نیمچہ یار نے جس وقت بغل میں مارا
نیمچہ یار نے جس وقت بغل میں مارا
جو چڑھا منہ اسے میدان اجل میں مارا
مال جب اس نے بہت رد و بدل میں مارا
ہم نے دل اپنا اٹھا اپنی بغل میں مارا
اس لب و چشم سے ہے زندگی و موت اپنی
کہ کبھی پل میں جلایا کبھی پل میں مارا
کھینچ کر عشق ستم پیشہ نے شمشیر جفا
پہلے اک ہاتھ مجھی پر تھا ازل میں مارا
چرخ بد بیں کی کبھی آنکھ نہ پھوٹی سو بار
تیر نالے نے مرے چشم زحل میں مارا
اجل آئی نہ شب ہجر میں اور ہم کو فلک
بے اجل تو نے تمنائے اجل میں مارا
عشق کے ہاتھ سے نے قیس نہ فرہاد بچا
اس کو گر دشت میں تو اس کو جبل میں مارا
دل کو اس کاکل پیچاں سے نہ بل کرنا تھا
یہ سیہ بخت گیا اپنے ہی بل میں مارا
کون فریاد سنے زلف میں دل کی تو نے
ہے مسلمان کو کافر کے عمل میں مارا
عرس کی شب بھی مری گور پہ دو پھول نہ لائے
پتھر اک گنبد تربت کے کنول میں مارا
آنکھ سے آنکھ ہے لڑتی مجھے ڈر ہے دل کا
کہیں یہ جائے نہ اس جنگ و جدل میں مارا
ہم نے جانا تھا جبھی عشق نے مارا اس کو
تیشہ فرہاد نے جس وقت جبل میں مارا
نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.