خیر کا تجھ کو یقیں ہے اور اس کو شر کا ہے
خیر کا تجھ کو یقیں ہے اور اس کو شر کا ہے
دونوں حق پر ہیں کہ جھگڑا صرف پس منظر کا ہے
آنسوؤں سے تو ہے خالی درد سے عاری ہوں میں
تیری آنکھیں کانچ کی ہیں میرا دل پتھر کا ہے
کون دفناتا اسے وہ اک برہنہ لاش تھی
سب نے پوچھا کون ہے وہ کون سے لشکر کا ہے
تو سکوں سے تھک گیا ہے اور بیتابی سے میں
شوق ہے تجھ کو سفر کا اور مجھ کو گھر کا ہے
ایک پودا صحن میں تھا دھوپ کھا کر جل گیا
صرف میرا ہی نہیں ہے رنج یہ گھر بھر کا ہے
سوچتا رہتا ہوں میں تیری اڑانیں دیکھ کر
یہ ہوا کا زور ہے یا تیرے بال و پر کا ہے
ایک بوڑھے نے کیا عصر رواں پہ تبصرہ
یہ زمانہ آدمی کا ہے کہ زور و زر کا ہے
میں نے سینچا ہے لہو سے اس دل سرسبز کو
عمر بھر سے یہ علاقہ میری چشم تر کا ہے
میں سمٹ کر لیٹتا ہوں بستر ادراک پر
پاؤں پھیلاؤں تو اندیشہ مجھے چادر کا ہے
اس مسافت کا مداوا تجھ سے بھی ممکن نہیں
زخم دل سے کچھ زیادہ زخم میرے سر کا ہے
اک طبیب آدمیت نے کہا ہے صاف صاف
زہر دنیا کی رگوں میں سب فساد زر کا ہے
دیکھ کر انسان کو کہتی ہے ساری کائنات
یہ تو ہم میں سے نہیں ہے یہ کوئی باہر کا ہے
ساری کڑیاں توڑ دیں میں نے محبت کے سوا
کون توڑے گا اسے یہ جبر تو اندر کا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.