سرفراز خالد کے اشعار
رونق بزم نہیں تھا کوئی تجھ سے پہلے
رونق بزم ترے بعد نہیں ہے کوئی
دل جو ٹوٹا ہے تو پھر یاد نہیں ہے کوئی
اس خرابے میں اب آباد نہیں ہے کوئی
اس سے کہہ دو کہ مجھے اس سے نہیں ملنا ہے
وہ ہے مصروف تو بے کار نہیں ہوں میں بھی
آئنے میں کہیں گم ہو گئی صورت میری
مجھ سے ملتی ہی نہیں شکل و شباہت میری
اسی کے خواب تھے سارے اسی کو سونپ دیئے
سو وہ بھی جیت گیا اور میں بھی ہارا نہیں
موسم کوئی بھی ہو پہ بدلتا نہیں ہوں میں
یعنی کسی بھی سانچے میں ڈھلتا نہیں ہوں میں
اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
مجھ سے طے ہی نہیں ہوتی ہے مسافت میری
ملتے ہو تو اب تم بھی بہت رہتے ہو خاموش
کیا تم کو بھی اب میری خبر ہونے لگی ہے
دیر تک جاگتے رہنے کا سبب یاد آیا
تم سے بچھڑے تھے کسی موڑ پہ اب یاد آیا
ہوش جاتا رہا دنیا کی خبر ہی نہ رہی
جب کہ ہم بھول گئے خود کو وہ تب یاد آیا
اب مجھ میں کوئی بات نئی ڈھونڈھنے والو
اب مجھ میں کوئی بات پرانی بھی نہیں ہے
اک تو نے ہی نہیں کی جنوں کی دکان بند
سودا کوئی ہمارے بھی سر میں نہیں رہا
نہ چاند کا نہ ستاروں نہ آفتاب کا ہے
سوال اب کے مری جاں ترے جواب کا ہے
جو تم کہتے ہو مجھ سے پہلے تم آئے تھے محفل میں
تو پھر تم ہی بتاؤ آج کیا کیا ہونے والا ہے
اسی سے پوچھو اسے نیند کیوں نہیں آتی
یہ اس کا کام نہیں ہے تو میرا کام ہے کیا
اب جسم کے اندر سے آواز نہیں آتی
اب جسم کے اندر وہ رہتا ہی نہیں ہوگا
نہ رات باقی ہے کوئی نہ خواب باقی ہے
مگر ابھی مرے غم کا حساب کا باقی ہے
شریک وہ بھی رہا کاوش محبت میں
شروع اس نے کیا تھا تمام میں نے کیا
تم تھے تو ہر اک درد تمہیں سے تھا عبارت
اب زندگی خانوں میں بسر ہونے لگی ہے
پیروں سے باندھ لیتا ہوں پچھلی مسافتیں
تنہا کسی سفر پہ نکلتا نہیں ہوں میں
لمبی ہے بہت آج کی شب جاگنے والو
اور یاد مجھے کوئی کہانی بھی نہیں ہے
آنکھوں نے بنائی تھی کوئی خواب کی تصویر
تم بھول گئے ہو تو کسے دھیان رہے گا
ہمارے کاندھے پہ اس بار صرف آنکھیں ہیں
ہمارے کاندھے پہ اس بار سر نہیں ہے کوئی
سیاہ رات کے پہلو میں جسم کے اندر
کسی گناہ کی خواہش کو پالتے رہنا
زیست کی یکسانیت سے تنگ آ جاتے ہیں سب
ایک دن تو بھی مری باتوں سے اکتا جائے گا
عجیب فرصت آوارگی ملی ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے زمانے کا ڈر نہیں ہے کوئی
یہ کائنات بھی کیا قید خانہ ہے کوئی
یہ زندگی بھی کوئی طرز انتقام ہے کیا
میں اپنے آپ سے آگے نکل گیا ہوں بہت
کسی سفر کے حوالے یہ جسم و جاں کر کے
وہ چہرہ مجھے صاف دکھائی نہیں دیتا
رہ جاتی ہیں سایوں میں الجھ کر مری آنکھیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بات تو یہ ہے کہ وہ گھر سے نکلتا بھی نہیں
اور مجھ کو سر بازار لئے پھرتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خواب میلے ہو گئے تھے ان کو دھونا چاہئے تھا
رات کی تنہائیوں میں خوب رونا چاہئے تھا
تمام عمر بقید سفر رہا ہوں میں
طواف پھر کسی کعبہ کا کر رہا ہوں میں
وہ بھی نہ آیا عمر گزشتہ کے مثل ہی
ہم بھی کھڑے رہے در و دیوار کی طرح
تری دعائیں بھی شامل ہیں کوششوں میں مری
مصیبتوں کا نہ ٹلنا عجیب لگتا ہے
کسی نے جاں ہی لٹا دی وفاؤں کی خاطر
تم ہی بتاؤ کہ قصہ یہ کس کتاب کا ہے
سنتے ہیں بیاباں بھی کبھی شہر رہا تھا
سو شہر بھی اک روز بیابان رہے گا
ابتدا اس نے ہی کی تھی مری رسوائی کی
وہ خدا ہے تو گنہ گار نہیں ہوں میں بھی
ایک دن اس کی نگاہوں سے بھی گر جائیں گے
اس کے بخشے ہوئے لمحوں پہ بسر کرتے ہوئے
مرے مرنے کا غم تو بے سبب ہوگا کہ اب کے بار
مرے اندر تو کوئی اور پیدا ہونے والا ہے
وہ مضطرب تھا بہت مجھ کو درمیاں کر کے
سو پا لیا ہے اسے خود کو رائیگاں کر کے
ستم کئے ہیں تو کیا تجھ سے ہے حیات مری
قریب آ مری آنکھوں کے خواب، زندہ ہوں
میں جس کو سوچتا رہتا ہوں کیا ہے وہ آخر
مرے لبوں پہ جو رہتا ہے اس کا نام ہے کیا
تو دیکھیں اور کسی کو جو وہ نہیں موجود
تو جائیں اور کہیں اس نے جب پکارا نہیں
پانیوں میں کھیل کچھ ایسا بھی ہونا چاہئے تھا
بیچ دریا میں کوئی کشتی ڈبونا چاہئے تھا
میں تو اب شہر میں ہوں اور کوئی رات گئے
چیختا رہتا ہے صحرائے بدن کے اندر