ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا
ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا
آخر کو پاس آ ہی گیا نور دیدہ کا
نام فراق پھر نہ لیا میں نے عمر بھر
تھا ذائقہ زباں پہ عذاب چشیدہ کا
اب وہ مزا نہیں لب شیریں کے قند میں
چوسا ہوا ہے یہ کسی خدمت رسیدہ کا
اے چرخ پیر زور جوانی سے در گزر
اب پاس چاہیے تجھے پشت خمیدہ کا
ابرو میں خم جبیں میں شکن آنکھ میں غضب
کیا مدعا ہے قاتل خنجر کشیدہ کا
دولت غرض نہ تھی جو دعا سے ہوئی حصول
تھا اور مدعا مرے دست کشیدہ کا
اے ساکنان چرخ معلی بچو بچو
طوفاں ہوا بلند مرے آب دیدہ کا
وہ نا توانیاں ہیں کہ جسم ضعیف پر
جامہ ہے عنکبوت کے دام تنیدہ کا
بے دید دید میں نہیں آتے کسی طرح
غم آشیاں ہے طائر رنگ پریدہ کا
اڑتے ہیں ہوش کوئی بھلا کس طرح سنے
افسانہ تیرے وحشیٔ از خود رمیدہ کا
او گل خیال ہے عرق جسم کا ترے
شیشہ ہے دل ہمارا گلاب چکیدہ کا
یاد نگاہ مست سے ہے دل کو انتشار
پیمانہ ہے خراب شراب چکیدہ کا
قاتل خدا سے ڈر ہوس ذبح تا کجا
نالہ نہ سن کسی کے گلوئے بریدہ کا
مستی کے ولولوں کا جوانی میں لطف ہے
پیری میں دھیان چاہیے قد خمیدہ کا
جلوے دکھا رہا ہے یہ فرش زمردیں
سبزہ مزار پر ہے گیاہ دمیدہ کا
چڑھتی ہے روز چادر گل جلتے ہیں چراغ
یہ ڈھیر ہے ضرور کسی برگزیدہ کا
بالوں کو اے نسیمؔ رنگو گے خضاب سے
سک کو عصا بناؤ گے پشت خمیدہ کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.