Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

حفیظ جونپوری

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

حفیظ جونپوری

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

نہیں مرتے ہیں تو ایذا نہیں جھیلی جاتی

اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے

دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پر

رات کو چادر مہتاب تنی ہوتی ہے

تم بچھڑتے ہو جو اب کرب نہ ہو وہ کم ہے

دم نکلتا ہے تو اعضا شکنی ہوتی ہے

زندہ در گور ہم ایسے جو ہیں مرنے والے

جیتے جی ان کے گلے میں کفنی ہوتی ہے

رت بدلتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری

جب بہار آتی ہے توبہ شکنی ہوتی ہے

غیر کے بس میں تمہیں سن کے یہ کہہ اٹھتا ہوں

ایسی تقدیر بھی اللہ غنی ہوتی ہے

نہ بڑھے بات اگر کھل کے کریں وہ باتیں

باعث طول سخن کم سخنی ہوتی ہے

لٹ گیا وہ ترے کوچے میں دھرا جس نے قدم

اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے

حسن والوں کو ضد آ جائے خدا یہ نہ کرے

کر گزرتے ہیں جو کچھ جی میں ٹھنی ہوتی ہے

ہجر میں زہر ہے ساغر کا لگانا منہ سے

مے کی جو بوند ہے ہیرے کی کنی ہوتی ہے

مے کشوں کو نہ کبھی فکر کم و بیش رہی

ایسے لوگوں کی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے

ہوک اٹھتی ہے اگر ضبط فغاں کرتا ہوں

سانس رکتی ہے تو برچھی کی انی ہوتی ہے

عکس کی ان پہ نظر آئنہ پہ ان کی نگاہ

دو کماں داروں میں ناوک فگنی ہوتی ہے

پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظؔ

صاف انکار سے خاطر شکنی ہوتی ہے

RECITATIONS

نعمان شوق

نعمان شوق,

نعمان شوق

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے نعمان شوق

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

You have remaining out of free content pages per year. Log In or Register to become a Rekhta Family member to access the full website.

بولیے