دیا سا دل کے خرابے میں جل رہا ہے میاں
دیا سا دل کے خرابے میں جل رہا ہے میاں
دیے کے گرد کوئی عکس چل رہا ہے میاں
یہ روح رقص چراغاں ہے اپنے حلقے میں
یہ جسم سایہ ہے اور سایہ ڈھل رہا ہے میاں
یہ آنکھ پردہ ہے اک گردش تحیر کا
یہ دل نہیں ہے بگولہ اچھل رہا ہے میاں
کبھی کسی کا گزرنا کبھی ٹھہر جانا
مرے سکوت میں کیا کیا خلل رہا ہے میاں
کسی کی راہ میں افلاک زیر پا ہوتے
یہاں تو پاؤں سے صحرا نکل رہا ہے میاں
ہجوم شوخ میں یہ دل ہی بے غرض نکلا
چلو کوئی تو حریفانہ چل رہا ہے میاں
تجھے ابھی سے پڑی ہے کہ فیصلہ ہو جائے
نہ جانے کب سے یہاں وقت ٹل رہا ہے میاں
طبیعتوں ہی کے ملنے سے تھا مزہ باقی
سو وہ مزہ بھی کہاں آج کل رہا ہے میاں
غموں کی فصل میں جس غم کو رائیگاں سمجھے
خوشی تو یہ ہے کہ وہ غم بھی پھل رہا ہے میاں
لکھا نصیرؔ نے ہر رنگ میں سفید و سیاہ
مگر جو حرف لہو میں مچل رہا ہے میاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.