کچھ تو تسکین اضطراب ملے
کچھ تو تسکین اضطراب ملے
وہ نہیں ملتے تو شراب ملے
میں سمندر میں بھی رہا پیاسا
آب میں بھی مجھے سراب ملے
منہ لگی چھوٹتی نہیں واعظ
اب جو ملنا ہے سو عذاب ملے
چوم لوں میں ورق ورق اس کا
تیرے چہرے سے جو کتاب ملے
زندگی زندگی سی لگتی ہے
آپ جب سے ہمیں جناب ملے
کون تعبیر کی کرے چنتا
پھر سے کوئی حسین خواب ملے
دن عبادت میں ہو گزر یارب
وقت مغرب مگر شراب ملے
یا خدا دل ملے شجر جیسا
غم جو مجھ کو ہیں بے حساب ملے
کھل کے رونا بھی کب نصیب ہوا
پھر نہ یہ ہستیٔ حباب ملے
دل کے نکلے غریب سب کے سب
ہم کو جو صاحب نصاب ملے
کچھ تو پہلے ہی دربدر تھا صداؔ
دوست بھی خانماں خراب ملے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.