نہیں کہ پند و نصیحت کا قحط پڑ گیا ہے
نہیں کہ پند و نصیحت کا قحط پڑ گیا ہے
ہماری بات میں برکت کا قحط پڑ گیا ہے
تو پھر یہ رد مناجات کی نحوست کیوں
کبھی سنا کہ عبادت کا قحط پڑ گیا ہے؟
ملال یہ ہے کہ اس پر کوئی ملول نہیں
ہمارے شہر میں حیرت کا قحط پڑ گیا ہے
سخن کا کھوکھلا ہونا سمجھ سے باہر تھا
کھلا کہ حرف کی حرمت کا قحط پڑ گیا ہے
کہیں کہیں نظر آئے تو آئے مصرعۂ تر
نہیں تو شعر میں لذت کا قحط پڑ گیا ہے
نصیب دل کو بھلا کب رہی فراوانی
اور اب تو ویسے بھی مدت کا قحط پڑ گیا ہے
مگر اب ایسی بھی کوئی اندھیر نگری نہیں
یہ ٹھیک ہے کہ محبت کا قحط پڑ گیا ہے
نہیں میں صرف بظاہر نہیں ہوا ویران
درون ذات بھی شدت کا قحط پڑ گیا ہے
کہاں گئیں مرے گاؤں کی رونقیں جوادؔ
تو کیا یہاں بھی روایت کا قحط پڑ گیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.