اپنے دکھ مجھے دے دو
کہانی ایک ایسے جوڑے کی داستان کو بیان کرتی ہے جن کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ سہاگ رات میں شوہر کے دکھوں کو سن کر بیوی اس کے سبھی دکھ مانگ لیتی ہے مگر وہ اس سے کچھ نہیں مانگتا ہے۔ بیوی نے گھر کی ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ عمر کے آخر پڑاؤ پر ایک روز شوہر کو جب اس بات کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس سے پوچھتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ وہ کہتی ہے کہ میں نے تم سے تمھارے سارے دکھ مانگ لیے تھے مگر تم نے مجھ سے میری خوشی نہیں مانگی اس لیے میں تمھیں کچھ نہیں دے سکی۔
راجندر سنگھ بیدی
کوارنٹین
اس کہانی میں ایک ایسی وبا کے بارے میں بتایا گیا ہے جسکی زد میں پورا علاقہ ہے اور لوگوں کی موت بدستور جاری ہے، ایسے میں علاقےکے ڈاکٹر اور انکے معاون کی خدمات قابل ستائش ہے۔ بیماروں کا علاج کرتے ہوئے انھیں احساس ہوتا ہے کہ لوگ بیماری سے کم کوارنٹین سے زیادہ مر رہے ہیں۔ بیماری سے بچنے کے لیے ڈاکٹر خود کو مریض سے الگ کر رہے ہیں جبکہ انکا معاون بھاگو بھنگی بغیر کسی خوف کے شب و روز بیماروں کی تیمارداری میں لگا ہوا ہے۔ علاقے سے جب وبا ختم ہو جاتی ہے تو عمائدین شہر کی جانب سے ڈاکٹر کے اعزاز میں جلسہ منعقد کیا جاتا ہے اور ڈاکٹر کےخدمات کی تعریف کی جاتی ہے لیکن بھاگو بھنگی کا ذکر تک نہیں ہوتا۔
راجندر سنگھ بیدی
خلائی دور کی محبت
مستقبل میں خلا میں آباد ہونے والی دنیا کا نقشہ اس کہانی کا موضوع ہے۔ ایک لڑکی برسوں سے خلائی اسٹیشنوں پر رہ رہی ہے۔۔۔ وہ مسلسل سیاروں اور مصنوعی سیاروں کے سفر کرتی رہتی ہے اور اپنے کام کو آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ انھیں مصروفیات کی وجہ سے اسے اتنا بھی وقت نہیں ملتا کہ وہ زمین پر رہنے والے اپنے افراد خانہ سے کچھ لمحے کے لیے بات کر سکے۔ انہیں اسفار میں اسے ایک شخص سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس شخص سے ایک بار ملنے کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے اسے بیس سال کا طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس درمیان وہ اپنے کام کو آگے بڑھاتی رہتی ہے، کہ آنے والی نسل کے لیے محبت کرنا آسان ہو سکے۔
اختر جمال
ایک باپ بکاؤ ہے
کہانی اخبار میں شائع ایک اشتہار سے شروع ہوتی ہے جس میں ایک باپ کا حلیہ بتاتے ہوئے اس کے فروخت کرنے کی اطلاع ہوتی ہے۔ اشتہار شائع ہونے کے بعد کچھ لوگ اسے خریدنے پہنچتے ہیں مگر جیسے جیسے انھیں اس کی خامیوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے وہ خریدنے سے انکار کرتے جاتے ہیں۔ پھر ایک دن اچانک ایک بڑا کاروباری اسے خرید لیتا ہے اور اسے اپنے گھر لے آتا ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ خریدا ہوا باپ ایک زمانے میں بہت بڑا گلوکار تھا اور ایک لڑکی کے ساتھ اس کی دوستی بھی تھی تو کہانی ایک دوسرا رخ اختیار کر لیتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
غلامی
یہ ایک ریٹائرڈ آدمی کی زندگی کی کہانی ہے۔ پولہو رام اسٹنٹ پوسٹ ماسٹر کے عہدے سے ریٹائر ہو کر گھر آتا ہے تو اول اول تو اس کی خوب آو بھگت ہوتی ہے، لیکن رفتہ رفتہ اس کے بھجن، گھر کے کاموں میں دخل اندازی کی وجہ سے لڑکے، بہو اور بیوی تک بیزار ہو جاتے ہیں۔ ایک دن جب وہ پنشن لینے جاتا ہے تو اسے نوٹس بورڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاک خانہ کو ایکسٹرا ڈیپارٹمنٹل ڈاک خانے کی ضرورت ہے جس کی تنخواہ پچیس روپے ہے۔ پولہو رام یہ ملازمت کر لیتا ہے لیکن کام کے دوران جب اس پر دمہ کا دورہ پڑتا تو لوگ رحم کھاتے ہوئے کہتے, ڈاک خانہ کیوں نہیں اس غریب بوڑھے کوپنشن دے دیتا؟
