپا منی اور بچّو آ گئے۔ آندھی اور بارش کی طرح شور مچاتے ہوئے۔
میں نے شمی کو خوش کرنے کے لیے نہیں، بلکہ یوں ہی کافوری رنگ کے مینا کار کانٹے سب سے پہلے لکھے۔ اچانک رسوئی کی طرف میری نظر اٹھی۔ چولھے میں لکڑیاں دھڑ دھڑ جل رہی تھیں۔ اور اِدھر شمی کی آنکھیں بھی دو چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن تھیں۔ معلوم ہوا کہ منگل سنگھ گیلی لکڑیاں واپس لے گیا ہے۔
’’وہ شہتوت کے ڈنڈے جل رہے ہیں اور کھوکھا‘‘ شمی نے کہا۔
’’اور اپلے؟‘‘
’’جی ہاں، اپلے بھی۔‘‘
’’منگل سنگھ دیوتا ہے۔ شاید میں بھی عنقریب گرم کوٹ کے لیے اچھا سا ورسٹڈ خرید لوں۔ تاکہ تمھاری آنکھیں یوں ہی چمکتی رہیں، انھیں تکلیف نہ ہو۔ اس ماہ کی تنخواہ میں تو گنجائش نہیں۔ اگلے ماہ ضرور۔
ضرور۔‘‘
’’جی ہاں، جب سردی گزر جائے گی۔‘‘
پشپا منی نے کئی چیزیں لکھائیں۔ دو سوتی، گنیا ماپ کے لیے گرم بلیزر سبز رنگ کا، ایک گز مربع، ڈی ایم سی کے گولے، گوٹے کی مغزی۔ اور امرتیاں اور بہت سے گلاب جامن۔ موئی نے سب کچھ ہی تو لکھوا دیا۔ مجھے دائمی قبض تھی۔ میں چاہتا تھا کہ یونانی دوا خانہ سے اطریفل زمانی کا ایک ڈبہ بھی لا رکھوں۔ دودھ کے ساتھ تھوڑا سا پی کر سو جایا کروں گا۔ مگر موئی پشپا نے اس کے لیے گنجائش ہی کہاں رکھی تھی اور جب پشپا منی نے کہا، ’’گلاب جامن‘‘ تو اس کے منھ میں پانی بھر آیا۔ میں نے کہا سب سے ضروری چیز تو یہی ہے۔ شہر سے واپس آنے پر میں گلاب جامن وہاں چھپا دوں گا، جہاں سیڑھیوں میں باہر جمعدار اپنا دودھ کا کلسہ رکھ دیا کرتا ہے اور پشپا منی سے کہوں گا کہ میں تو لانا ہی بھول گیا۔ تمھارے لیے گلاب جامن۔ او ہو! اس وقت اس کے منھ میں پانی بھر آئے گا اور گلاب جامن نہ پاکر اس کی عجیب کیفیت ہو گی۔
پھر میں نے سوچا، بچّو بھی تو صبح سے غبارے اور ٹرائسکل کے لیے ضد کر رہا تھا۔ میں نے ایک مرتبہ اپنے آپ سے سوال کیا ’’اطریفل زمانی؟‘‘ شمی بچّو کو پچکارتے ہوئے کہہ رہی تھی، ’’بچّو بیٹی کو ٹرائسکل لے دوں گی اگلے مہینے۔ بچّو بیٹی سارا دن چلایا کرے گی ٹرائسکل۔ پوپی مُنا کچھ نہیں لے گا۔‘‘
بچّو چلایا کرے ’’گی‘‘ اور پوپی منا نہیں ملے ’’گا۔‘‘
اور میں نے شمی کی آنکھوں کی قسم کھائی کہ جب تک ٹرائسِکل کے لیے چھ سات روپٖئے جیب میں نہ ہوں، میں نیلے گنبد کے بازار سے نہیں گزروں گا، اس لیے کہ دام نہ ہونے کی صورت میں نیلے گنبد کے بازار سے گزرنا بہت معیوب ہے۔ خواہ نخواہ اپنے آپ پر غصّہ آئے گا۔ اپنی ذات سے نفرت پیدا ہوگی۔
اس وقت شمی بلجیمی آئینے کی بیضوی ٹکڑی کے سامنے اپنے کافوری سپید سوٹ میں کھڑی تھی۔ میں چپکے سے اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا اور کہنے لگا، ’’میں بتاؤں تم اس وقت کیا سوچ رہی ہو؟‘‘
