Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گل خارستان

سدرشن

گل خارستان

سدرشن

MORE BYسدرشن

    سیٹھ سلھکن داس سیالکوٹ کے ممتاز رؤسا میں سے تھے۔ سیالکوٹ اور گردو نواح میں ان کے نام کی بہت قدر تھی۔ سادہ کاغذ اٹھا کر بھیج دیتے۔ تو ہزاروں کا مال منگوا لیتے۔ ان کے باپ دادا نے بہت روپیہ کمایا تھا، اس باب میں سیٹھ صاحب خود بھی سمجھدار تھے۔ اس رویے میں اضافہ کرنے میں کوشاں رہتے تھے۔ کبھی گھٹانے کا حوصلہ نہیں کیا۔ ان کی دلی آرزو یہ تھی کہ جو کچھ اپنے باپ سے ورثہ پایا ہے۔ مرتے وقت اس سے زیادہ اپنے فرزند کو سونپ جائیں۔ ورنہ پرماتما کے سامنے آنکھیں جھک جائیں گی۔

    چھاؤنی میں ان کی دکان تھی۔ نہایت مشہور اور شاندار سیٹھ صاحب دوکانداری کے اصولوں کے پورے ماہر تھے۔ ایک چالاک آدمی منیجر رکھا ہوا تھا۔ مگر گدی پر خود ہی بیٹھتے تھے۔ خریدار آتا تو اس سے ایسے عمدہ طور سے بات چیت کرتے اور ہنس ہنس کر ایسے جال پھینکتے کہ بھولی بھالی چڑیا دانے پر اتر آتی اور دو کی بجائے چار کا سودا بکتا۔ سیٹھ صاحب ان دوکانداروں میں سے نہ تھے جو خریدار کے ایک شے پسند نہ کرنے پر گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ آپ کا قول تھا کہ خریدار ایک چیز مانگے تو اس کے آگے تین چیزیں رکھ دو۔ ایک نمونہ ناپسند کرے۔ چار اور نمونے سامنے پھینک دو۔ پھر دیکھو خریدار کورا کیسے نکل جاتا ہے۔ لیکن اگر خریدار گھر سے تصفیہ ہی کر کے نکلا ہے کہ دوکاندار کو تنگ کرنا ہے اور جیب کو ہاتھ لگانے سے قسم ہی کھا آیا ہے تو اور بات ہے لیکن اس حالت میں بھی سیٹھ صاحب کے ماتھے پر بل نہ آتا تھا اور وہ اٹھ کر چار قدم ساتھ رخصت کرنے جاتے تھے۔

    وہ محض دکاندار ہی نہ تھے۔ بہت خوش گو اور بہت خوش آواز تھے۔ اپنی اچھی مجلسوں میں مدعو کئے جاتے تھے۔ ان کی باتیں اس قدر دلچسپ اور دلکش ہوتی تھیں کہ وہ ساری مجلس کو ان میں الجھا لیا کرتے تھے اور لوگ اٹھنے کا نام نہ لیتے تھے۔ بعض وقت کوئی آدمی انداز شکر گزاری کے طور کہتا کہ سیٹھ صاحب آپ نے یہاں تشریف لاکر بہت کرم فرمائی کی ہے۔ تو آپ سادگی سے جس کے ساتھ مذاق کی آمیزش ہوتی تھی جو اب دیتے۔ یہ تو میرا اشتہار ہے۔ لوگ سنتے تو قہقہہ لگاتے۔

    مگر ان باتوں کے باوجود آپ پرانے خیال کے آدمی تھے۔ صبح اٹھ کر سورج کو پانی دینا ان کا معمول تھا اور شام کو مندر میں دیا ضرور جلایا کرتے تھے۔ ہر منگلوار کو مہابیر کا پکوان پکواتے اور ہر اتوار کو برت رکھتے تھے۔ یہ معمول کی باتیں تھیں جو کبھی نہ چھوٹتی تھیں۔ پنڈت کے قول پتھر کی لکیریں تھیں اور برادری کے فتوے وید بھگوان کے احکام۔

    دیناناتھ ان کا لڑکا بہت سمجھدار اور ہونہار تھا۔ وہ انٹرینس کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کر چکا تھا اور اب مقامی کالج میں داخل ہو چکا تھا۔ سیٹھ صاحب کے سامنے اس نے کبھی آنکھیں نہ اٹھائی تھیں اور نہ ان کے دوست احباب میں سے کسی نے اسےشرارتیں کرتے دیکھا تھا، جب لڑکے مل ملا کر نئی شرارتیں سوچتے، جب وہ کسی غریب دہقان کو بنانے کی تجویز پختہ کرتے تو دینا ناتھ حلیمی سے ان کی مخالفت کرتا اور جب وہ اس کی نہ سنتے تو خاموش واپس چلا جاتا۔

    وہ اپنےباپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی ماں اسے ایک ہی سال کی عمر میں باپ کی آغوش محبت میں سونپ گئی تھی۔ سیٹھ صاحب اسے بہت پیار کرتے تھے۔ اپنے لئے پیسہ بھی صرف کرتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ مگر دینا ناتھ کے سر پر سے تھیلیاں قربان کرنے میں بھی پس وپیش نہ تھا۔

    لوکل آریہ کمار سبھا کا سیکریٹری دینا ناتھ تھا۔ اس سے پہلے کمار سبھا مردہ حالت میں تھی مگر دینا ناتھ کی سرگرمیوں نے مردہ قالب میں روح پھونک دی اور شہر کے لڑکے شوق سے ہفتہ واری جلسوں میں شریک ہونے لگے۔

    سماج کا سالانہ جلسہ آیا۔ دینا ناتھ کھانا پینا بھول گیا اور جب بھرے پنڈال میں اس نےا چھوتوں کی اصلاح پر مختصر تقریر کی۔ تو لوگ دنگ رہ گئے۔ اس نے کہا۔

