Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سب سے چھوٹا غم

عابد سہیل

سب سے چھوٹا غم

عابد سہیل

MORE BYعابد سہیل

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسی دکھیاری عورت کی کہانی ہے جو اپنے حالات سے پریشان ہو کر حضرت شیخ سلیم چشتی کی درگاہ پر جاتی ہے۔ وہ یہاں اس دھاگے کو ڈھونڈھتی ہے جو اس نے برسوں پہلے اس شخص کے ساتھ باندھا تھا جس سے وہ محبت کرتی تھی اور جو اب اس کا تھا۔ درگاہ پر اور بھی بہت سے پریشان حال مرد عورتیں حاضری دے رہے تھے۔ وہ عورت ان حاضرین کی پریشانیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچتی ہے کہ ان کے دکھوں کے آگے اس کا غم کتنا چھوٹا ہے۔

    اس نے تینوں طرف کی جالیوں میں بندھے ہوئے ہزاروں بلکہ لاکھوں دھاگوں کو دیکھا اور ان میں دس سوا دس سال قبل اپنے باندھے ہوئے دھاگے کو تلاش کرنے لگی۔

    بائیں طرف والی جالی پر جس کے باہر گیندے کے پیلے پیلے پھول اور ہار ڈھیر تھے اور بہت سے دیے جل رہے تھے، اس نے اپنے دھاگے کو پہچاننے کی کوشش کی۔ اسے خوب اچھی طرح یاد تھا کہ اس طرف جالی کے بالکل کونے میں اس نے دھاگے میں ایک گرہ لگائی تھی اور پھر دوسری گرہ جاوید نے۔ اسے یہ بھی یاد تھا کہ ابھی اس کی انگلیاں پوری طرح گرہ لگا بھی نہ پائی تھیں کہ جاوید کی انگلیاں وہاں پہنچ گئی تھیں اور انگلیوں کے اس لمس کے بعد جاوید اس کی آنکھوں میں جھانک کر مسکرانے لگا تھا اور وہ شرما کر نیچے دیکھنے لگی تھی۔ لیکن ان کا باندھا ہوا دھاگا کون سا تھا؟ اس لمحہ اسے خیال آیا کہ اس وقت اس جگہ شاید بہت زیادہ بھیڑ تھی اور جاوید نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا تھا اور وہ سامنے والی جالی پر چلی گئی تھی۔ یہ سوچ کر اس نے درمیان والی جالی کا رخ کیا لیکن قدم آگے بڑھانے سے قبل اس نے ایک بار پھر اس جالی پر نظر ڈالی جیسے وہ اپنا باندھا ہوا دھاگا پہچان ہی تو لے گی۔

    دوسری جالی پر پہنچتے پہنچتے اسے ایسا لگا جیسے پہلی جالی پر جا کر اس نے غلطی کی تھی اور اسے اس کی یاد داشت نے دھوکا دیا تھا۔ دھاگا تو اس نے یہیں باندھا تھا، بالکل کونے میں۔ لیکن یہاں بھی لاکھوں دھاگے بندھے تھے۔ کسی میں ایک گرہ تھی، کسی میں دو۔ ان میں اس کا اپنا کون سا تھا؟ اس نے کونے کے دھاگوں پر ہاتھ پھیرا، آہستہ آہستہ، جیسے جاوید کے ہاتھوں کے لمس سے وہ اپنے دھاگے کو پہچان ہی تو لے گی۔ لیکن کہیں خواہشوں کی گرمی تھی، کہیں آرزوؤں کی نرمی اور کہیں مایوسیوں کی تاریکی اور مصائب کی سختی۔

    اس نے دوسری بار اسی کونے کے دھاگوں پر ہاتھ پھیرنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک دبلی پتلی، گوری چٹی لمبی سی عورت وہاں آ گئی۔ وہ کچھ دیر تو خاموش کھڑی جالی کو ایک ٹک دیکھتی رہی۔ پھر اس نے دائیں طرف کی جالی میں لال دھاگا باندھا، مڑکر عقیدت سے مزار کی طرف دیکھا اور آنسو پونچھتی ہوئی باہر نکل گئی۔

