Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میرا وطن

دل ربا لالہ ہو فضا تیری

مجھ کو بھائی نہ اک ادا تیری

لطف سے بڑھ کے ہے جفا تیری

واہ رے ہندوستاں وفا تیری

میں نہ مانوں کبھی ترا کہنا

میں نہ بخشوں کبھی خطا تیری

برتر از خار ہے ترا گلشن

زہر سے کم نہیں ہوا تیری

خالی از کیفیت تری ہر چیز

بات ہر ایک بے مزا تیری

درد دل میں تڑپ کے مر جاؤں

میں نہ ڈھونڈوں کبھی شفا تیری

کون سی بات تیری لطف آمیز

کون سی چیز دل کشا تیری

تجھ کو جنت نشان کہتے ہیں

ہم جہنم کی جان کہتے ہیں

تجھ کو کس بات پر ہے ناز بتا

کیا نہیں اور ملک تیرے سوا

تیری آب و ہوا لطیف سہی

تجھ سے بڑھ کر سپین کا خطہ

تجھ کو اپنی زمین کا ہے گھمنڈ

تجھ سے افضل کہیں ہے امریکہ

حسن پر اپنے ناز ہے تجھ کو

حسن تجھ سے سوا اطالیہ کا

تجھ کو گنگا کا اپنی دھوکا ہے

تو نے دیکھا نہیں ہے سین کو جا

موسیقی پر تجھے ہے ناز بہت

اس میں جز درد و غم دھرا ہے کیا

فلسفہ تیرا اگلے وقتوں کا

فلسفہ دیکھ جا کے یورپ کا

تجھ میں پھر آن کیا رہی باقی

تیری محفل نہ کچھ نہ کچھ ساقی

ہاں مروت کا تجھ میں نام نہیں

ہاں اخوت کا تجھ میں نام نہیں

تجھ سے بد نام عشق سا استاد

اور محبت کا تجھ میں نام نہیں

آشتی سیکھے تجھ سے آ کے کوئی

ہاں خصومت کا تجھ میں نام نہیں

تیری ہر بات میں صفائی ہے

اور کدورت کا تجھ میں نام نہیں

تجھ کو اور حریت سے کیا نسبت

اس ضرورت کا تجھ میں نام نہیں

شاد ہیں تیرے اپنے بیگانے

اور شکایت کا تجھ میں نام نہیں

تیری تہذیب تجھ کو موجب فخر

ہاں جہالت کا تجھ میں نام نہیں

بات دنیا سے ہے جدا تیری

واہ اے ہندوستاں ادا تیری

تیرے رسم و رواج نے مارا

اس مرض کے علاج نے مارا

تیری غیرت نے کر دیا برباد

خاندانوں کے لاج نے مارا

کیا کریں ہر گھڑی یہی ہے فکر

روز کی احتیاج نے مارا

آئے دن کال کا ہے ذکر اذکار

اک ذرا سے اناج نے مارا

اور سب پر وبا کا اک طرہ

اس انوکھے خراج نے مارا

بخت برگشتہ آرزوئیں بہت

ہوس سیم و عاج نے مارا

نہ کریں کام کچھ تو کھائیں کیا

روز کے کام کاج نے مارا

تو تو رہنے کا کچھ مقام نہیں

تجھ میں انسانیت کا نام نہیں

قید تو نے کیا حسینوں کو

مہ جبینوں کو نازنینوں کو

زیور علم سے رکھا عاری

تو نے قدرت کے ان نگینوں کو

اختیار و پسند کی اے ہند

کیا ضرورت نہ تھی حسینوں کو

خوب پہچانی تو نے قدر ان کی

خوب سمجھا تو ان خزینوں کو

کنویں جھنکوائے نازنینوں سے

زہر کھلوایا مہ جبینوں کو

ڈوبے جاتے ہیں کون آ کے بچائے

بحر ہستی کے ان سفینوں کو

تو مکاں تھا مکان ہو کے دیا

خوف آرام ان مکینوں کو

تجھ پہ تہذیب طعن کرتی ہے

تجھ پہ الزام خلق دھرتی ہے

آرزو ہے تجھے حکومت کی

جاہ و ثروت کی شان و شوکت کی

کیوں نہ ہو تجھ میں ہمت عالی

دھوم ہر سو ہے تیری جرأت کی

تو نے کسب فنون جنگ کیا

سب میں شہرت ہے تیری قوت کی

قسمیں کھاتے ہیں لوگ دنیا میں

تیری ملت تری اخوت کی

ملک داری میں ملک گیری میں

واہ کیا پیدا قابلیت کی

تو تو استاد سے بھی بڑھ نکلا

حیرت انگیز تو نے محنت کی

آپ عالم میں تو ہے اپنی مثال

آدمیت کی اور شجاعت کی

ہم سری کی کسی کو تاب نہیں

ترا آفاق میں جواب نہیں

داغ دل کے کسے دکھائیں ہم

ایسا مشفق کہاں سے لائیں ہم

دل میں ہے اپنے ہم نشیں اک روز

آپ رو کر تجھے رلائیں ہم

اس طبیعت کو کس طرح بہلائیں

دل کو کس چیز سے لگائیں ہم

کب تلک روز کے کہیں صدمے

کب تلک آفتیں اٹھائیں ہم

زہر کیوں اے فلک نہ ہم کھا لیں

جی سے اپنے گزر نہ جائیں ہم

جو شکایت ہو کیوں نہ لب پر آئے

ایک دکھ ہو اسے چھپائیں ہم

اے تمدن کے راحت و آرام

ہائے کس طرح تم کو پائیں ہم

لوگ اٹھاتے ہیں زندگی کے مزے

ہم اٹھاتے ہیں ناخوشی کے مزے

مأخذ :
  • کتاب : Hamari Qaumi Shaeri (Pg. 415)
  • Author : Ali Jawad Zaidi
  • مطبع : Uttar Pradesh Urdu Acadmi (Lucknow) (1998)
  • اشاعت : 1998

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

You have remaining out of free content pages per year. Log In or Register to become a Rekhta Family member to access the full website.

بولیے