    ’’تم کہتے ہو کہ وہ ینچ ہیں کیونکہ وہ ینچ والدین کے ہاں پیدا ہوئے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پھول مٹی گوبر اینٹ پتھروں ہی سے نکلتا ہے اور دنیا کی نگاہوں کو اپنی طرف کشش کر لیتا ہے۔ گنا زمین سے پھوٹتا ہے اور شربت کے گھڑے انڈیل دیتا ہے۔ کیا تم نے کبھی پھول کو اس وجہ سے پرے پھینکا کہ وہ مٹی سےپیدا ہوا ہے۔ کیا تم نے کبھی گنے کو اس سبب سے نفرت کی نگاہوں سے دیکھا کہ وہ زمین سے نکلا ہے۔ وہ ینچ ہے کیونکہ وہ ایک ینچ کے ہاں پیدا ہوا اور میں اونچا ہوں کیونکہ میں ایک اونچے خاندان میں پیا ہوا۔ میں پوچھتا ہوں میرے پاس اونچا ہونے کی کونسی سند ہے۔ کیا اچھوتوں کی آنکھیں نہیں۔ کیا ان کے کان نہیں۔ کیا وہ میری مانند نہیں سوچتے اور کیا وہ میری طرح محسوس نہیں کرتے۔

    ’’تم کہتے ہو وہ تمہارے وید پڑھنے کے مستحق نہیں ہیں، میں کہتا ہوں یہ تمہارا ظلم ہے۔ وید پرماتما کے ہیں۔ اسی طرح جس طرح سورج، چاند، ہوا اور پانی پرماتما کے ہیں۔ کیا سورج ان کو روشنی نہیں دیتا۔ کیا ہوا، ان کے گھروں میں داخل نہیں ہوتی۔ کیا آگ ان کے چولہوں کو گرم نہیں کرتی۔ کیا زمین ان کو اپنے اوپر چلنے سے منع کرتی ہے پھر ان سے پرہیز کیوں؟

    ’’میں اچھوتوں کے آگے اپنا آپ پیش کرتا ہوں اور اپنی زندگی ان کے واسطے وقت کرنے کا عہد کرتا ہوں۔ میں پڑھوں گا میں ڈگری لوں گا، میں گاؤں گاؤں میں پھروں گا، میں تکلیفیں اٹھاؤں گا۔ میں آفتیں چھیلوں گا۔ میں فاقے کروں گا۔ میں بھوکا مروں گا۔ مگر ان کے لئے جن پر تو نے۔ اے ہندو قوم تو نے اپنی رحمت کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ کوشش کر کے کھول دوں گا۔ میں ایک برہمن کو جو کرموں کا ینچ ہے پرے پھینکوں گا، مگر ایک بدکار رنڈی کی اولاد کو جو نیک اور شریف ہو۔ گلے سے لگانے میں فخر سمجھوں گا۔‘‘

    لوگوں نے سنا تو تالیاں پیٹ دیں۔ دینا ناتھ پلیٹ فارم سے اترا۔ سیکریٹری نے اسے گلے سے لگا لیا اور کہا، ’’ہمیں تجھ پر ناز ہے۔‘‘

    دینا ناتھ نے سرجھکا کر جواب دیا، ’’یہ آپ کا حسن ظن ہے ورنہ میں تو ایک معمولی طالب علم ہوں۔‘‘

    سیٹھ سلکھن داس نے اس تقریر کا حال سنا تو جل بھن کر کوئلہ ہو گئے۔ گرجتے ہوئے آئے اور بیٹےکے سر پر برس پڑے۔ دینا ناتھ خاموشی سے سنتا رہا اور سر جھکائے رہا۔ آخر ادب سے بولا، ’’میں آریہ سماجی ہوں اور آریہ سماج اچھوتوں کے اٹھانے کا مدعی ہے۔ میں بزدل نہیں بن سکتا۔‘‘

    ’’تو نے آج کچھ عہد کیا ہے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’پتت ادھار (اچھوتوں کی اصلاح) کے لئے زندگی وقف کرنے کا۔‘‘

    ’’سلکھن داس کے ضبط کی دیواریں گر گئیں۔ تحمل کے بند ٹوٹ گئے غصے سے لال پیلے ہو کر بولے۔’’مجھے تم سے امید نہ تھی کہ تم اس طرح سے گستاخانہ جواب دوگے۔‘‘

    دینا ناتھ نے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’میں نے تو کوئی گستاخی نہیں کی۔‘‘

    ’’تو یہ خیال چھوڑ دو۔‘‘

    ’’یہ ناممکن ہے۔‘‘

    ’’ناممکن کیوں؟‘‘

    ’’کیونکہ یہ اصول کا سوال ہے۔‘‘

    سیٹھ سلکھن داس آگ بگولا ہو گئے اور دانت پیستے ہوئے بولے، ’’اصول اتنا ہی پیارا ہے، باپ کو چھوڑ دوگے؟‘‘

    دینا ناتھ ہر چند کہ سعادت مند تھا اور کبھی والد کے سامنے اونچا نہ بولتا تھا مگر جوانی کے جوش میں نا واجب دباؤ کو برداشت نہ کر سکا۔ نشیب و فراز سوچے سمجھے بغیر ہی اکڑ کر بولا۔

    ’’اصول کے سامنے سب کچھ ہیچ ہے۔‘‘

    سلکھن داس کو بہت صدمہ پہنچا۔ جی میں آیا، ایسے ناخلف کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیں، مگر پھر کچھ سوچ کر چپ ہو رہے اور مصلحتاً وہاں سے ٹل گئے۔

    دینا ناتھ سوچنے لگا یہ اصول کا سوال بہت مہنگا پڑتا معلوم ہوتا ہے۔ والد پرانے خیال کے آدمی ہیں۔ اس آزاد خیالی کو نہ سہار سکیں گے۔ میں جو کچھ بھرے جلسے میں کہہ چکا ہوں۔ اس سے پھر ناممکن ہے جو قدم آگے رکھ چکا ہوں۔ پیچھے ہٹانا بزدلی ہے۔

