لاجونتی
لاجونتی ایمانداری اور خلوص کے ساتھ سندر لال سے محبت کرتی ہے۔ سندر لال بھی لاجونتی پر جان چھڑکتا ہے لیکن تقسیم کے وقت کچھ مسلمان نوجوان لاجونتی کو اپنے ساتھ پاکستان لے جاتے ہیں اور پھر مہاجرین کی ادلا بدلی میں لاجونتی واپس سندر لال کے پاس آجاتی ہے۔ اس دوران لاجونتی کے لیے سندر لال کا رویہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ لاجوانتی کو اپنی وفاداری اور پاکیزگی پر کچھ ایسے سوال کھڑے دکھائی دیتے ہیں جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
اب اور کہنے کی ضرورت نہیں
مناسب اجرت لیکر دوسروں کی جگہ جیل کی سزا کاٹنے والے ایک ایسے شخص کی کہانی جو لوگوں سے پیسے لے کر ان کے کئے جرم کو اپنے سر لے لیتا ہے اور جیل کی سزا کاٹتا ہے۔ ان دنوں جب وہ جیل کی سزا کاٹ کر آیا تھا تو کچھ ہی دنوں بعد اس کی ماں کی موت ہو گئی تھی۔ اس وقت اس کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کر سکے۔ تبھی اسے ایک سیٹھ کا بلاوا آتا ہے، پر وہ جیل جانے سے پہلے اپنی ماں کو تجہیز و تکفین کرنا چاہتا ہے۔ سیٹھ اس کے لیے اسے منع کرتا ہے۔ جب وہ سیٹھ سے بات طے کرکے اپنے گھر لوٹتا ہے تو سیٹھ کی بیٹی اس کے آنے سے قبل اس کی ماں کے کفن دفن کا انتظام کر چکی ہوتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
یزید
کریم داد ایک ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے جس نے تقسیم کے وقت کے فساد کی ہولناکیوں کو دیکھا تھا۔ ہندوستان پاکستان جنگ کے تناظر میں یہ افواہ اڑتی ہے کہ ہندوستان والے پاکستان کی طرف آنے والے دریا کا پانی بند کر رہے ہیں۔ اسی دوران اس کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے جس کا نام وہ یزید رکھتا ہے اور کہتا ہے اس یزید نے دریا بند کیا تھا، یہ کھولے گا۔
سعادت حسن منٹو
بابو گوپی ناتھ
طوائفوں اور ان کے ماحول کی عکاسی کرتی ہوئی اس کہانی میں منٹو نے ان کرداروں کے ظاہر و باطن کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے یہ ماحول پنپتا ہے۔ لیکن اس ظلمت میں بھی منٹو انسانیت اور ایثار کی ہلکی سی کرن ڈھونڈ لیتا ہے۔ بابو گوپی ناتھ ایک رئیس آدمی ہے جو زینت کو ’اپنے پیروں پر کھڑا کرنے‘ کے لیے مختلف جتن کرتا ہے اور آخر میں جب اس کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ انتہائی خوش ہوتا ہے اور ایک سرپرست کا کردار ادا کرتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
اس کا پتی
یہ افسانہ استحصال، انسانی اقدار اور اخلاقیات کے زوال کی کہانی ہے۔ بھٹے کے مالک کا عیاش بیٹا ستیش گاؤں کی غریب لڑکی روپا کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر چھوڑ دیتا ہے۔ جب گاؤں والوں کو اس کے حاملہ ہونے کی بھنک لگتی ہے تو روپا کا ہونے والا سسر اس کی ماں کو لعن طعن کرتا ہے اور رشتہ ختم کر دیتا ہے۔ معاملے کو سلجھانے کے لیے نتھو کو بلایا جاتا ہے، جو سمجھدار اور معاملہ فہم سمجھا جاتا تھا۔ ساری باتیں سننے کے بعد وہ روپا کو ستیش کے پاس لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ روپا اور اپنے بچے کو سنبھال لے۔ لیکن ستیش سودا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر روپا بھاگ جاتی ہے اور پاگل ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
