نصرت گوالیاری کے اشعار
بھول جانے کا مجھے مشورہ دینے والے
یاد خود کو بھی نہ میں آؤں کچھ ایسا کر دے
رات کے لمحات خونی داستاں لکھتے رہے
صبح کے اخبار میں حالات بہتر ہو گئے
کچھ احتیاط پرندے بھی رکھنا بھول گئے
کچھ انتقام بھی آندھی نے بدترین لیے
میں اجنبی ہوں مگر تم کبھی جو سوچو گے
کوئی قریب کا رشتہ ضرور نکلے گا
کچھ نوجوان شہر سے آئے ہیں لوٹ کر
اب داؤ پر لگی ہوئی عزت ہے گاؤں کی
ڈھونڈنے والے غلط فہمی میں تھے
وہ انا کے ساتھ اپنے سر میں تھا
ملنا پڑتا ہے ہمیں خود سے بھی غیروں کی طرح
اس نے ماحول ہی کچھ ایسا بنا رکھا ہے
وہ گلابی بادلوں میں ایک نیلی جھیل سی
ہوش قائم کیسے رہتے تھا ہی کچھ ایسا لباس
بچہ مجبوریوں کو کیا جانے
اک کھلونا خریدنا تھا مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر شخص اپنی اپنی جگہ یوں ہے مطمئن
جیسے کہ جانتا ہو قضا کا ہے رخ کدھر
حسن اتنا ایک پیکر میں سمٹ سکتا نہیں
تو بھی میرے ہی کسی احساس کی تصویر ہے
دلوں کے بیچ کی دیوار گر بھی سکتی تھی
کسی نے کام لیا ہی نہیں تدبر سے
قانون جیسے کھو چکا صدیوں کا اعتماد
اب کون دیکھتا ہے خطا کا ہے رخ کدھر
اجاڑ تپتی ہوئی راہ میں بھٹکنے لگی
نہ جانے پھول نے کیا کہہ دیا تھا تتلی سے
وہ پتا اپنی شاخ سے ذرا جدا ہوا ہی تھا
نہ جانے پھر کہاں کہاں ہوا اڑا کے لے گئی
مرے چراغ کی ننھی سی لو سے خائف ہے
عجیب وقت پڑا ہے سیاہ آندھی پر
بولتے رہتے ہیں نقوش اس کے
پھر بھی وہ شخص کم سخن ہے بہت
وہ اندھی راہ میں بینائیاں بچھاتا رہا
بدن پہ زخم لیے اور لبوں پہ دین لیے
شفق سی پھر کوئی اتری ہے مجھ میں
یہ کیسی روشنی پھیلی ہے مجھ میں