دیکھو ایسا عجب مسافر پھر کب لوٹ کے آتا ہے
دلچسپ معلومات
قرۃالعین حیدر کے ناول ’آگ کادریا‘ کےکرداروں اور ایمیجز پر مشتمل ایک غزل
دیکھو ایسا عجب مسافر پھر کب لوٹ کے آتا ہے
دریا اس کو رستہ دے کر آج تلک پچھتاتا ہے
جنگل جنگل گھومنے والا اپنے دھیان کی دستک سے
کوسوں دور اک گھر میں کسی کو ساری رات جگاتا ہے
جانے کس کی آس لگی ہے جانے کس کو آنا ہے
کوئی ریل کی سیٹی سن کر سوتے سے اٹھ جاتا ہے
میری گلی کے سامنے والے گھر کی اندھیری کھڑکی میں
اس لڑکی سے باتیں کر کے کوئی مجھے دہراتا ہے
کیسا جھوٹا سہارا ہے یہ دکھ سے آنکھ چرانے کا
کوئی کسی کا حال سنا کر اپنا آپ چھپاتا ہے
کچی منڈیروں والے گھر میں شام کے ڈھلتے ہی ہر روز
اپنے دوپٹے کے پلو سے کوئی چراغ جلاتا ہے
- کتاب : siip-volume-47 (Pg. 50)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.