    وہ عورت جوں ہی باہر نکلی، اس نے اس کے باندھے ہوئے دھاگے پر انگلی رکھ دی۔ اکتوبر کی ان ابتدائی تاریخوں میں جب دھوپ چھاؤں کے موسم کے باوجود مزار کے باہر وسیع و عریض آنگن کا ایک ایک پتھر تپ رہا تھا، ایک سرد لہر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ دھاگا سمٹا، پھر پھیلا اور دو آنکھیں بن گیا۔ رحم کی بھیک مانگتی ہوئی آنکھیں۔ دو لب بن گیا، خواہشوں کو گویائی عطا کرتے ہوئے لب ’’اے شیخ تو نے بادشاہوں کی جھولیاں مرادوں سے بھر دی ہیں۔ میری جھولی میں بھی ایک گلاب ڈال دے۔‘‘

    وہ اسی جگہ کھڑے کھڑے کانپ گئی۔ جیسے نیند سے اچانک کوئی کسی کو جگادے یا کوئی بے حد بھیانک خواب سے جاگ پڑے۔ اس نے اپنے دونوں طرف مسہری پر سوتے ہوئے دونوں بچوں کو ٹٹولنے کے لیے ہاتھ بڑھائے لیکن اس کا بایاں ہاتھ محراب سے اور دایاں نہایت خوبصورت کپڑوں میں ملبوس ایک عورت سے ٹکرا گیا۔ کمر میں سونے کی کر دھنی، کانوں میں سونے کے بندے جن میں ہیرے چمک رہے تھے، گویا خواب سے جاگنے کے بعد حقیقت سے اس کا پہلا ٹکراؤ تھا۔ کھلتا ہوا گندمی بلکہ شاید گورا رنگ جس کو خوشحالی، خوشیوں بھری زندگی نے اور بھی حسین بنا دیا تھا، بلکہ چمکا دیا تھا۔

    اس عورت کو بھی بھلا کوئی غم ہو سکتا ہے؟ اس نے بالائی کی رنگت والے ملائم اور گداز ہاتھوں کو دیکھا۔ نظریں جھکا کر دونوں چھوٹے چھوٹے پیروں کو دیکھا، ایسے چھوٹے چھوٹے خوبصورت پیر جیسے انھیں بچپن میں لوہے کے جوتے پہنا کر رکھا گیا ہو۔ پھر سر اٹھا کر کنکھیوں سے ان بڑی بڑی آنکھوں کی طرف دیکھا جو تھوڑی دیر قبل اس کو ایسی لگی تھیں جیسے کسی نے گلاب کے کٹورے بھر دیے ہوں۔ لیکن اب یہ گلاب کے کٹورے چھلکنے ہی کو تھے اور آنسوؤں کے دو قطرے دونوں کٹوروں کے کونوں سے ٹپک پڑنے کے لیے پر تول رہے تھے۔

    اس عورت کو بھی بھلا کیا غم ہو سکتا ہے؟ اس نے سوچا۔ غربت اور مفلسی تو اس نے دیکھی ہی نہیں۔ اولادیں یقیناًہیں ورنہ اس قدر خوش بھلا رہ سکتی تھی۔ مانگ کا سیندور اور چوڑیاں اور بندے۔ چھی چھی کیا برا خیال آیا تھا اس کے دل میں۔ خدا اسے سدا سہاگن رکھے اور اس کے پتی کی عمر دراز کرے۔ لیکن کوئی زخم تو ضرور تھا۔ جسے نہ دولت، نہ شوہر، نہ آل، نہ اولاد، نہ خوبصورت کپڑے، نہ قیمتی زیور، غرض کوئی نہ بھر پایا تھا اور وہ یہاں چلی آئی تھی۔ اس نے ساڑی جس طرح باندھ رکھی تھی، اسی طرح ساڑی باندھنا جاوید کو بھی پسند تھا لیکن وہ اس طرح ساڑی باندھ ہی نہ پاتی تھی۔ اسے اس بات سے ایک اور بات یاد آگئی اور اس کی اداس اور غمگین آنکھوں میں بھی ہنسی کی ایک چمک پیدا ہو گئی۔

