دل خستگاں میں درد کا آذر کوئی تو آئے
دل خستگاں میں درد کا آذر کوئی تو آئے
پتھر سے میرے خواب کا پیکر کوئی تو آئے
دریا بھی ہو تو کیسے ڈبو دیں زمین کو
پلکوں کے پار غم کا سمندر کوئی تو آئے
چوکھٹ سے حال پوچھا تو بازار سے سنا
اک دن غریب خانے کے اندر کوئی تو آئے
جو زخم دوستوں نے دیے ہیں وہ چھپ تو جائیں
پر دشمنوں کی سمت سے پتھر کوئی تو آئے
ہیں نوحہ گر ہزار ثنا خواں ہزار ہیں
میرے سوائے تیر کی زد پر کوئی تو آئے
لاکھوں جب آ کے جا چکے کیا مل گیا میاں
اب بھی یہ سوچتے ہو پیمبر کوئی تو آئے
شکوہ درست قیسیؔ کے پیہم سکوت کا
لیکن اس انجمن میں سخنور کوئی تو آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.