موج دین
یہ کہانی مذہبی مساوات کے باوجود معاشرے میں رائج ثقافتی تقسیم کو بہت ہی واضح طور سے بیان کرتی ہے۔ موج دین ایک بنگالی نوجوان ہے، جو مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور آیا ہوا ہے۔ وہاں سے اسے چندہ جمع کرنے کے لیے کشمیر بھیجا جاتا ہے۔ وہاں جا کر جب اسے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں جنگ ہونے والی ہے تو وہ بھی اس میں شامل ہونے کے لیے واپس لوٹ جانے سے انکار کر دیتا ہے۔ وہ مدرسے کے سربراہ کو بنگالی زبان میں ایک خط لکھتا ہے، جسے خفیہ محکمہ کے لوگ کوڈ زبان سمجھ کر اسے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیتے ہیں۔ گرفتاری کے دوران اسے اس قدر ٹارچر کیا جاتا ہے کہ وہ جیل میں ہی پھانسی لگاکر مر جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
اللہ دتا
فساد میں لٹے پٹے ہوئے ایک ایسے گھر کی کہانی ہے جس میں ایک باپ اپنی بیٹی سے منہ کالا کرتا ہے اور پھر اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کو بہو بنا کر لاتا ہے تو اس سے بھی زبردستی کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اس کی بیٹی کو پتہ چلتا ہے تو وہ اپنے بھائی سے طلاق دلوا دیتی ہے کیونکہ وہ اپنی سوت نہیں دیکھ سکتی۔
سعادت حسن منٹو
گرم کوٹ
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے ایک گرم کوٹ کی شدید ضرورت ہے۔ پرانے کوٹ پر پیوند لگاتے ہوئے وہ اور اسکی بیوی دونوں تھک گیے ہیں۔ بیوی بچوں کی ضرورتوں کے آگے وہ ہمیشہ اپنی اس ضرورت کو ٹالتا رہتا ہے۔ ایک روز گھر کی ضروریات کی فہرست بنا کر وہ بازار جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جیب میں رکھا دس کا نوٹ کہیں گم ہو گیا ہے، مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ نوٹ کوٹ کی پھٹی جیب میں سے کھسک کر دوسری طرف چلا گیا تھا۔ اگلی بار وہ اپنی بیوی کو بازار بھیجتا ہے۔ بیوی اپنا اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے شوہر کے لیے گرم کوٹ کا کپڑا لے آتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
خدا کی قسم
تقسیم کے دوران اپنی جوان اور خوبصورت بیٹی کے گم ہو جانے کے غم میں پاگل ہو گئی ایک عورت کی کہانی۔ اس نے اس عورت کو کئی جگہ اپنی بیٹی کو تلاش کرتےہوئے دیکھا تھا۔ کئی بار اس نے سوچا کہ اسے پاگل خانے میں داخل کرا دے، پر نہ جانے کیا سوچ کر رک گیا تھا۔ ایک روز اس عورت نے ایک بازار میں اپنی بیٹی کو دیکھا، لیکن بیٹی نے ماں کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ اسی دن اس شخص نے جب اسے خدا کی قسم کھا کر یقین دلایا کہ اس کی بیٹی مر گئی ہے، تو یہ سنتے ہی وہ بھی وہیں ڈھیر ہو گئی۔
سعادت حسن منٹو
پت جھڑ کی آواز