’’بتاؤ تو جانوں۔‘‘
’’تم کہہ رہی ہو۔ کافوری سپید سوٹ کے ساتھ وہ کافوری رنگ کے مینا کار کانٹے پہن کر ضلع دار کی بیوی کے ہاں جاؤں تو دنگ رہ جائے۔‘‘
’’نہیں تو‘‘ شمی نے ہنستے ہوئے کہا، ’’آپ میری آنکھوں کے مدّاح ہوتے تو کبھی کا گرم۔۔۔‘‘
میں نے شمی کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ میری تمام خوشی بے بسی میں بدل گئی۔ میں نے آہستہ سے کہا، ’’بس۔ اِدھر دیکھو۔ اگلے مہینے۔ ضرور خرید لوں گا۔‘‘
’’جی ہاں، جب سردی۔‘‘
پھر میں اپنی اس حسین دنیا کو جس کی تخلیق پر محض دس روپئے صرف ہوئے تھے، تصور میں بسائے بازار چلا گیا۔
میرے سوا انارکلی سے گزرنے والے ہر ذی عزّت آدمی نے گرم سوٹ پہن رکھا تھا۔ لاہور کے ایک لحیم و شحیم جنٹل مین کی گردن نکٹائی اور مکلّف کالر کے سبب میرے چھوٹے بھائی کے پالتو بلی کتے، ٹائیگر کی گردن کی طرح اکڑی ہوئی تھی۔ میں نے ان سوٹوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’لوگ سچ مچ بہت مفلس ہو گئے ہیں۔ اس مہینے نہ معلوم کتنا سونا چاندی ہمارے ملک سے باہر چلا گیا ہے۔‘‘ کانٹوں کی دکان پر میں نے کئی جوڑیاں کانٹے دیکھے۔ اپنی تخیل کی پختہ کاری سے میں شمی کی کافوری سپید سوٹ میں ملبوس ذہنی تصویر کو کانٹے پہنا کر پسند یا ناپسند کر لیتا۔ کافوری سپید سوٹ، کافوری مینا کار کانٹے۔ کثرتِ اقسام کے باعث میں ایک بھی نہ منتخب کرسکا۔
اس وقت بازار میں مجھے یزدانی مل گیا۔ وہ تفریح کلب سے، جو دراصل پریل کلب تھی، پندرہ روپئے جیت کر آیا تھا۔ آج اس کے چہرے پر اگر سُرخی اور بشاشت کی لہریں دکھائی دیتی تھیں تو کچھ تعجب کی بات نہ تھی۔ میں ایک ہاتھ سے اپنی جیب کی سلوٹوں کو چھپانے لگا۔ نچلی بائیں جیب پر ایک روپئے کے برابر کوٹ سے ملتے ہوئے رنگ کا پیوند بہت ہی ناموزوں دکھائی دے رہا تھا۔ میں اسے بھی ایک ہاتھ سے چھپاتا رہا۔ پھر میں نے دل میں کہا۔ کیا عجب یزدانی نے میرے شانے پر ہاتھ رکھنے سے پہلے میری جیب کی سلوٹیں اور وہ روپئے کے برابر کوٹ کے رنگ کا پیوند دیکھ لیا ہو۔ اس کا بھی ردِّ عمل شروع ہوا اور میں نے دلیری سے کہا۔
’’مجھے کیا پروا ہے۔ یزدانی مجھے کون سی تھیلی بخش دے گا۔ اور اس میں بات ہی کیا ہے۔ یزدانی اور سنتاسنگھ نے بارہا مجھ سے کہا ہے کہ وہ رفعتِ ذہنی کی زیادہ پروا کرتے ہیں اور ورسٹڈ کی کم۔‘‘
مجھ سے کوئی پوچھے، میں ورسٹڈ کی زیادہ پروا کرتا ہوں اور رفعتِ ذہنی کی کم۔
یزدانی رخصت ہوا اور جب تک وہ نظر سے اوجھل نہ ہو گیا، میں غور سے اس کے کوٹ کے نفیس ورسٹڈ کو پشت کی جانب سے دیکھتا رہا۔