    جاوید نے جب تاج محل میں ایک خوبصورت لڑکی کو بار بار پلٹ کر دیکھا تھا تو وہ اداس ہو گئی تھی۔ شادی کو ابھی چند ہی دن تو ہوئے تھے اور خلوتوں میں پیار و محبت لٹانے والا جاوید جلوت میں اور وہ بھی اس کی موجودگی میں اس طرح ہرجائی ہوا جا رہا تھا۔ ویسے اس نے خود کو سمجھایا بھی تھا کہ ہر پرکشش اور خوبصورت چیز کی طرف نظریں خود بخود اٹھ جاتی ہیں لیکن بار بار مڑمڑ کر دیکھنا بلا ارادہ تو نہیں ہو سکتا۔ اس نے کئی بار پلٹ پلٹ کر اس کی طرف دیکھا تھا اور تاج محل کی پشت پر، جمنا کے کنارے، جب وہ عورت مسجد کی طرف کھڑی تھی تو دریا کے اس پار قلعہ کی طرف دیکھتے ہوئے بھی اس نے نظریں چرا کر اس عورت کی طرف دیکھ لیا تھا۔

    لیکن جاوید کی گفتگو کے انداز، برتاؤ، مسکراہٹ، ہنسی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد تاج کے حسن کے کسی پہلو کی طرف اس کی توجہ دلاتے ہوئے اس کے ہاتھ دھیرے سے چھو دینے کی اس کی عادت میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ پھر یہ بات تو اسے ایک دن خود بخود سمجھ میں آ گئی تھی کہ اس دن جاوید اس عورت کو نہیں بلکہ اس ساڑی کو دیکھ رہا تھا جو وہ عورت ایک خاص طریقہ سے باندھے ہوئے تھی۔

    کہیں اس عورت کو ایسا ہی کوئی وہم، کوئی بے نام غم تو نہیں؟ بے نام غموں کے تو ہم عورتوں کے پاس خزانے ہوتے ہیں جنھیں ہم لٹاتے نہیں بٹور بٹور کر رکھتے ہیں۔ خوشیوں کے لمحوں کو بوجھل بنانے کے لیے، بے محابہ، بے ساختہ قہقہوں کو شائستہ بنانے کے لیے، انتہاؤں کو زندگی کے آداب سکھانے کے لیے۔ لیکن ایسے بے نام غموں کے لیے کوئی اتنی دور تو نہیں چلا آتا۔

    وہ عورت جالی پر دھاگا باندھنے لگی تو اس نے کنکھیوں سے اس کے چہرہ کا ایک بار پھر جائزہ لیا۔ اداسی کا ایک پردہ تو ضرور تھا، آنکھیں اب بھی بھیگی ہوئی تھیں لیکن چہرہ کا میک اپ اسی طرح قائم تھا جیسے بیوٹی سیلون سے نکل کر سیدھے یہیں چلی آئی ہو۔ گردو غبار کا ایک بھی نشان نہ تھا، ساڑی پر ایک بھی شکن نہ تھی۔ اس عورت نے دھاگے میں گرہ لگائی تو اس کی نظریں قدرتی رنگ میں رنگے ہوئے اس کے لمبے لمبے ناخنوں پر پڑیں جن کا یہ حسن، یہ چمک، دیکھ ریکھ اور گھرداری کے کاموں سے بے نیازی کے بغیر ممکن نہ تھا۔