یہ کہانی کے مرکزی کردار تنویر فاطمہ کی زندگی کے تجربات اور ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ تنویر فاطمہ ایک اچھے خاندان کی تعلیم یافتہ لڑکی ہے لیکن زندگی جینے کا فن اسے نہیں آتا۔ اس کی زندگی میں یکے بعد دیگرے تین مرد آتے ہیں۔ پہلا مرد خشوقت سنگھ ہےجو خود سے تنویر فاطمہ کی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ دوسرا مرد فاروق، پہلے خشوقت سنگھ کے دوست کی حیثیت سے اس سے واقف ہوتا ہے اور پھر وہی اسکا سب کچھ بن جاتا ہے۔ اسی طرح تیسرا مرد وقار حسین ہے جو فاروق کا دوست بن کر آتا ہے اور تنویر فاطمہ کو ازدواجی زندگی کی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے۔ تنویر فاطمہ پوری کہانی میں صرف ایک بار اپنے مستقبل کے بارے میں خوشوقت سنگھ سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ فیصلہ اس کے حق میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی میں آئے اس پہلے مرد خشوقت سنگھ کو کبھی بھول نہیں پاتی ہے۔
قرۃالعین حیدر
سڑک کے کنارے
انسانیت نوازی اور مرد و عورت کے جسمانی رشتے کی ضرورت اور قدر و قیمت اس کہانی کا مرکزی نکتہ ہے۔ ایک مرد ایک عورت سے جسمانی رشتہ قائم کرکے چلا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں عورت کے حمل ٹھہر جاتا ہے۔ دوران حمل وہ مختلف قسم کے خیالات اور ذہنی کشمکش سے دوچار ہوتی ہے لیکن بالآخر وہ ایک خوبصورت بچی کو جنم دیتی ہے اور خود مر جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
سو کینڈل پاور کا بلب
اس افسانہ میں انسان کی جبلی اور جذباتی پہلووں کو گرفت میں لیا گیا ہے جن کے تحت ان سے اعمال سرزد ہوتے ہیں۔ افسانے کی مرکزی کردار ایک طوائف ہے جسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کس کے ساتھ رات گزارنے جا رہی ہے اور اسے کتنا معاوضہ ملے گا بلکہ وہ دلال کے اشارے پر عمل کرنے اور کسی طرح کام ختم کرنے کے بعد اپنی نیند پوری کرنا چاہتی ہے۔ آخر کار تنگ آکر انجام کی پروا کیے بغیر وہ دلال کا خون کر دیتی ہے اور گہری نیند سو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
نعرہ
یہ افسانہ ایک متوسط طبقہ کے آدمی کی انا کو ٹھیس پہنچنے سے ہونے والی درد کو بیاں کرتا ہے۔ بیوی کی بیماری اور بچوں کے اخراجات کی وجہ سے وہ مکان مالک کو پچھلے دو مہینے کا کرایہ نہیں دے پایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مالک مکان اسے ایک مہینے کی اور مہلت دے دے۔ اس درخواست کے ساتھ جب وہ مالک مکان کے پاس گیا تو اس نے اس کی بات سنے بغیر ہی اسے دو گندی گالیاں دیں۔ ان گالیوں کو سن کر اسے بہت تکلیف ہوئی اور وہ مختلف خیالوں میں گم شہر کے دوسرے سرے پر جا پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی پوری قوت سے ایک ’نعرہ‘ لگایا اور خود کو بہت ہلکا محسوس کرنے لگا۔
سعادت حسن منٹو
شانتی
اس کہانی کا موضوع ایک طوائف ہے۔ کالج کے دنوں میں وہ ایک نوجوان سے محبت کرتی تھی۔ جس کے ساتھ وہ گھر سے بھاگ آئی تھی۔ مگر اس نوجوان نے اسے دھوکہ دیا اور وہ دھندا کرنے لگی تھی۔ بمبئی میں ایک روز اس کے پاس ایک ایسا گراہک آتا ہے، جسے اس کے جسم سے زیادہ اس کی کہانی میں دلچسپی ہوتی ہے۔ پھر جیسے جیسے شانتی کی کہانی آگے بڑھتی ہے وہ شخص اس میں ڈوبتا جاتا ہے اور آخر میں شانتی سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
روشنی کی رفتار