    اسی وقت ایک لڑکا مکان میں داخل ہوا اور ایک چٹھی ہاتھ میں دے کر مؤدبانہ کھڑا ہو گیا۔

    دینا ناتھ نے چٹھی کو دیکھا۔ دستخط اجنبی سا معلوم ہوا۔ لڑکے کو دیکھا وہ ناواقف تھا، چٹھی کھولی، تو مضمون اور بھی دنگ کرنے والا تھا۔ لکھا تھا۔

    ’’آریہ بیر! تمہاری پرجوش تقریر کا تذکرہ آج بچے بچے کی زبان پر ہے اور تمہارے عہد کا بیان شہر کے کونے کونے میں مسرت آمیز لہجے میں کیا جا رہا ہے۔ تمہارے خیالات کیسے پاکیزہ ہیں اور تمہاری سرگرمیاں کس قدر شریفانہ ہیں۔ میں تمہیں ایک عرصے سے دیکھ رہی ہوں اور گہری نظر سے دیکھ رہی ہوں۔ تمہاری تقریر کا حال سن کر میں اچھل پڑی اور سوئے ہوئے جذبات بیدار ہو گئے۔ میں صاف کہہ دینا چاہتی ہوں کہ میں اس طبقے سے ہوں جس کو سوسائیٹی کے معزز لوگ نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مگر تنہائی میں گھر پر بلاتے ہیں۔ میں ایک بیسوا کی لڑکی ہوں۔ مگر ابھی تک میرے پاس وہ شے اپنی قدرتی حالت میں قائم ہے۔ جس کا ایک نیک پارسا عورت کے پاس ہونا لازمی ہے۔ لیکن حریص نگاہیں میرے چہرے پر ہیں اور بد معاش دل نئے آسمان اور نئی زمین کی تلاش میں میرے قریب آ رہے ہیں۔ میری ماں مجھ سے عجیب عجیب خواہشیں رکھتی ہے اور مجھے دریائے گناہ میں دھکیلنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔

    ’’میں تمہاری شرافت اور معزز سرگرمیوں سے اپیل کرتی ہوں۔ میں تمہاری آزاد خیالی سے التجا کرتی ہوں۔ پرماتما کے لئے مجھے بچاؤ اور اس آگ سے جو میرے چاروں طرف سلگ رہی ہے۔ نکالو؟ کیا تم میں یہ حوصلہ ہے کیا تم ایک ڈوبتی ہوئی لڑکی کو گناہ کے سمندر سے بچاؤگے؟

    ’’شام کے چار بجے کمپنی باغ کے مشرقی دروازے پر مل کر تفصیل بیان کروں گی۔ کیا تم آؤ گے؟‘‘

    بحر ہلاہل میں بسنے والی امرت کی خواہشمند۔

    دینا ناتھ سناٹے میں آ گیا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا۔‘‘ اب کیا کرنا چاہئے؟ یہ فعل مجھے بدنام کر دےگا اور لوگ مجھ پر آوازے کسیں گے لیکن کیا یہ پاپ ہے؟ کیا ایک ڈوبتی ہوئی لڑکی کو بچانا اور ایک گری ہوئی روح کو اٹھانا گناہ ہے۔ کیا ایک بہتی کو بحر گناہ سے نکال کر سرزمین عصمت میں پہنچانا ایک ایسا فعل ہے جس کے لئے شرمندگی محسوس کی جائے اور کانپا جائے یہ برائی ہے کیونکہ سوسائٹی اسے برا سمجھتی ہے۔ تو کیا پتت ادھار گناہ نہیں ہے۔ کیا شدھی گناہ نہیں ہے جس کے خلاف ہندو قوم زور شور سے آواز بلند کرتی رہتی ہے۔ نہیں نہیں مجھے جانا چاہئے۔ مجھے اس کی بات سننا چاہئے اور جو کچھ وہ کہتی ہے، اسے راستبازی اور فرض کے ترازو میں تولنا چاہئے۔ اس کے لئے دنیا جو جی میں آئے کہے۔ میں اس کی پرواہ نہ کروں گا۔ دنیا مجھے گرا نہیں سکتی۔ جب تک میں خود اپنی نگاہوں میں آپ نہ گر جاؤں۔‘‘

    یہ سوچ کر دینا ناتھ نے اس اجنبی عورت سے ملنے کا فیصلہ کر کے لڑکے سے کہا۔

    ’’جاؤ کہنا وہ باغ میں آئیں گے۔‘‘

    کالج سے تین بجے چھٹی ہوئی تو دیناناتھ سائکل پر چڑھ کر سیدھاکمپنی باغ پہنچا۔ مشرقی دروازے پر ایک نوجوان خوبصورت لڑکی اس کا انتظار کر رہی تھی، اس نے اسے دیکھتے ہی ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر نمستے کی اور خاموش کھڑی ہو گئی۔

    دینا ناتھ نے غور سے لڑکی کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ اس کے چہرے پر بھولا پن برستا تھا اور کوئی بات ایسی نہ تھی جو طبقے کے لئے مخصوص ہے جو حسن فروشی کے لئے بدنام ہے۔ اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسوتھے اور ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔

    دینا ناتھ نے پوچھا،’’چٹھی آپ ہی نے لکھی تھی؟‘‘

    لڑکی نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’میں آ گیا ہوں۔‘‘

    لڑکی نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا، ’’آپ نے چٹھی پڑھ لی ہے کیا؟‘‘