پھر میں نے سوچا کہ سب سے پہلے مجھے پشپا منی کے گلاب جامن اور امرتیاں خریدنی چاہئیں۔ کہیں واپسی پر سچ مچ بھول ہی نہ جاؤں۔ گھر پہنچ کر انھیں چھپانے سے خوب تماشا رہے گا۔ مٹھائی کی دکان پر کھولتے ہوئے روغن میں کچوریاں خوب پھُول رہی تھیں۔ میرے منھ میں پانی بھر آیا۔ اس طرح جیسے گلاب جامن کے تخیل سے پشپامنی کے منھ میں پانی بھر آیا تھا۔ قبض اور اطریفل زمانی کے خیال کے باوجود میں سفید پتھر کی میز پر کہنیاں ٹکا کر بہت رغبت سے کچوریاں کھانے لگا۔
ہاتھ دھونے کے بعد جب پیسوں کے لیے جیب ٹٹولی، تو اس میں کچھ بھی نہ تھا۔ دس کا نوٹ کہیں گر گیا تھا۔
کوٹ کی اندرونی جیب میں ایک بڑا سوراخ ہو رہا تھا۔ نقلی ریشم کو ٹڈیاں چاٹ گئی تھیں۔ جیب میں ہاتھ ڈالنے پر اس جگہ جہاں مرانجا، مرانجا اینڈ کمپنی کا لیبل لگا ہوا تھا، میرا ہاتھ باہر نکل آیا۔ نوٹ وہیں سے باہر گر گیا ہو گا۔
ایک لمحہ میں میں یوں دکھائی دینے لگا، جیسے کوئی بھولی سی بھیڑ اپنی خوبصورت پشم اتر جانے پر دکھائی دینے لگتی ہے۔
حلوائی بھانپ گیا۔ خود ہی بولا۔
’’کوئی بات نہیں بابو جی۔ پیسے کل آ جائیں گے۔‘‘
میں کچھ نہ بولا۔ کچھ بول ہی نہ سکا۔
صرف اظہارِ تشکر کے لیے میں نے حلوائی کی طرف دیکھا۔ حلوائی کے پاس ہی گلاب جامن چاشنی میں ڈوبے پڑے تھے۔ روغن میں پھُولتی ہوئی کچوریوں کے دھوئیں میں سے آتشیں سُرخ امرتیاں جگر پر داغ لگا رہی تھیں۔ اور ذہن میں پشپا منی کی دھندلی سی تصویر پھر گئی۔
میں وہاں سے بادامی باغ کی طرف چل دیا اور آدھ پون گھنٹہ کے قریب بادامی باغ کی ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس عرصہ میں جنکشن کی طرف سے ایک مال گاڑی آئی۔ اس کے پانچ منٹ بعد ایک شنٹ کرتا ہوا انجن جس میں سے دہکتے ہوئے سرخ کوئلے لائن پر گر رہے تھے۔ مگر اس وقت قریب ہی کی سالٹ ریفائنری میں سے بہت سے مزدور اوور ٹائم لگا کر واپس لوٹ رہے تھے۔ میں لائن کے ساتھ ساتھ دریا کے پُل کی طرف چل دیا۔ چاندنی رات میں سردی کے باوجود کالج کے چند منچلے نوجوان کشتی چلا رہے تھے۔
’’قدرت نے عجیب سزا دی ہے مجھے‘‘ میں نے کہا، ’’پشپامنی کے لیے گوٹے کی مغزی، دو سوتی، گلاب جامن اور شمی کے لیے کافوری میناکار کانٹے نہ خریدنے سے بڑھ کر کوئی گناہ سرزد ہو سکتا ہے۔ کس بے رحمی اور بے دردی سے میری ایک حسین مگر بہت سستی دنیا برباد کر دی گئی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ میں بھی قدرت کا ایک شاہکار توڑ پھوڑ کے رکھ دوں۔
مگر پانی میں کشتی ران لڑکا کہہ رہا تھا۔
’’اس موسم میں تو راوی کا پانی گھُٹنے گھُٹنے سے زیادہ کہیں نہیں ہوتا۔‘‘
’’سارا پانی تو اوپر سے اپرباری دواب لے لیتی ہے۔ اور یوں بھی آج کل پہاڑوں پر برف نہیں پگھلتی‘‘ دوسرے نے کہا۔
میں ناچار گھر کی طرف لوٹا اور نہایت بے دلی سے زنجیر ہلائی۔
