یادوں کے نشیمن کو جلایا تو نہیں ہے
یادوں کے نشیمن کو جلایا تو نہیں ہے
ہم نے تجھے اس دل سے بھلایا تو نہیں ہے
کونین کی وسعت بھی سمٹ جاتی ہے جس میں
اے دل کہیں تجھ میں وہ سمایا تو نہیں ہے
ہر شے سے وہ ظاہر ہے یہ احسان ہے اس کا
خود کو مری نظروں سے چھپایا تو نہیں ہے
زلفوں کی سیاہی میں عجب حسن نہاں ہے
یہ رات اسی حسن کا سایا تو نہیں ہے
واقف ہیں ترے درد سے اے نغمۂ الفت
ہم نے تجھے ہر ساز پہ گایا تو نہیں ہے
اس نے جو لکھا تھا کبھی ساحل کی جبیں پر
اس نام کو موجوں نے مٹایا تو نہیں ہے
وہ شہر کی اس بھیڑ میں آتا نہیں افضلؔ
پھر بھی چلو دیکھیں کہیں آیا تو نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.