    دینا ناتھ نے احتیاطاً چاروں طرف دیکھا اور بولا، ’’ہاں کیا تم تنہا ہو؟‘‘

    ’’نہیں میری ماں بھی آئی ہیں، وہ باغ میں ہیں۔‘‘

    دینا ناتھ کانپ گیا اور بولا، ’’بڑی مشکل ہوئی۔‘‘

    لڑکی نے کہا۔’’آپ فکر نہ کریں۔ وہ ادھر نہ آئیں گی۔‘‘

    ’’اچھا کہو کیا کہنا ہے؟‘‘

    لڑکی کی آواز بھر آئی اور اس نے اپنے آپ کو زمین پر گرا کر جواب دیا، ’’پرماتما کے لئے مجھے بچالو، میں اس حیات چند روزہ میں گناہ کی آگ کے تباہ کن شعلوں سے بچنا چاہتی ہوں۔ میری ماں مجھے تباہ کرنے کے درپے ہے۔ اسے دنیا کے عیش و عشرت کے سوائے اور کوئی شے نظر نہیں آتی۔ مگر مجھے وہ دکھائی دیتا ہے۔ جو میری ماں نہیں دیکھ سکتی۔ میں اس زندگی کو چھوڑنا چاہتی ہوں اور دنیا داروں کی زندگی بسر کرنے کی خواہشمند ہوں۔ میں اپنے آپ کو تمہارے قدموں میں پھینکتی ہوں۔ مجھے ٹھوکر نہ لگاؤ۔ مجھے نفرت کی نگاہوں سے نہ دیکھو۔ میں راہ راست پر چلنا چاہتی ہوں۔ کیا یہ پاپ ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    لڑکی کا چہرہ چمک اٹھا اور اس نے للچائی ہوئی آواز میں التجا کی، ’’تم مجھے بچاؤگے؟‘‘

    دینا ناتھ نے چند منٹ توقف کیا اور پھر بولا، ’’تم جانتی ہو۔ یہ کام بڑا نازک اور بڑا مشکل ہے۔ اس کے لئے توقف کی ضرورت ہے۔ میرا جواب تمہارے لئے تسکین وہ ہوگا، مگر میں اس وقت وعدہ نہیں کر سکتا کہ میں تمہارےلئے جان جوکھوں میں ڈال دوں گا۔ اپنی طاقت کا اندازہ کئے بغیر سمندر میں کود پڑنا نادانی ہے۔ چند دن انتظار کرو پھر میں تمہیں جواب دوں گا۔‘‘

    لڑکی نے کہا، ’’میں نوکر بھیج دوں گی۔‘‘

    ’’کچھ سمجھدار ہے؟‘‘

    ’’ہاں اس پر میں بھروسہ رکھتی ہوں۔ آپ بھی اسے اپنا سمجھیں۔‘‘

    ’’بہتر، اب میں جاتا ہوں۔‘‘

    ’’جاؤ مگر میرا خیال رکھنا، مجھے نرک میں سڑنے پر مجبور نہ کرنا۔‘‘

    دینا ناتھ نے کہا، ’’نہیں تم تسلی رکھو۔‘‘

    دینا ناتھ واپس ہوا۔ تو لڑکی اسے دیکھتی رہی اور جب وہ نظر سے اوجھل ہو گیا تو ٹھنڈی سانس بھر کر اس طرف روانہ ہوئی۔ جس طرف ماں اس کی اپنے رفیقوں کے ساتھ رنگ رلیوں میں مصروف تھی۔

    اوپر کے واقعہ کے دس دن بعد دینا ناتھ اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا کچھ سوچ رہا تھا کہ اس کا دوست ستیہ پال ہنستا ہوا آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔

    مضطر بانہ انداز سے گویا کہ ایک ایک لمحہ دو بھر ہو۔ دینا ناتھ نے پوچھا۔’’کہو کیا حال ہے؟‘‘

    ’’میری تحقیقات مکمل ہو گئی۔‘‘

    ’’کیا معلوم ہوا ہے؟‘‘

    ’’تحقیقات کا نتیجہ اطمینان بخش ہے، سب یہی کہتے ہیں کہ لڑکی بہت ہی نیک اور حیا پرور ہے اور اس میں قطعاً کوئی نقص نہیں، ہاں یہ نقص ضرور ہے کہ اس کی پیدائش ایک رنڈی کے پیٹ سے ہے۔‘‘

    دینا ناتھ مایوس ہو کر بولا، ’’سنسکار تو برے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن یہ سن کر تم اور بھی متعجب ہو گے کہ اس کی والدہ بھی پیدائشی رنڈی نہیں بلکہ ایک ہندو خاندان کی لڑکی ہے۔ اس کا اصلی نام شودیوی ہے۔ حریض والدین نے روپے کی خاطر اسے ایک بوڑھے سے بیاہ دیا تھا۔ اس کا نتیجہ وہی ہوا، جو ایسے بیاہوں کا ہوا کرتا ہے۔ شودیوی کے ایک سال کے اندر اندر نصیب پھوٹ گئے۔ بڈھا چل بسا۔ لوگوں نے اسے والدین کا قصور بتایا، لیکن والدین نے سارا الزام قسمت کے سرمنڈھا اور بیٹی کو گھر لے گئے۔ شودیوی کی شکل و صورت خوبصورت تھی۔ اس پر جوانی کی عمر۔ بدمعاش شریفوں میں بھری ہوئی دنیا میں راہِ راست سے متزلزل ہو گئی۔ اس کا نتیجہ یہ لڑکی ہے۔ لڑکی پیدا ہوتے ہی شو دیوی پر اس قدر لعن طعن ہونے لگی کہ اس کے لئے زندگی اجیرن ہو گئی۔ اس نے اول اول تو برداشت کیا لیکن بات بڑھتی گئی۔مرتی کیا نہ کرتی۔ آخر ایک دن گھر سے نکل بھاگی اور بدمعاشوں کے ہاتھ میں پڑ گئی اور آخر بازار حسن میں پہنچ گئی جس طرح بیوقوف مریض معمولی سی تکلیف کے لئے غیرمعمولی سی تکلیف کے لئے غیر معمولی دوا تجویز کر لیتا ہے۔