میری خواہش اور اندازے کے مطابق پشپامنی اور بچو ننھا بہت دیر ہوئی دہلیز سے اٹھ کر بستروں میں جا سوئے تھے۔ شمی چولھے کے پاس شہتوت کے نیم جان کوئلوں کو تاپتی ہوئی کئی مرتبہ اونگھی اور کئی مرتبہ چونکی تھی۔ وہ مجھے خالی ہاتھ دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ اس کے سامنے میں نے چور جیب کے اندر ہاتھ ڈالا اور لیبل کے نیچے سے نکال لیا۔ شمی سب کچھ سمجھ گئی۔ وہ کچھ نہ بولی۔ کچھ بول ہی نہ سکی۔
میں نے کوٹ کھونٹی پر لٹکا دیا۔ میرے پاس ہی دیوار کا سہارا لے کر شمی بیٹھ گئی اور ہم دونوں سوتے ہوئے بچوں اور کھونٹی پر لٹکتے ہوئے گرم کوٹ کو دیکھنے لگے۔
اگر شمی نے میرا انتظار کیے بغیر وہ کافوری سوٹ بدل دیا ہوتا، تو شاید میری حالت اتنی متغیر نہ ہوتی۔
یزدانی اور سنتا سنگھ تفریح کلب میں پریل کھیل رہے تھے۔ انھوں نے دو دو گھونٹ پی بھی رکھی تھی۔ مجھ سے بھی پینے کے لیے اصرار کرنے لگے، مگر میں نے انکار کر دیا۔ اس لیے کہ میری جیب میں دام نہ تھے۔ سنتا سنگھ نے اپنی طرف سے ایک آدھ گھونٹ زبردستی مجھے بھی پلا دیا۔ شاید اس لیے کہ وہ جان گئے تھے کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ یا شاید اس لیے کہ وہ رفعت ذہنی کی ورسٹڈ سے زیادہ پروا کرتے تھے۔
اگر میں گھر میں اس دن شمی کو وہی کافوری سپید سوٹ پہنے ہوئے دیکھ کر نہ آتا تو شاید پریل میں قسمت آزمائی کرنے کو میرا جی بھی نہ چاہتا۔ میں نے کہا۔ کاش! میری بھی جیب میں ایک دو روپئے ہوتے۔ کیا عجب تھا کہ میں بہت سے روپئے بنا لیتا۔ مگر میری جیب میں تو کل پونے چار آنے تھے۔
یزدانی اور سنتاسنگھ نہایت عمدہ ورسٹڈ کے سوٹ پہنے نیک عالم، کلب کے سکریٹری سے جھگڑ رہے تھے۔ نیک عالم کہہ رہا تھا کہ وہ تفریح کلب کو پریل کلب اور ’’بار‘‘ بنتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ اس وقت میں نے ایک مایوس آدمی کے مخصوص انداز میں جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا، ’’بیوی بچّوں کے لیے کچھ خریدنا قدرت کے نزدیک گناہ ہے۔ اس حساب سے پریل کھیلنے کے لیے تو اسے اپنی گرہ سے دام دے دینے چاہئیں۔ ہی ہی۔۔۔ غی غی۔۔۔‘‘
اندرونی کیسہ۔ بائیں نچلی جیب کوٹ میں پشت کی طرف مجھے کوئی کاغذ سرکتا ہوا معلوم ہوا۔ اسے سرکاتے ہوئے۔ میں نے دائیں جیب کے سوراخ کے نزدیک جا نکالا۔
وہ دس روپئے کا نوٹ تھا، جو اس دن اندرونی جیب کی تہ کے سوراخ میں سے گذر کر کوٹ کے اندر ہی اندر گم ہو گیا تھا۔
اس دن میں نے قدرت سے انتقام لیا۔ میں اس کی خواہش کے مطابق پریل وریل نہ کھیلا۔ نوٹ کو مٹھی میں دبائے گھر کی طرف بھاگا۔ اگر اس دن میرا انتظار کیے بغیر شمی نے وہ کافوری سوٹ بدل دیا ہوتا، تو میں خوشی سے یوں دیوانہ کبھی نہ ہوتا۔
