پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا
پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا
قد یہاں بے ہنری کا ہے ہنر سے اونچا
ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیل وجود
دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا
مانگتا کس سے مجھے سنگ سرافرازی دے
کوئی دروازہ تو ہوتا ترے در سے اونچا
ہم قدم ہے تپش جاں تو پہنچ جاؤں گا
ایک دو جست میں دیوار شجر سے اونچا
ایک بگڑی ہوئی تمثیل ہیں سارے چہرے
کوئی منظر نہیں معیار نظر سے اونچا
دھوپ اتری تو سمٹنا پڑا خود میں اس کو
ایک سایہ کہ جو تھا اپنے شجر سے اونچا
بلبلہ اٹھنے کو اٹھا تو مگر بیچارہ
رکھ سکا خود کو نہ دریا کے بھنور سے اونچا
کیسی پستی میں یہ دنیا نے بسایا ہے مجھے
نظر آتا ہے ہر اک گھر مرے گھر سے اونچا
وہ کہاں سے یہ تخیل کے افق لائے گا
آسماں اب بھی نہیں ہے مرے سر سے اونچا
خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضاؔ
نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.