    دینا ناتھ نے اطمینان کی سانس لی، ’’میں سوچ رہا تھا کہ اس کے پیدائشی سنسکار بہت برے ہیں لیکن اب اس باب میں فکر کی حاجت نہیں تاہم تمہاری آخری رائے کیا ہے۔‘‘

    ’’میری رائے میں تم کو ضرور یہ کڑوا پیالہ لبوں سے لگانا چاہئے، پرماتما نے تمہاری آزمائش کے لئے تمہارے آگے یہ نشیب و فراز کا گورکھ دھندا رکھا ہے۔ اسے کھولو اور دنیا کی انگشت نمائی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک ڈوبتی ہوئی روح کو امن اور سلامتی کے کنارے لگاؤ۔ تم نے تقریر میں کہا تھا کہ میں برہمن کو جو محض برہمن ہو گا مگر کرموں کا ینچ ہوگا۔ پرے دھتکار دوں گا اور اس ینچ کو۔۔۔ جو نیک دل ہے خواہ رندی کے پیٹ سے کیوں نہ ہو۔ گلے لگانے میں فخر سمجھوں گا۔‘‘ اب یہ موقع تمہاری زبان کی آزمائش کا ہے۔ وہ تمہیں چاہتی ہے، تم اسے پسند کرتے ہو۔ وہ ینچ طبقے سے ہے، مگر وہ خود ینچ نہیں ہے۔ کیا تم اس کی حفاظت نہ کروگے؟

    دینا ناتھ جوش سے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا، ’’میں کروں گا اور اس وقت تک کروں گا جب تک کہ میرے جسم میں خون کا آخری قطرہ باقی ہے۔‘‘

    عین اسی وقت دروازہ کھلا اور وہی چھوٹا لڑکا کمرے میں داخل ہوا، دینا ناتھ نے جلدی سے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘

    لڑکے نے جھک کر سلام کیا اور چٹھی ہاتھ میں رکھدی۔ دینا ناتھ نے اضطراب بھرے دل سے کھولا اور پڑھنے لگا، لکھا تھا۔

    ’’آریہ بیر! تم نے میری مدد کا وعدہ کیا تھا۔ اسے ایفا کرنے کا وقت آ گیا ہے اور اگر اب ایفا نہ کیا تو پھر کچھ کرنا نہ کرنا برابر ہوگا۔ میری ماں نے میری آہ و زاریوں کی کوئی پروا نہیں کی اور کل کی رات اس شرمناک بات کے لئے مقرر ہوئی ہے جس کے تصور ہی سے میرا جسم لرز جاتا ہے۔ میں غوطے کھا رہی ہوں۔ کیا تم میری مدد کو نہ آؤ گے۔ دنیا میں تم ہی ہو، جسے میں مدد کے لئے کہہ سکتی ہوں کیونکہ میرا دل، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر تم نے دنیا کے ڈر سے یا کسی دوسری مصلحت سے میری مدد کرنا مناسب نہ سمجھا۔ تو ندی میں ڈوب مروں گی۔ افیون کھالوں گی۔ گاڑی کے نیچے آ جاؤں گی۔ مکان سے کود پڑوں گی، مگر اپنی والدہ کے آگے کبھی گردن خم نہ کروں گی۔ زیادہ کیا لکھوں؟ اگر مجھے بچانا منظور ہے۔ تو آج رات کے بارہ بجے میرےمکان کے نیچے آ جاؤ۔ ورنہ محبت کے ساتھ آخری نمستے۔

    ’’آنسو بھری آنکھوں اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ صرف تمہاری۔‘‘

    دنیا ناتھ نے دیکھا۔ لفظ لفظ سے محبت کی بو آ رہی ہے اور فقرے فقرے سےعقیدت کا رنگ جھلکتا ہے۔ ایسے خط کا جواب مایوسی بخش نہیں دیا جا سکتا تھا۔ ستیہ پال کی صلاح سے جواب لکھا۔

    ’’فکر و تردد نہ کرو۔ نیکی کی راہ پر خطر ہے۔ مگر انجام شاندار ہے۔ میں بدنامیاں سہوں گا۔ میں تکلیفیں اٹھاؤں گا، میں گھر بار چھوڑ دوں گا، میں جلا وطنی قبول کروں گا مگر تمہاری حفاظت میں جان لڑا دوں گا۔ پرماتما تم کو دھرم پرچٹان کی مانند مضبوط رکھے۔ رات کو انتظار کرو۔

    تمہارا صدق دل سے دیناناتھ‘‘

    رات کا وقت تھا۔ دینا ناتھ ستیہ پال کے ہمراہ اس بازار میں چلا جا رہا تھا، جس میں سے ہو کر نکلنا بھی وہ گناہ عظیم خیال کیا کرتا تھا۔

    آخر دونوں ایک مکان کے نیچے رک گئے اور تھوڑی دیر کے لئے روشنی پرتاریکی کے بادل آنے لگے۔ دینا ناتھ سوچنے لگا۔ میں کیا کر رہا ہوں۔ کوئی مجھے یہاں دیکھ لےگا۔ تو کیا کہےگا۔ جنہوں نے میری پرجوش تقریریں سنی ہیں۔ وہ میرا یہ کارنامہ سن کر کیا کہیں گے۔

    تاریکی میں روشنی ہوئی۔ دینا ناتھ کے دل میں معصوم لڑکی کی تصویر آ گئی جو روتی تھی، تڑپتی تھی اور مدد کے لئے واویلا کرتی تھی۔ تصور ہی تصور میں اس نے معصوم لڑکی کے ہاتھ پکڑ لئے اور کہا میں تمہاری حفاظت کروں گا۔

    اتنے میں قدموں کے ٹاپ کی آواز سنائی دی اور تھوڑی دیر کے بعد خارستان کا معصوم و دلفریب پھول نیچے اتر آیا۔ اس کا چہرہ چمک رہا تھا اور پاکیزہ آنکھیں جوشِ مسرت سے مسکرا رہی تھیں۔ اس نے دینا ناتھ کے پاؤں کو ہاتھ لگایا۔ ستیہ پال کو ہاتھ جوڑ کر نمستے کی اور کہا، ’’چلو‘‘