    دھاگے میں گرہ لگانے کے بعد اس نے ذرا سا جھک کر دونوں ہاتھ باندھ کر جیسے جالی ہی کو پرنام کیا۔ پھر مڑی اور مزار کے قریب جا کر کھڑے ہی کھڑے تقریباً دہری ہو گئی اور ایسے پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ سارے بندھ ٹوٹ گئے بلکہ بہہ گئے۔ لیکن ان آنسوؤں نے اسے اور بھی خوبصورت اور بھی معصوم بنادیا تھا۔ جب وہ باہر نکلی تو وہ بھی تجسس کے مارے مزار کے سرہانے تک آ گئی۔ اس نے پرس کھولا، دو بڑے بڑے نوٹ نکالے، پھر اور نوٹ نکالے اور درگاہ کے چندے کے بکس میں ڈال دیے اور الائچی دانے لینے کے لیے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔ اسی طرح پھیلائے پھیلائے ہاتھ اوپر اٹھائے اور اپنا سر ہاتھوں پر ٹکا دیا۔ پھر دھیرے دھیرے سر اٹھایا، الائچی دانے پہلے ساڑی کے پلو میں ڈال کر پرس میں احتیاط سے رکھ لیے اور چلی گئی۔ چند قدم بعد اس نے پلٹ کر مزار کی طرف ایک بار پھر دیکھا اور سر جھکائے بلند دروازہ کی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔

    اب وہ اسی جالی کے پاس آ گئی جہاں تھوڑی دیر قبل اس عورت نے دھاگا باندھا تھا، لیکن رنگ برنگے دھاگوں کے جنگل میں وہ اس کادھاگا پہچان نہ سکی، اس کے غم کے راز تک نہ پہنچ سکی۔ اسی درمیان سیاحوں کا ایک ریلا درگاہ میں داخل ہوا تو گائڈ نے رٹے رٹائے جملے دہرائے، ’’شیخ سلیم چشتی کی دعا سے اکبر کو جہانگیر نصیب ہوا۔ یہاں لوگ آتے ہیں اور دامنِ مراد بھر لے جاتے ہیں۔‘‘

    مزار کے باہر کی جالی پر ایک سیاح نے ہاتھ رکھا تو گائڈ نے نہایت آہستگی سے وہ ہاتھ ہٹا دیا اور کہا، ’’اس مزار کی جالی دنیا کے سارے مزاروں کی جالیوں سے خوبصورت ہے۔ کچھوے کی ہڈی پر سیپ کے کام کی یہ دنیا میں اپنی آپ مثال ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دیا سلائی جلائی تو مزار کی بیرونی دیوار کا وہ حصہ جس پر روشنی پڑ رہی تھی چمک اٹھا، جھلمل کرنے لگا۔

    سیاحوں کا ر یلا چلا گیا تو وہ پھر تقریباً تنہا رہ گئی، ایک بار پھر اس نے مزار کے قدموں کے سامنے کی جالی پر بندھے ہوئے دھاگوں پر ہاتھ پھیر اتو جاوید دروازہ کھول کر کمرہ کے اندر داخل ہو گیا۔ نشہ میں دھت، ٹائی کی گرہ ڈھیلی، بال بکھرے ہوئے، سوٹ شکن آلود، آنکھیں سرخ اور دہاڑتا ہوا، ’’میں کہتا ہوں یہ میرا گھر ہے یا کسی اور کا۔ دو دوگھنٹہ چلّاؤ تب کہیں جا کر دروازہ کھلتا ہے۔ نہ آیا کروں کہیں اور سو رہا کروں؟‘‘

    ’’ذرا آنکھ لگ گئی تھی، تھوڑی دیر پہلے تک تو جاگ رہی تھی‘‘ اس نے دھیمے لہجہ میں کہا اور ٹائی کی گرہ کھولنے لگی۔

    ’’ہونہہ جاگ رہی تھیں تھوڑی دیر پہلے تک، تو پھر مر کیوں گئی تھیں میرے آنے پر۔‘‘

    لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا اور کوٹ نرم نرم ہاتھوں سے اتار دیا اور ہاتھ کا سہارا دے کر اسے بستر پر لٹا دیا۔ پھر جوتوں کی ڈوری کھولی، جوتے اتارے، موزے اتارے اور بستر پر اس کی ٹانگیں پھیلادیں۔