راجندر سنگھ بیدی
دور کا نشانہ
افسانہ ایک ایسے منشی کی داستان کو بیان کرتا ہے جو اپنی ہر خواہشات کو بصد شوق پورا کرنے کا قائل ہے۔ اس کا کامیاب کاروبار ہے اور چوک جو کہ بازار حسن ہے، تک بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ایسے میں اس کی ملاقات ایک طوائف سے ہو جاتی ہے۔ ایک روز وہ طوائف کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک پولیس والے نے اس کے آدمی کے ساتھ مارپیٹ کرلی۔ طوائف چاہتی ہے کہ منشی باہر جائے اور وہ اس پولیس والے کو سبق سکھائے، لیکن منشی جی کی سرد مہری دیکھ کر وہ ان سے خفا ہو جاتی ہے۔
چودھری محمد علی ردولوی
نفرت
یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کی ایک معمولی سے واقعہ نے پوری زندگی ہی بدل دی۔ اسے زرد رنگ جتنا پسند تھا اتنا ہی برقعہ ناپسند۔ اس دن جب وہ اپنی نند کے ساتھ ایک سفر پر جا رہی تھی تو اس نے زرد رنگ کی ہی ساڑی پہن رکھی تھی اور برقعے کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا تھا۔ مگر لاہور اسٹیشن پر بیٹھی ہوئی جب وہ دونوں گاڑی کا انتظار کر رہی تھی وہاں انہوں نے ایک میلے کچیلے آدمی کی پسند ناپسند سنی تو انہوں نے خود کو پوری طرح ہی بدل لیا۔
ممتاز مفتی
ہم دوش
دنیا کی رنگینی اور بے رونقی کے تذکرہ کے ساتھ انسان کی خواہشات کو بیان کیا گیا ہے۔ شفاخانے کے مریض شفا خانے کے باہر کی دنیا کے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں شدید قسم کی خواہش انگڑائی لیتی ہے کہ وہ کبھی ان کے ہمدوش ہو سکیں گے یا نہیں۔ کہانی کاراوئی ایک ٹانگ کٹ جانے کے باوجود شفایاب ہو کر شفا خانے سے باہر آ جاتا ہے اور دیگر لوگوں کے ہمدوش ہو جاتا ہے لیکن اس کا ایک ساتھی مغلی، جسے ہمدوش ہونے کی شدید تمنا تھی اور جو دھیرے دھیرے ٹھیک بھی ہو رہا تھا، موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
من کی من میں
عورت کے جذبہ حسد و رقابت پر مبنی کہانی ہے۔ مادھو انتہائی شریف انسان تھا جو دوسروں کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار ریتا تھا۔ وہ ایک بیوہ امبو کو بہن مان کر اس کی مدد کرتا تھا، جسے اس کی بیوی کلکارنی ناپسند کرتی تھی اور اسے سوت سمجھتی تھی۔ عین مکر سنکرات کے دن مادھو کلکارنی سے بیس روپے لے کر جاتا ہے کہ اس سے پازیب بنوا لائے گا لیکن ان روپوں سے وہ امبو کا قرض لالہ کو ادا کر دیتا ہے۔ اس جرم کی پاداش میں کلکارنی رات میں مادھو پر گھر کے دروازے بند کر لیتی ہے اور مادھو نمونیہ سے مر جاتا ہے۔ مرتے وقت وہ کلکارنی کو وصیت کرتا ہے کہ وہ امبو کا خیال رکھے لیکن اگلے برس سنکرات کے دن جب امبو اس کے یہاں آتی ہے تو وہ سوت اور منحوس سمجھ کر اسے گھر سے بھگا دیتی ہے اور پھر امبو غائب ہی ہو جاتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
عشق بالواسطہ
افسانے میں ایک بے میل محبت کی عکاسی کی گئی ہے جس میں سیاست، فلسفہ اور اس کے ساتھ ہی مرد کی زندگی میں عورت کی مداخلت پر تبصرہ ہے۔ ایک پارٹی سے واپس آنے کے بعد وہ دونوں جج صاحب کے ہاں تشریف لے گیے، وہاں جج صاحب تو نہیں ملے لیکن ایک نئی خاتون ضرور ملی۔ وہ نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھی، وہ اسکے ساتھ گھومنے نکل گئے۔ یہ تفریح ایک نظریات میں شامل ہونے کا اشارہ تھا۔
چودھری محمد علی ردولوی
شعلے
یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو ایک گھر میں گورنیس کی نوکری کرتے ہوئے اپنے باس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ جبکہ اس کی منگنی ہو چکی ہے۔ اس کا باس بھی جانتا ہے۔ مگر وہ اپنے جذبات کو چھپا نہیں پاتی۔ باس جانتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے، لیکن وہ انکار کر دیتا ہے۔ مگر جس روز اس کی ڈولی اٹھتی ہے تب وہ سجدے میں گر کر سسک سسک کر کہتا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے۔
واجدہ تبسم
محبت کا دم واپسیں
’’یہ مریم نام کی ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جس نے اپنی زندگی میں صرف اپنے شوہر سے ہی محبت کی ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے شوہر کے تعلقات کسی اور عورت سے بھی ہیں تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو جاتی ہے۔ وہ شوہر سے اس عورت کے بارے میں پوچھتی ہے تو اس کے جواب میں وہ مریم کو خود اس عورت سے ملانے کے لیے لے جاتا ہے۔‘‘
مجنوں گورکھپوری
مالکن
تقسیم ملک سے بہت سی زندگیوں میں عجیب و غریب تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ یہ کہانی ایک ایسے ہی زمیندار کی ہے جس کا پورا خاندان پاکستان ہجرت کر جاتا ہے لیکن حویلی کی مالکن نے ہجرت کرنے سے انکار کر دیا۔ مالکن حویلی کے اندر باہر کا کام اپنے وفادار چودھری گلاب سے کرا لیا کرتی تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حویلی کی بچی کھچی شان و شوکت بھی جاتی رہی اور حویلی کھنڈر میں تبدیل ہو گئی۔ حویلی کی مالکن کو گزر بسر کرنے کے لیے سینے پرونے کا کام کرنا پڑا اور اس کام میں بھی چودھری گلاب مالکن کی مدد کرتا رہا۔ چودھری گلاب کی انسانی ہمدردی کو دنیا والے اپنی ہی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
قاضی عبد الستار
بھکارن
’’ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو بچپن میں بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتی تھی۔ بھیک مانگتے ہوئے ایک بار اسے ایک لڑکا ملا اور وہ لڑکا اسے اپنے گھر لے گیا۔ وہاں اس لڑکے کے باپ نے کہا کہ اگر یہ لڑکی کسی شریف خاندان کی ہوتی تو بھیک مانگ کر گزارہ کیوں کرتی۔ ان کی یہ بات اس لڑکی کے دل کو اتنی لگی کہ وہ پڑھ لکھ کر شہر کی مشہور لیڈی ڈاکٹر بن گئی۔‘‘
اعظم کریوی
دلہن کی ڈائری
’’ایک ایسی نئی نویلی دلہن کی کہانی ہے، جو سسرال جانے کے بعد شروع شروع میں تو ہر کسی کی بہت تعریف کرتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اسے ہر کسی میں کمیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ حد تو تب ہو جاتی ہے جب وہ اپنے شوہر اور جیٹھانی پر شک کرنے لگتی ہے۔ لیکن جب اسے حقیقت کا پتہ چلتا ہے تو اپنا سر پیٹ لیتی ہے۔‘‘
سدرشن
کھویا ہوا پیار
یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے، جو ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ بیوی کے گھر سے جانے کے بعد جب اسے اپنی بیوی کی کمی کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے، لیکن وہ اسے کہیں نہیں ملتی۔ جب وہ ملتی ہے تو ملنے کے بعد بھی وہ اس سے مل نہیں پاتا ہے۔
اعظم کریوی
نخل محبت
’’یہ ایک ایسے لاولد جوڑے کی کہانی ہے، جو ایک دوسرے کا سکھ دکھ بانٹتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ان کے دل میں اولاد نہ ہونے کا دکھ ہمیشہ ستاتا رہتا ہے۔ ایک روز اچانک ان کے آنگن میں ایک بیر کا پیڑ اگ آتا ہے اور وہ دونوں اس کو اپنے بچے کی طرح پالتے ہیں۔ درخت پر جب پھل آتا ہے تو وہ خود کھانے کے بجائے گاؤں میں بانٹتے رہتے ہیں۔ ایک بار جب وہ گاؤں ایک ٹھاکر کے یہاں بیر دینا بھول جاتے ہیں تو غصے میں آکر ٹھاکر اس بیر کے پیڑ کو کاٹ دیتا ہے۔‘‘