    دینا ناتھ نے ستیہ پال کی طرف دیکھا۔ ستیہ پال نے اشارہ سمجھ کر کہا، ’’چلو سیکریٹری سماج کی طرف چلیں۔‘‘

    تینوں نیکی کے چمکدار ستارے تاریکی میں چلنے لگے اور سیکریٹری سماج کے مکان پر جا پہنچے۔ وہ سو رہے تھے۔ نو کر کو کہہ کر جگایا گیا، مگر جب ان کو حالات سنائے گئے تو وہ دنگ رہ گئے اور سناٹے میں آ گئے۔ حیرت سے بولے، ’’لڑکی کو نکال لائے ہو؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’پھر کیا ارادہ ہے؟‘‘

    اسے شدھ کر لیجئے۔ اس کی یہ دلی آرزو ہے۔ بعد میں اس کی شادی پر غور کیا جائےگا اور جس کو اس کے قابل سمجھا جائےگا۔ اس کے سپرد کیا جائےگا۔‘‘

    سیکریٹری نے چند منٹ توقف کیا۔ ان کے دل میں راستی اور خوف کی جنگ ہو رہی تھی۔ آخر راستی پر خوف نے فتح پائی اور ہچکچاتے ہوئے بولے، ’’اس میں آریہ سماج کی بد نامی ہے۔‘‘

    ستیہ پال ضبط نہ کر سکا، جو ش سے بولا، ’’کیا ہم غلطی پر ہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’پھر ڈرنے کی وجہ؟ بدنامی کے خوف سے پیچھے ہٹنے کا سبب۔ جلدی نہ کیجئے کیونکہ اس میں ایک معصوم لڑکی کی زندگی کا سوال پوشیدہ ہے۔ مہربانی کرکے سوچئے۔ آپ کی ’’نہ‘‘ سے ہماری پوزیشن کیا سے کیا ہو جاتی ہے؟‘‘

    سیکریٹری صاحب پھر بولے، ’’اس میں آریہ سماج کی بدنامی ہے۔‘‘

    دینا ناتھ گھبرا کر بولا، ’’آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

    سیکریٹری صاحب نے جواب دیا، ’’تمہاری ہمت قابل آفرین ہے اور تمہاری جرأت قابل تحسین ہے۔ تم جو کچھ کر رہے ہو۔ یہ دنیا کی نگاہوں میں برا ہے، مگر پرماتما اسے پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتا ہے۔‘‘

    ’’پھر آپ شدھ کیوں نہیں کرتے؟‘‘

    سیکریٹری صاحب نے پھر اپنا جواب دوہرایا، ’’اس میں آریہ سماج کی بدنامی ہے۔‘‘

    ستیہ پال اور دیناناتھ دونوں معصوم لڑکی کے ہمراہ واپس آئے۔

    ایک خستہ حال مکان میں ٹھہرنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ وہاں لڑکی کو رکھا گیا اور دیناناتھ اپنے باپ کے پاس گیا۔

    سلکھن داس پرانے خیال کے آدمی تھے۔ سب داستان سن کر آگ بگولا ہو گئے اور دینا ناتھ کو دھکا دے کر بولے۔ میری آنکھوں سے دور ہو جا۔ آج سے تم نہ میرے بیٹے ہو نہ میں تمہارا باپ۔‘‘

    دینا ناتھ کو باپ سے اس سلوک کی توقع نہ تھی۔ دل میں بہت رنجیدہ ہوا۔ سیدھا ستیہ پال کے پاس گیا اور رو کر بولا، ’’بھائی اب کیا کرنا ہے۔‘‘

    ستیہ پال نے کہا، ’’ہمت نہ ہارو۔ تمہارے کالج کے اخراجات کا میں ذمہ دار ہوں۔‘‘

    دینا ناتھ کے سر سے بوجھ سا ہٹ گیا۔ ستیہ پال کو گلے لگا کر بولا، ’’میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ اب مجھے کوئی فکر نہیں۔ میں کھانے پینے کے لئے کوئی ڈیوٹی لے لوں گا۔‘‘

    ستیہ پال نے کہا، ’’تردد نہ کرو۔ یہ آندھی ٹل جائےگی۔‘‘

    جب آریہ سماج نے جواب دے دیا۔ تو ستیہ پال نے یار دوستوں کو یکجا کیا اور ان سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔

    فیصلہ ہوا کہ چار پانچ دوست مل کر ہون کریں اور لڑکی کو شدھ کر ڈالیں اور اس کی شادی دینا ناتھ کے ساتھ کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ لڑکی کا نام ’’امرت وتی‘‘ رکھا گیا اور اسے دینا ناتھ کے آغوشِ الفت میں سونپا گیا۔

    دینا ناتھ نے ایک ڈیوٹی لے لی۔ اسے کھانے پینے کے فکر سے نجات ملی۔

    امرت وتی نے شاہزادیوں کی مانند پرورش پائی تھی۔ اب اسے بہت دقت پیش آئی۔ وہ جو ریشمی ساڑھیوں میں ملبوس رہا کرتی تھی۔ سوتی بلکہ بعض وقت وہ بھی پھٹی پرانی دھوتیوں میں گزارہ کرنے لگی۔ وہ جس نے کبھی چولہا دیکھا بھی نہ تھا۔ اب اپنے ہاتھ سے روٹی اور دال بھاجی بنانے لگی۔ سونے کے لئے عمدہ عمدہ پلنگ نہ تھے۔ اب زمین پر سونا پڑتا تھا۔ پہلے باغ باغیچوں میں فراٹے بھرا کرتی تھی۔ اب دروازہ بند کرکے اندر بیٹھ رہتی۔ بلبل آزاد قید قفس میں تھی۔