ہاں، پھر چلنے لگا وہی تخیل کا دور۔ گویا ایک حسین سے حسین دنیا کی تخلیق میں دس روپئے سے اوپر ایک دمڑی بھی خرچ نہیں آتی۔ جب میں بہت سی چیزوں کی فہرست بنا رہا تھا، شمی نے میرے ہاتھ سے کاغذ چھین کر پرزے پرزے کر دیا اور بولی، ’’اتنے قلعے مت بنائیے۔ پھر نوٹ کو نظر لگ جائے گی۔‘‘
’’شمی ٹھیک کہتی ہے۔‘‘ میں نے سوچتے ہوئے کہا، ’’نہ تخیل اتنا رنگین ہو، اور نہ محرومی سے اتنا دُکھ پہنچے۔‘‘
پھر میں نے کہا، ’’ایک بات ہے شمی! مجھے ڈر ہے کہ نوٹ پھر کہیں مجھ سے گم نہ ہو جائے۔ تمھاری کھیمو پڑوسن بازار جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ جا کر تم یہ سب چیزیں خود ہی خرید لاؤ۔ کافوری مینا کار کانٹے۔ ڈی ایم سی کے گولے، مغزی۔ اور دیکھو پوپی منّا کے لیے گلاب جامن ضرور لانا۔ ضرور۔‘‘
شمی نے کھیمو کے ساتھ جانا منظور کر لیا اور اس شام شمی نے کشمیرے کا ایک نہایت عمدہ سوٹ پہنا۔
بچّوں کے شور و غوغا سے میری طبیعت بہت گھبراتی ہے۔ مگر اس دن میں عرصہ تک بچّو ننھے کو اس کی ماں کی غیر حاضری میں بہلاتا رہا۔ وہ رسوئی سے ایندھن کی کولکی، غسل خانے کی نیم چھت پر۔
سب جگہ اسے ڈھونڈتا پھرا۔ میں نے اسے پچکارتے ہوئے کہا، ’’وہ ٹرائسکل لینے گئی ہے۔ نہیں جانے دو۔ ٹرائسکل گندی چیز ہوتی ہے۔ اخ تھو۔۔۔ غبارہ لائے گی، بی بی، تمھارے لیے، بہت خوبصورت غبارہ۔‘‘
بچو بیٹی نے میرے سامنے تھوک دیا۔ بولی، ’’اے۔ ای۔ گنڈی۔‘‘
میں نے کہا، ’’کوئی دیکھے تو۔ کیسا بیٹیوں جیسا بیٹا ہے۔‘‘
پشپا منی کو بھی میں نے گود میں لے لیا اور کہا، ’’پوپی منّا۔ آج گلاب جامن جی بھر کر کھائے گا نا۔‘‘
اس کے منھ میں پانی بھر آیا۔ وہ گودی سے اتر پڑی، بولی، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے۔ جیسے ایک بڑا سا گلاب جامن کھا رہی ہوں۔‘‘
بچّو روتا رہا۔ پشپا منی کتھا کلی مدرا سے زیادہ حسین ناچ برآمدے میں ناچتی رہی۔
مجھے میرے تخیل کی پرواز سے کون روک سکتا تھا۔ کہیں میرے تخیل کے قلعے زمین پر نہ آ رہیں۔ اسی ڈر سے تو میں نے شمی کو بازار بھیجا تھا۔ میں سوچ رہا تھا۔ شمی اب گھوڑے ہسپتال کے قریب پہنچ چکی ہو گی۔ اب کالج روڈ کی نکڑ پر ہو گی۔ اب گندے انجن کے پاس۔
اور ایک نہایت دھیمے انداز سے زنجیر ہلی۔
شمی سچ مچ آ گئی تھی۔ دروازے پر۔
شمی اندر آتے ہوئے بولی، ’’میں نے دو روپئے کھیمو سے ادھار لے کر بھی خرچ کر ڈالے ہیں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
پھر بچّو، پوپی منّا اور میں تینوں شمی کے آگے پیچھے گھومنے لگے۔
مگر شمی کے ہاتھ میں ایک بنڈل کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس نے میز پر بنڈل کھولا۔
وہ میرے کوٹ کے لیے بہت نفیس ورسٹڈ تھا۔
پشپا منی نے کہا، ’’بی بی‘‘ میرے گلاب جامن۔‘‘
شمی نے زور سے ایک چپت اس کے منھ پر لگا دی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.