اک بوڑھا بستر مرگ پہ ہے
بیمار بدن لاچار بدن
سانسیں بھی کچھ بوجھل سی ہیں
اور آنکھیں بھی جل تھل سی ہیں
ایسا بھی نہیں تنہا ہے وہ
پانی ہے مگر پیاسا ہے وہ
گھر میں بہوویں بیٹے بھی ہیں
ہیں پوتیاں بھی پوتے بھی ہیں
لیکن کوئی پاس نہیں آتا
سب جھانکتے ہیں چلے جاتے ہیں
جیسے یہ اس کا گھر ہی نہیں
جیسے وہ سب بیگانے ہیں
جس بہو کا نمبر ہوتا ہے
کھانے کے نوالے ٹھونس کے وہ
فرض اپنا مکمل کرتی ہے
پھر وقت پہ کوئی اک بیٹا
وہ جس کو تھوڑی فرصت ہو
پہلے تو آ کر ڈانٹتا ہے
دیتا ہے دوائی پھر ایسے
جیسے احسان کرے کوئی
جیسے اپمان کرے کوئی
ہر دن یہ بوڑھا سوچتا ہے
کوئی بات نئی ہو آج کے دن
کوئی دو میٹھے الفاظ کہے
کبھی محفل اس کے پاس سجے
کبھی ہنسنے کی کوئی بات چلے
مگر ایسا پچھلے برسوں میں
کبھی ہو پایا نہیں ہو پایا
اپنے اس بیگانے پن پر
اپنے اس ویرانے پن پر
یہ بوڑھا انکشاف رہتا ہے
یہ بوڑھا روتا رہتا ہے
اک بوڑھا بستر مرگ پہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.