    مگر ان باتوں میں وہ تکلیف محسوس نہ کرتی تھی۔ جب دینا ناتھ اپنی ڈیوٹی کی پہلی تنخواہ بیس روپے لایا اور اس نے امرت وتی کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ تو وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور بھرائی ہوئی آواز میں بولی، ’’پرماتما تیرا شکر ہے کہ تونے یہ مبارک دن مجھے بھی دکھایا۔ یہ پہلے حلال کے روپے ہیں جو میں اپنی زندگی میں کھانے لگی ہوں۔ میرے جسم کے ذرے ذرے میں حرام کی کمائی گھسی ہوئی ہے۔ کیا یہ محنت کی۔ میری اپنی کمائی ان ذروں کو دھو نہ دےگی۔‘‘

    دیناناتھ نے یہ سنا تو آنکھوں سے آنسوؤں کا فوارہ پھوٹ پڑا اور روتے روتے بولا، ’’امرت وتی! کاش میں اس قابل ہوتا کہ تجھے سکھ پہنچا سکتا۔ مگر کیا کروں، حالات ناموافق ہیں۔ ورنہ تجھے ذرا بھی تکلیف نہ ہوتی۔ تو تو دیوی ہے۔‘‘

    امرت وتی دینا ناتھ کو روتے دیکھ کر گھبرا گئی اور بے چین ہو کر بولی، ’’تم کیوں روتے ہو۔ تم نے میری وجہ سے بہت دکھ پایا ہے۔ میں نہ ہوتی تو تم اپنے باپ کے ہاں چین سے رہتے۔ یہ افلاس میری ہی وجہ سے ہے۔ پرماتما کرے میں آپ کی سیوا کر سکوں۔‘‘

    امرت وتی کی ماں نے جب سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے نکلتا دیکھا۔ تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اول اول تو ارادہ ہوا کہ زبردستی چھین لائیں۔ مگر جب ستیہ پال اور اس کے دوستوں کی پیش بندیاں دیکھیں تو یہ ہمت نہ پڑی۔ کئی کانفرنسیں ہوئی، کئی کمیٹیاں ہوئیں، آخر مقدمے کی تیاریاں ہوئیں اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ دینا ناتھ کی دوہزار کی ضمانت ہو گئی۔ یہ ضمانت ستیہ پال کے باپ نے دی۔

    ضمانت دے کر دیناناتھ گھر واپس آیا تو امرت وتی بہت گھبرا رہی تھی۔ گلے سے لپٹ کر بولی، ’’کیا ہوا؟‘‘

    دینا ناتھ نے اسے سب حال سنا کر کہا، ’’کیا کرنا چاہئے؟‘‘

    امرت وتی نے پوچھا، ’’مقدمہ کس کی عدالت میں ہے؟‘‘

    ڈپٹی شام داس کی عدالت میں۔‘‘

    ’’وہ تو بہت سخت آدمی ہے؟‘‘

    ’’ایسا ہی سنا ہے۔‘‘

    امرت وتی خاموش ہو گئی۔ اتنے میں دینا ناتھ نے کہا، ’’ایک بات اور ہے۔ انہوں نے کمیٹی کے پرانے کاغذات برآمد کرائے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ تم ابھی نابالغ ہو۔‘‘

    امرت وتی نے ٹھنڈی سانس بھر اور کہا، ’’یہ تو بہت بری بات ہے۔‘‘

    ’’پھر‘‘

    ’’پھر تم ڈپٹی شام داس کے گھر جاؤ اور ان کے پاؤں پکڑ لو۔ سب حال بلا کم وکاست کہہ سناؤ اور ان سے رحم کے نام پر اپیل کرو۔ وہ بڑے آدمی ہیں مایوس نہ کریں گے۔‘‘

    دینا ناتھ کے دل میں یہ بات جم گئی۔ وہ شام کے وقت شام داس کے گھر گئے اور ان کے پاؤں پکڑ لئے۔ شام داس بولے، ’’یہ کیا بیہودگی ہے صاف صاف بات کرو، معاملہ کیا ہے؟‘‘

    دینا ناتھ کالج کا طالب علم تھا۔ بیہودگی کے لفظ پر کٹ گیا۔ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور بولا۔’’حضور رحم کریں، تو دو زندگیاں بچ سکتی ہیں۔‘‘

    شام داس دو تین منٹ سوچتے رہے۔ پھر بولے، ’’تمہارا وہی مقدمہ ہے جس میں اغوا کیا گیا ہے۔‘‘

    ’’جی ہاں‘‘

    مقدمہ بہت صاف ہے۔ لڑکی نابالغ ہے۔ اس کی والدہ زندہ ہے۔‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’اس میں میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘

    دینا ناتھ لمبی چوڑی تمہید تیار کر کے لایا تھا۔ وہ سب بھول گیا اور زبان سے صرف اتنا ہی نکلا، ’’حضور رحم کریں۔‘‘

    ’’میں رحم کے لئے انصاف کی کرسی پر نہیں بیٹھا۔ مجھے انصاف کرنے کا حکم ہے۔‘‘

    دینا ناتھ چپ چاپ واپس لوٹ آیا اور امرت وتی سے بولا، ’’میرے کئے کچھ نہ ہوگا۔‘‘

    امرت وتی نے یہ سن کر کچھ سوچا اور پھر کہا، ’’اچھا اب مجھے قسمت آزمائی کرنا ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر دینا ناتھ کے ہمراہ ڈپٹی صاحب کے مکان کو روانہ ہوئی۔

    رات ہو چکی تھی۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی سونے کی تیاریوں میں تھی جب کہ ایک کم سن حسینہ اس کے قدموں پر آ پڑی اور روتے روتے بولی، ’’مجھ پر رحم کریں۔‘‘