    اب یہ بات ہر رات کا معمول بن گئی تھی۔ ویسے اسے دن میں سب کچھ حاصل ہوتا۔ عزت، دولت، کار، ملازم، اولادیں لیکن یہ سب کچھ ایک باریک دھاگے سے لٹکا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ یہ دھاگا کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا تھا۔ اگر اس کے خدشات صحیح ثابت ہوئے تو وہ کیا کرے گی۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود دس بارہ برس تک اس طرح کی زندگی گزارنے کے بعد کیا وہ نئے سرے سے بالکل دوسری طرح کی زندگی شروع کر سکے گی۔

    سوالیہ نشان پھیلا اور پھیلتا ہی گیا کہ ایک بوڑھی سی عورت نے دوسری عورت کی گود سے ایک بالکل چھوٹا سا بچہ لے کر مزار کے قدموں میں ڈال دیا۔ دونوں عورتوں نے جن کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے اسی جگہ بیٹھ کر سر کو اتنا جھکایا، اتنا جھکا یا کہ سجدے کا گمان ہونے لگا۔ بوڑھی عورت اٹھی اور اس نے جالی کے پاس جا کر ایک دھاگے کی گرہ کھول دی۔ بچہ کو گود میں اٹھا لیا، دونوں نے ایک بار پھر عقیدت سے مزار کی طرف گرد نیں جھکا ئیں اور مزار سے باہر نکل گئیں۔ اسی لمحہ اس کی نظر ماں کی گود میں مسکراتے ہوئے بچہ پر پڑی اور وہ خود بھی مسکرا دی۔

    لیکن اس کی یہ مسکراہٹ عارضی تھی۔ ساری جالیوں پر محرومیوں، تمناؤں، ناکامیوں کے آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے لاکھوں لاکھ دھاگوں کے درمیان ایک پھول کب تک اپنی شادابی برقرار رکھ سکتا تھا۔ اس نے دائیں ہاتھ کی مٹھی کھولی تو سرخ دھاگا پسینہ میں بھیگ چکا تھا۔ اب وہ جالی کے کسی ایسے کونے کو تلاش کرنے لگی جہاں اس سے قبل کسی نے دھاگا نہ باندھا ہو۔ لیکن ایسی کوئی جگہ نہ تھی۔ ہر جگہ ایک دو نہیں درجنوں دھاگے بندھے ہوئے اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے آنسو بہا رہے تھے۔ آنسوؤں کے اس سیلاب میں اس کے ایک قطرہ کی بھلا کیا اہمیت۔ گہرے زخم، غم و اندوہ کے پہاڑ، اور مصائب کے طوفان خیز دھارے جن کی یہ دھاگے علامت تھے، اسے اپنے غم کے مقابلے میں بے حد بڑے اور عظیم معلوم ہوئے۔

    اس نے ایک بڑا دھاگا لیا اورجالی کے چاروں کونوں پر باندھ دیا۔ پوری جالی کو گھیر کر، سارے غموں، دکھوں اور تمناؤں کا احاطہ کیے ہوئے۔ اب وہ رو پڑی۔ اس کی آنکھیں سمندر بن گئیں۔ اس نے آنسو پونچھنے کی کوشش کی اور رندھے ہوئے گلے سے بولی، ’’شیخ، ان سب کی مرادیں برآ ئیں تو میرا غم بھی ہلکا ہو جائے گا۔ اتنے بہت سے دکھوں کے بیچ میں کیسے خوش رہ سکوں گی۔‘‘

    باہر صحن کے پتھر اب بھی اتنے ہی گرم تھے، سورج اب بھی آگ برسا رہا تھا لیکن ان کا احساس کیے بغیر، خاموش، گردن جھکائے وہ اس طرح باہر نکل آئی جیسے اس کے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے