کہانی کی کہانی
آرام و سکون کا طالب ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو سوچتا تھا کہ سبکدوشی کے بعد اطمینان سے گھر میں رہیگا، مزے سے اپنی پسند کی کتابیں پڑھےگا لیکن ساتھ رہ رہے دیگر افراد خانہ کے علاوہ اپنے پوتے پوتیوں کے شور غل سے اسے اوب ہونے لگی اور وہ گھر چھوڑ کر اولڈ ایج ہوم رہنے چلا جاتا ہے۔ وہاں اپنے سے پہلے رہ رہے ایک شخص کا ایک خط اسے ملتا ہے جس میں وہ اپنے بچوں کو یاد کر کے روتا ہے۔ اس خط کو پڑھ کر اسے اپنے بچوں کی یاد آتی ہے اور وہ واپس گھر لوٹ جاتا ہے۔
آخری سیڑھی اور اس کے کمرے کے درمیان کم و بیش دس گز کا فاصلہ حائل تھا اور یہ فاصلہ اس کے لیے ایک بڑی آزمائش کا حرملہ بن جاتا تھا۔ کمرے کا دروازہ بند ہوتا تھا تو اسے کسی قدر اطمینان ہوجاتا تھا کہ اس کے پوتے اور پوتیوں کے حملے سے اس کا کمرہ محفوظ ہے مگر جب اس کے دونوں پٹ کھلے ہوتے تھے اور دروازے کے باہر کمرے کی کوئی نہ کوئی چیز پڑی ہوتی تھی تو اس کی پیشانی شکن آلود ہوجاتی تھی اور چہرے کی بوڑھی رگیں زیادہ نمایاں ہوکر اس کی کرب انگیز دلی کیفیت کا اظہار کرنے لگتی تھیں۔
اس وقت کمرے کے دونوں پٹ کھلے تھے۔
’’او میرے خدایا۔‘‘ اس کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا اور کمرے کے اندر چلا گیا۔
جس غارت گری کا اس نے اندازہ لگایا تھا وہ صورت حال سے کچھ کمتر ہی تھی۔ اس روز محمود اور اس کی دونوں بہنوں نے معمول سے زیادہ ہی تباہی مچادی تھی۔
پلنگ کی چادر، جسے اس کی بہو نے صرف ایک روز پہلے بدلا تھا، اس پر جابجا مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ انہوں نے پلنگ پر بیٹھ کر کوئی میٹھی چیز کھائی کم اور گرائی زیادہ تھی اور ہر طرف بکھرے ہوئے ریزوں نے مکھیوں کو دعوتِ عام دے دی تھی۔
میز پر کتابیں وہ بڑی ترتیب کے ساتھ رکھا کرتا تھا۔ اسے اپنی کتابوں سے بڑی محبت تھی اور انہی کا مطالعہ کرکے اپنا وقت بتاتا تھا۔ یہ ساری کتابیں منتشر حالت میں پڑی تھیں۔
قالین پر اگلدان الٹا پڑا تھا۔ حقہ کمرے کے ایک گوشے میں رکھا ہوا تھا، وہ کمرے کے عین وسط میں اس عالم بیچارگی میں پڑا تھا کہ اس کی چلم غائب تھی اور چلم کے کوئلے ادھر ادھر دکھائی دے رہے تھے۔
پنشن کے لیے گھر سے جانے سے پہلے وہ دھوبی سے دھلے ہوئے کپڑے لاکر کرسی کے اوپر رکھ گیا تھا کہ واپس آکر انھیں الماری کے خانے میں رکھ دےگا۔ ان میں سے کوٹ نکل کر پلنگ پر پڑا تھا۔ محمود نے ضرور اسے پہن کر داداجان بننے کی کوشش کی ہوگی۔
ایسے میں اس کا صبر و قرار جواب دے جاتا تھا اور وہ کھڑکی سے منہ باہر نکال کر اپنی بہو کو بڑے غصے سے مخاطب کرتا تھا اور اس روز بھی اس نے یہی کیا تھا۔
’’زینب! تم اپنے بچوں کو قابو میں نہیں رکھ سکتیں اوپر آکر دیکھو تو کیا حالت کر دی ہے میرے کمرے کی۔‘‘
بچے اپنے دادا جان کو گھر کے اندر آتے دیکھ کر چپکے سے کھسک جاتے تھے۔ اس لیے زینب انھیں بے تحاشہ بددعائیں دینے کے سوا اور کیا کر سکتی تھی۔
’’میں کیا کروں بابا جی! آپ انھیں کیوں نہیں سمجھا لیتے؟‘‘
اپنی بہو کا یہ رویہ اس کے لیے حیران کن تھا۔ وہ تو سسر کی غصیلی آواز سنتے ہی دروازے کی طرف بھاگتی تھی اور محمود یا اس کی کوئی بہن ہاتھ آ جاتی تھی تو مار مارکر اس کا کچومر نکال دیتی تھی۔ مگر اس روز اس نے ایک فقرہ کہہ کر ہی اپنی طرف سے معاملہ ختم کر دیا تھا۔
ماں بچوں کو بددعائیں دیتی تھی۔ تو اس کا غصہ بھی ذرا دب جاتا تھا لیکن اس روز اس نے