کہانی ’روشنی کی رفتار‘ قرۃالعین حیدر کی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ کہانی میں حال سے ماضی کے سفر کی داستان ہے۔ صدیوں کے فاصلوں کو لانگھ کر کبھی ماضی کو حال میں لاکر اور کبھی حال کو ماضی کے اندر بہت اندر لے جا کر انسانی زندگی کے اسرار و رموز کو دیکھنے، سمجھنے اور اسکے حدود و امکانات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
قرۃالعین حیدر
شیر آیا شیر آیا دوڑنا
بچپن میں اسکول میں پڑھائی جانی والی جھوٹے گڑریے کی کہانی کو ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں گڑریے کے شیر کے نہ آنے کے باوجود چلاّنے کے مقصد کو بتایا گیا ہے۔ گڑریا شیر نہ ہونے کے باوجود چلاتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ شیر کے آنے سے پہلے ہی خود کو تیار رکھیں۔ اگر اچانک شیر آ گیا تو کسی کو بھی بچنے کا موقع نہیں ملے گا۔
سعادت حسن منٹو
گرہن
یہ ایک ایسی حاملہ عورت کی کہانی ہے جس کے حمل کے دوران چاند گرہن لگتا ہے۔ وہ ایک اچھے خاندان کی لڑکی تھی مگر کائستھوں میں شادی ہونے کے بعد لڑکی کو فقط بچہ جننے کی مشین سمجھ لیا جاتا ہے۔ حاملہ ہونے اور وہ بھی گرہن کے اوقات میں بھی گھریلو ذمہ داریاں نباہنی پڑتی ہیں۔ ایسے میں اسے اپنے میکے کی یاد آتی ہے کہ گرہن کے اوقات میں کیسے دان کیا جاتا تھا اور حاملہ کے لیے بہت سارے کاموں کو کرنے کی ممانعت تھی، یہ سب سوچتے ہوئے اچانک سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
نیا سال
یہ زندگی سے جدوجہد کرتے ایک اخبار کے ایڈٹر کی کہانی ہے۔ حالانکہ اسے اس اخبار سے دولت مل رہی تھی اور نہ ہی شہرت۔ پھر بھی وہ اپنے کام سے خوش تھا۔ اس کے مخالف اس کے خلاف کیا کہتے ہیں؟ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ یا پھر دنیا اس کی راہ میں کتنی مشکلیں پیدا کر رہی ہے، اس سے اسے کوئی مطلب نہیں تھا۔ اسے تو بس مطلب ہے اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے سے۔ یہی کام وہ گزشتہ چار سال سے کرتا آ رہا تھا اور اب جب نئے سال کا آغاز ہونے والا ہے تو وہ اس سے بھی مقابلے کے لیے تیار ہے۔
سعادت حسن منٹو
پان شاپ
کہانی میں اپنی محبوب اشیا کو گروی رکھ کر قرض لینے والوں کے استحصال کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ بیگم بازار میں فوٹو اسٹوڈیو، جاپانی گفٹ شاپ اور پان شاپ پاس پاس ہیں۔ پہلی دو دکانوں پر نام کے مطابق ہی کام ہوتا ہے اور تیسری دوکان پر پان بیچنے کے ساتھ ہی قیمتی چیزوں کو رہن رکھ کر پیسے بھی ادھار دیے جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے فوٹو اسٹودیو کا مالک اور جاپانی گفٹ شاپ والا پان والے کی ہمیشہ برائی کرتے ہیں۔ جب ایک روز انھیں خود پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ دونوں ایک دوسرے سے چھپ کر پان والے کے ہاں اپنی قیمتی چیزیں گروی رکھتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی
حافظ حسین دین
یہ تعویز غنڈے کے سہارے لوگوں کو ٹھگنے والے ایک فرضی پیر کی کہانی ہے۔ حافظ حسین دین آنکھوں سے اندھا تھا اور ظفر شاہ کے یہاں آیا ہوا تھا۔ ظفر سے اس کا تعلق ایک جاننے والے کے ذریعے ہوا تھا۔ ظفر پیر اولیا پر بہت یقین رکھتا تھا۔ اسی وجہ سے حسین دین نے اسے مالی طور پر خوب لوٹا اور آخر میں اس کی منگیتر کو ہی لیکر فرار ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
مسز گل
ایک ایسی عورت کی زندگی پر مبنی کہانی ہے جسے لوگوں کو تل تل کر مارنے میں لطف آتا ہے۔ مسز گل ایک ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ اس کی تین شادیاں ہو چکی تھیں اور اب وہ چوتھی کی تیاریاں کر رہی تھی۔ اس کا ہونے والا شوہر ایک نوجوان تھا۔ لیکن اب وہ دن بہ دن پیلا پڑتا جا رہا تھا۔ اس کے یہاں کی نوکرانی بھی تھوڑا تھوڑا کرکے گھلتی جا رہی تھی۔ ان دونوں کے مرض سے جب پردہ اٹھا تو پتہ چلا کہ مسز گل انہیں ایک جان لیوا نشیلی دوا تھوڑا تھوڑا کرکے روز پلا رہی تھیں۔
سعادت حسن منٹو
نفسیاتی مطالعہ
ایک ایسی ادیبہ کی داستان اس کہانی میں بیان کی گئی ہے جو مردوں کی نفسیات پر لکھنے کے لیے مشہور ہے۔ کچھ ادیب دوست بیٹھے ہو ئے اسی مصنفہ بلقیس کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ ادیب جس گھر میں بیٹھے ہیں اس گھر کی خاتون بلقیس کی دوست ہے۔ دوران گفتگو ہی فون آتا ہے اور وہ خاتون بلقیس سے ملنے چلی جاتی ہے۔ بلقیس اسے بتاتی ہے کہ وہ گھر میں سفیدی کر رہے ایک مزدور کی نفسیات کا مطالعہ کر رہی تھی کہ اسی درمیان اس مزدور نے اسے اپنی ہوس کا شکار بنا لیا۔
سعادت حسن منٹو
شغل
’’یہ کہانی امیروں کے شوق اور ان کی دلچسپیوں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک پہاڑی علاقے میں کچھ مزدور پتھر صاف کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ وہاں سڑک سے گزر نے والی طرح طرح کی لاریاں ہی ان کے تفریح کا ذریعہ تھیں۔ ایک روز وہاں ایک نئی گاڑی آکر رکی، اس میں سے دو نوجوان اترے اور ایک چمار کی بیٹی کو زبردستی اپنے ساتھ لے کر چل دیے۔ ٹھیکیدار نے ان نوجوانوں کے رسوخ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تو اپنے شوق کے لیے اس لڑکی کو لے جا رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد اسے چھوڑ جا ئینگے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
حیاتین-ب
غربت پر مبنی کہانی ہے۔ حیاتین ب کی کمی کی وجہ سے ماتا دین مزدور کی بیوی من بھری کے پٹھوں میں ورم آ جاتا ہے۔ میس کا ایک ملازم اچھی خوراک اور غذا کا وعدہ کرکے ماتا دین اور من بھری کو اپنے یہاں ملازم رکھوا لیتا ہے اور من بھری کا جنسی استحصال کرتا ہے۔ جب ماتا دین کو اس کی خبر ہوتی ہے تو وہ وہاں کی ملازمت چھوڑ دیتا ہے اور ایک دن ڈاکٹر کے یہاں سے حیاتین ب چوری کرنے کی وجہ سے حوالات میں قید ہو جاتا ہے۔ وہ خوش تھا کہ من بھری اب ایک صحتمند بچہ کو جنم دے گی لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ شدت غم سے من بھری کا حمل ساقط ہو گیا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
اے رود موسیٰ
یہ ایک ایسی خوددار لڑکی کی کہانی ہے، جو دنیا کی ٹھوکروں میں رلتی ہوئی ویشیا بن جاتی ہے۔ تقسیم کے دوران ہوئے فسادات میں اس کے باپ کے مارے جانے کے بعد اس کی اور اس کی ماں کی ذمہ داری اس کے بھائی کے سر آگئی تھی۔ ایک روز وہ بہن کے ساتھ اپنے باس سے ملنے گیا تھا تو انہوں نے اس سے اس کا ہاتھ مانگ لیا تھا۔ مگر اگلے روز باس کے باپ نے بھی اس سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس نے اس خواہش کو ٹھکرا دیا تھا اور گھر سے نکل بھاگی۔