پردہ رہا کہ جلوۂ وحدت نما ہوا
غش نے خبر نہ دی مجھے کب سامنا ہوا
دشمن کی دوستی کا نتیجہ برا ہوا
خنجر گلے ملا تو مرا سر جدا ہوا
محشر میں رنگ چہرۂ ظالم ہوا ہوا
سچ ہے برا ہوا کہ مرا سامنا ہوا
گلشن سے اٹھ کے میرا مکاں دل میں آ گیا
اک داغ بن گیا ہے نشیمن جلا ہوا
کیا تیرگی لئے ہوئے آئی شعاع نور
دیکھا شب فراق ازل کا لکھا ہوا
گھر دل میں کر چکا ہے مرا نوحۂ قفس
صیاد قید ہوگا اگر میں رہا ہوا
جب تک تھا میں عروج پہ تھا حسن جاں ستاں
پھر کچھ خبر نہیں کہ مرے بعد کیا ہوا
کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی مگر
خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
تو جس میں تھا وہ منزل ہستی میں ہے ضرور
میری فنا سے دل مرا کیوں کر فنا ہوا
نیند ان کی یوں اڑی ہے کہ آتی نہیں کبھی
مرنے کے بعد اب مرا نالہ رسا ہوا
صیاد کا گھر آج ہے جیسے چمن تھا کل
شاید قفس کا بیٹھنے والا رہا ہوا
تصویر میری عمر گزشتہ کی دیکھ جاؤ
تربت پہ اک چراغ ہی وہ بھی بجھا ہوا
اپنے بھی مجھ سے خوش نہ رہے باغ دہر میں
بگڑا کیا مجھی سے نشیمن بنا ہوا
چمکا ہے کچھ وہ جلوۂ رخ ہو کہ داغ عشق
دونوں دلوں میں ایک نہ اک مبتلا ہوا
ڈھونڈے نہ مل سکے مجھے ظلمت میں ماہ و سال
روئے سحر بھی چشمۂ آب بقا ہوا
اک عمر ہو گئی کہ ہے بارش میں چشم تر
اب تک نہ کوئی نخل تمنا ہرا ہوا
ثاقبؔ خبر نہ تھی کہ فلک میں ہیں گردشیں
میں آ کے دانۂ دہن آسیا ہوا
مأخذ :
- کتاب : Deewan-e-Saqib (Pg. 171)
- Author : Mirza Zakir Husain Qazlibaas Saqib Lucknowvi
-
مطبع : Urdu Acadami U.P.
(1998)
- اشاعت : 1998
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.