    ڈپٹی صاحب کی بیوی نے اس کا سر پاؤں سے اٹھایا اور کہا، ’’بیٹی کیا ہے؟‘‘

    امرت وتی نے زار زار روتے ہوئے کہا، ’’میں ایک بیسوا کی لڑکی ہوں۔ وہ مجھے حرام کاری پر مجبور کرتی ہے۔ مگر میں ایسی رذیل زندگی کی نسبت موت کو زیادہ پسند کرتی ہوں۔ میں ہندو ہوں، میں ہندو تھی اور ممکن ہے میرا باپ بھی ہندو ہو۔ میں ہندو ہوکر اور ہندو رہ کر مرنا چاہتی ہوں کہ یہ پاپ ہے، ’’کیا یہ گناہ ہے؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’میرا مقدمہ ڈپٹی صاحب کی عدالت میں پیش ہے۔ میں غریب ہوں۔ میں مفلس ہوں، اس لئے ٹھنڈی آہوں اور ترش آنسوؤں کی رشوت لے کر آپ کے پاس آئی ہوں۔ کیا میری فریاد نہ سنوگی۔‘‘

    ڈپٹی صاحب کی بیوی امرت وتی کے دلفریب چہرے کو دیکھ کر حیرت میں تھی، اس کی دلآویز تقریر سن کر اور بھی سناٹے میں آ گئی۔ کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر ملائمت سے بولی۔ بیٹی! میں تمہیں جان گئی ہوں، تمہاری داستان آج بچے بچے کی زبان ہے اور تمہارا تذکرہ کونے کونے میں ہورہا ہے۔تم دھن ہو۔ تمہارا جگر دھن ہے مگر میں کیا کروں۔ مجبوری و معذوری ہے۔ پرماتما تمہاری فریاد سن سکتا ہے مگر ڈپٹی صاحب نہیں سن سکتے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’وہ بہت سنگدل ہیں، ان پر نہ گرم آنسو اثر کرتے ہیں، نہ ٹھنڈی آہیں، نہ انہوں نے آج تک کسی کی سنی ہے، نہ سنیں گے۔ میں تمہارے لئے سب کچھ کر سکتی ہوں مگر وہ تمہاری بات تک نہ سنیں گے۔‘‘

    امرت وتی نے تھوڑی دیر کے لے سکوت کیا، پھر کہنے لگی، ’’آپ کے ہاں کوئی لڑکی ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’پھر مجھے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں، پرماتما کے لئے مجھے ڈپٹی صاحب کا کمرہ دکھا دو۔ صاحب اولاد کے سینے میں رحم ضرور موجود رہتا ہے۔ اسے ضرف چھیڑنے کی ضرورت ہے۔ فوارہ خود بخود اچھل پڑتا ہے۔ میں ان کے رحم کو جگاؤں گی۔ میں ان کی اولاد کے نام پر ان سے رحم کی بھیک مانگوں گی۔ میں ان کے آگے روؤں گی۔ چلاؤں گی، گڑگڑاؤں گی۔ نہ سنیں گے پھر سناؤں گی، پھر سناؤں گی۔‘‘

    آواز بہت رقت خیز تھی۔ ساتھ کے کمرے میں ڈپٹی صاحب سن رہے تھے۔ ضبط نہ کر سکے۔ روتے ہوئے باہر نکل آئے اور جوش سے بولے، ’’بیٹی! جاؤ میں نے آج تک بے ایمانی نہ کی تھی۔ آج تمہاری وجہ سے قسم ٹوٹتی ہے۔ تو خارستان کا پھول ہے۔ تو شیطانوں میں فرشتہ ہے۔ تو پیتل کی کان میں سونے کا ٹکڑا ہے۔ تو کووں میں ہنس ہے۔ میرے کانوں نے کسی کی نہ سنی تھی۔ آج انہوں نے تیری سنی۔‘‘

    ڈپٹی شام داس نے لمبی لمبی تاریخیں ڈالنا شروع کیا اور اس طرح سے چھ ماہ گزار دیئے۔ امرت وتی بالغ ہو گئی تو اس کے بیان کی نوبت آئی۔ اس نے بیان دیا، ’’میں راہ راست پر چلنے کی خواہشمند ہوں۔ میری ماں میری حرامکاری پر گلچھرے اڑانا چاہتی ہے۔ میں اس راہ پر تھوکتی ہوں اور دیناناتھ کو اپنی مرضی سے اپنی زندگی کا ساتھی منتخب کر چکی ہوں۔

    اس بیان پر دینا ناتھ بری ہو گیا۔

    اس دن دینا ناتھ اور امرت وتی دونوں بہت خوش تھے۔ ان کے چاروں طرف جو تاریکی تھی۔ وہ دور ہو چکی تھی۔ جن دیواروں سے اداسی کی ہچکیاں نکلا کرتی تھیں۔ وہ اس دن مسکرا رہی تھیں۔

    شام کے وقت دینا ناتھ باہر گیا ہوا تھا کہ ستیہ پال ہنستا ہوا گھر میں داخل ہوا اور بولا، ’’بھر جائی! مٹھائی کھلاؤ، تو خوشخبری سناؤں۔‘‘

    ’’سن چکی ہوں۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’دعویٰ خارج ہو گیا۔‘‘

    ’’نہیں اور ہے۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’پہلے مٹھائی کھلا لو۔ بعد میں بات کروں گا خواہش ہو تو منگوا دو!‘‘

    ’’امرت وتی نے ہنس کر کہا، ’’واہ کیا ننھے سے بچے ہو جو مٹھائی سے خوش ہوتے ہو۔‘‘

    ستیہ پال نے کہا، ’’اچھا پہلے سن لو۔ دینا ناتھ بی۔ اے میں پاس ہو گیا ہے اور اسے کشمیر میں سو روپیہ ماہوار کی ملازمت مل گئی ہے۔ اب بتاؤ مٹھائی کھلاؤگی یا نہیں؟‘‘

    اتنے میں دینا ناتھ مسکراتا ہوا اندر آیا اور امرت وتی سے کہنے لگا، اس ٹھگ کے پھندے میں آ کر کچھ خرچ نہ کر بیٹھنا۔ کل کشمیر کی تیاری کرو۔‘‘

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے