- کتاب فہرست 188640
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں59
ادب اطفال2075
ڈرامہ1028 تعلیم377 مضامين و خاكه1531 قصہ / داستان1738 صحت108 تاریخ3579طنز و مزاح748 صحافت216 زبان و ادب1978 خطوط817
طرز زندگی26 طب1033 تحریکات300 ناول5029 سیاسی372 مذہبیات4900 تحقیق و تنقید7352افسانہ3057 خاکے/ قلمی چہرے294 سماجی مسائل118 تصوف2281نصابی کتاب568 ترجمہ4579خواتین کی تحریریں6357-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1498
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح211
- گیت66
- غزل1330
- ہائیکو12
- حمد54
- مزاحیہ37
- انتخاب1659
- کہہ مکرنی7
- کلیات717
- ماہیہ21
- مجموعہ5351
- مرثیہ400
- مثنوی886
- مسدس61
- نعت602
- نظم1318
- دیگر82
- پہیلی16
- قصیدہ201
- قوالی18
- قطعہ74
- رباعی306
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
عابد سہیل کے افسانے
ایک محبت کی کہانی
یہ ایک کتے کی سوانحی اسلوب میں لکھی کہانی ہے۔ کتے کا نام کانگ ہے اور وہ اپنے بچپن سے لےکر اس بڑے سے گھر میں آنے، اپنا نام رکھے جانے اور وہاں کے لاڈ پیار کو بیان کرتا ہے، جس کے بدلے میں وہ اپنی جان تک دے دیتا ہے۔
سب سے چھوٹا غم
یہ ایک ایسی دکھیاری عورت کی کہانی ہے جو اپنے حالات سے پریشان ہو کر حضرت شیخ سلیم چشتی کی درگاہ پر جاتی ہے۔ وہ یہاں اس دھاگے کو ڈھونڈھتی ہے جو اس نے برسوں پہلے اس شخص کے ساتھ باندھا تھا جس سے وہ محبت کرتی تھی اور جو اب اس کا تھا۔ درگاہ پر اور بھی بہت سے پریشان حال مرد عورتیں حاضری دے رہے تھے۔ وہ عورت ان حاضرین کی پریشانیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچتی ہے کہ ان کے دکھوں کے آگے اس کا غم کتنا چھوٹا ہے۔
ہنی مون
یہ ایک ایسے نفسیاتی بیمار کی کہانی ہے جو تنہا ہی ہنی مون پر جاتا ہے۔ اس کے دوست احباب کا خیال ہے کہ وہ لازمی طور پر اپنی بیوی کے ساتھ ہنی مون پر گیا ہے جبکہ وہ ہوٹل کے کمرے میں تنہا رہتا ہے، لیکن اس کی یہ تنہائی زیادہ دنوں تک نہیں رہتی۔ اسی ہوٹل میں اسے ایک دوسری عورت مل جاتی ہے۔
سوا نیزے پر سورج
شیعہ سنی تفریق پر لکھی ایک علامتی کہانی ہے۔ گھر کے بچے ہر وقت کھیلتے رہتے ہیں۔ وہ اس قدر کھیلتے ہیں کہ ہر کھیل سے عاجز آ جاتے ہیں۔ ابو جی انھیں سونے کے لیے کہتے ہیں لیکن وہ چپکے سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں وہ سب مل کر شیعہ سنی کی لڑائی کا کھیل کھیلتے ہیں۔
روح سے لپٹی ہوئی آگ
کہانی انسانی جبلت کی اس سوچ پر ضرب لگاتی ہے جسے فساد برپا کرنے اور قتل و غارت گری کے لیے کوئی بہانہ چاہیئے۔ ایسے مزاج کے لوگوں کے لیے کوئی جھوٹی افواہ ہی کافی ہوتی ہے۔ بھیڑ بھرے بازار ویران ہونے لگتے ہیں، لوگ سڑکوں سے غائب ہو جاتے ہیں اور اپنے گھروں یا کسی محفوظ جگہ پناہ لے لیتے ہیں۔ دوکانیں لوٹ لی جاتی ہیں اور گھروں کو آگ لگا دیا جاتا ہے۔
دشت تعلق
کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو اپنے دوست سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ان کے درمیان وقفہ وقفہ پر فاصلے آتے رہے ہیں لیکن اس کے دل سے اپنے دوست کی یاد نہیں جاتی۔ پھر ایک دن جب وہ اس کے بڑے بھائی کا تعاقب کرتے ہوئے دوست کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ وہاں دوست سے مل کر اسے احساس ہوتا ہے کہ ان کے درمیان رشتوں کی جو حرارت تھی وہ تو ختم ہو چکی ہے۔
نوحہ گر
محبت کرنے والا ایک جوڑا مغلیہ عمارت کے دیدار کو آتا ہے۔ وہ وہاں محرابوں پر اپنے سے پہلے آنے والوں کے لکھے نام دیکھتے ہیں۔ ایک محراب پر ایک خالی جگہ دیکھ کر وہ بھی اپنے نام کا پہلا حرف درج کر دیتے ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد کوئی شخص وہاں آتا ہے اور اس محراب پر جہاں اس جوڑے نے اپنے نام درج کر رکھے تھے، ایک نوحہ لکھ کر چلا جاتا ہے۔ وہ جوڑا واپس اس جگہ پر آتا ہے اور اس نوحے کو پڑھ کر ایک دوسرے کا تھاما ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
غلام گردش
یہ کہانی نوکر اور مالک کے ان رشتوں کو بیان کرتی ہے، جس میں مالک چاہتے ہوئے بھی مصیبت میں گرفتار اپنے نوکر کی مدد نہیں کر پاتا ہے کیونکہ اسے اپنی بدنامی کا ڈر ہوتا ہے۔ مالک بہت ہی مذہبی اور بارسوخ شخص ہے۔ اس کے بڑے بھائی کا گھر اس کے گھر کے سامنے ہے۔ دونوں بھائیوں کے نوکروں کے لیے الگ الگ کوارٹرس ہیں، اس پورے علاقے کو غلام گردش کہا جاتا ہے۔ وہاں ایک نوکرانی بیمار ہے۔ وہ شخص اس کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ کسی طرح کی کوئی غلطی سرزد نہ ہو۔
رشتے
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے اس کی گلی میں بھیک مانگتا فقیر بالکل پسند نہیں ہے۔ وہ رات میں ڈیوٹی کرتا ہے اور سوتے وقت فقیر کی آواز سے اس کی نیند میں خلل پڑ جاتا ہے۔ ایک دن بس میں سفر کرتے ہوئے بس سے گر کر ایک شخص کی موت ہو جاتی ہے۔ کئی دنوں بعد پتہ چلتا ہے کہ بس سے گر کر مرنے والا شخص کوئی اور نہیں وہ فقیر ہی تھا۔ فقیر کی موت کے بعد وہ اب صبح جلدی اٹھنے لگتا ہے۔
ایک سی صورتیں
ڈھائی گھنٹے ہو چکے تھے اور میکو کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ رتن منی جی نے پریشان ہونا تو بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا، جب اس کے لوٹ آنے کا وقت بھی نہیں ہوا تھا لیکن اب تو ڈھائی گھنٹے بھی پورے ہو چکے تھے۔ ان کی پریشانی بلاسبب بھی نہیں تھی۔ پچاس ہزار روپوں
عیدگاہ
یہ کہانی پریم چند کی لکھی کہانی کے آگے کی داستان بیان کرتی ہے۔ عیدگاہ سے لوٹتے ہوئے حامد نے اپنے ساتھیوں کے کھلونوں کا مذاق اڑایا تھا اور اپنے دست پناہ کا رعب دکھایا تھا۔ گھر پہنچنے پر اس کے ساتھیوں کے سارے کھلونے ایک ایک کر ٹوٹ جاتے ہیں۔ ان کھلونوں کے ٹوٹنے کا الزام حامد پر لگایا جاتا ہے اور اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں59
ادب اطفال2075
-
