- کتاب فہرست 183345
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1920
طب864 تحریکات290 ناول4256 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1430
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1062
- ہائیکو12
- حمد42
- مزاحیہ36
- انتخاب1536
- کہہ مکرنی6
- کلیات666
- ماہیہ19
- مجموعہ4804
- مرثیہ374
- مثنوی811
- مسدس56
- نعت528
- نظم1177
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ178
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
مختار احمد کی بچوں کی کہانیاں
شہزادی اور لکڑہارا
شہزادی سلطانہ بادشاہ کی شادی کے بعد بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ بادشاہ اور ملکہ تو اس کی پیدائش پر خوش تھے ہی مگر جس روز وہ پیدا ہوئی تھی پورے ملک میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ ہر طرف جشن منایا جا رہا تھا۔ بادشاہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا
شہزادی کی تین شرطیں
شہزادی نگینہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔ وہ نہایت حسین و جمیل اور عقلمند تھی۔ جب وہ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ اسی دوران اس کے دو شہزادوں کے رشتے بھی آگئے۔ بادشاہ کو فیصلہ کرنا دشوار
آم کے آم گٹھلیوں کے دام
چند روز بعد حسن کی پھپھو کی شادی ہونے والی تھی۔وہ اس کے دادا دادی کے ساتھ بہاولپور میں رہتی تھیں۔اس شادی میں شرکت کے لیے آج وہ اپنی امی اور ابّا کے ساتھ بسوں کے اڈے پر آیا تھا۔اس کے ابّا نے بس میں تین سیٹیں پہلے ہی سے بک کروا لی تھیں۔راولپنڈی سے بہاولپور
ضدی بادشاہ
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔اس بادشاہ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام شہزادی گل فشاں تھا۔شہزادی گل فشاں اپنی خوبصورتی، خوش اخلاقی اور عقلمندی کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھی اور کئی ملکوں کے شہزادے اس سے شادی کے خواہش مند
بریانی نہیں پکی ہے بھائی
رشیدہ کا شوہر شہاب کاروباری دورے پر ہانگ کانگ گیا ہوا تھا۔اس کا ایک پررونق علاقے کی مارکیٹ میں گارمنٹس کا ایک بڑا سا اسٹور تھا جس میں بچوں کے ملبوسات فروخت کے جاتے تھے۔ اسٹور میں تین سیلزمین کام کرتے تھے_ ایک لڑکا بھی تھا جو صفائی ستھرائی اور دوسرے چھوٹے
نیک دل شہزادہ
ایک بادشاہ تھا۔ نہایت اچھا، رحم دل اور اپنی رعایا کا بہت زیادہ خیال رکھنے والا۔ اس کی ایک ملکہ بھی تھی، بےحد حسین و جمیل اور خدا ترس۔ وہ ملک کا نظام چلانے کے لیے اپنی سمجھ کے مطابق بادشاہ کو رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں مشورے بھی دیتی تھی اور بادشاہ
مانو کہاں گئی؟
محل کے شاہی باورچی کا بیٹا شیر افگن بھاگتا بھاگتا گھر میں داخل ہوا اور ہانپتے ہوئے بولا۔ ’’ابا ابا۔ باورچی خانے میں بہت ساری بلیاں بیٹھی ہیں، جلدی چلو۔ کہیں وہ سارا دودھ نہ پی جائیں‘‘۔ باورچی بیٹھا بیوی سے باتیں کر رہا تھا، بیٹے کی اطلاع پر گھبراکر
خوشامد پسند بادشاہ
یوں تو بادشاہ سلامت بہت اچھے اور نیک تھے مگر ان کا وزیر ان کی ایک بات سے بہت پریشان تھا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا۔ بادشاہ سلامت اپنی رعایا سے بہت محبّت کرتے تھے اور انہوں نے ان کی بھلائی کے کاموں کے لیے اپنے خزانوں کا منہ کھول رکھے تھے۔ ملک میں
عقل مند وزیر زادہ
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک پر خدا دوست نامی ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ بادشاہ بہت نیک اور صلح پسند تھا۔ اس کی ملکہ بھی بہت اچھی اور غریبوں سے محبّت کرنے والی عورت تھی۔ ان کی ایک بیٹی بھی تھی جس کا نام شہزادی انعم تھا۔ شہزادی انعم اپنی خوب صورتی،
اچھا لڑکا پکّا دوست
واجد کے اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔وہ اپنی امی سے ضد کرنے لگا کہ یہ چھٹیاں گزارنے خالہ کے گھر حیدرآباد چلیں۔اس کی ضد سے مجبور ہو کر اس کی امی نے اس کے ابو سے بات کی اور انھیں بتایا کہ واجد خالہ کے گھر جانے کو کہہ رہا ہے۔اس پر اس کے ابّو
نیکی کا صلہ
نادیہ کی نانی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی اس لیے اس کی امی کو ان کے پاس جانا پڑگیا تھا – وہ ایک قریبی شہر میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے بیٹے کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اگر وہ شادی شدہ ہوتا تو اس کی بیوی ان کی خدمت کرتی۔ بیٹا تو کام
چالاک بوڑھا
سوداگر کی گمشدگی فاروق سوداگر کو گھر سے گئے ہوئے پورے چھ ماہ ہو گئے تھے۔ وہ ریشمی کپڑے کی تجارت کرتا تھا اور چھ ماہ پیشتر چالیس اونٹوں پر اعلیٰ اقسام کے ریشمی کپڑوں کے تھان لے کر موتی نگر انھیں فروخت کرنے کی غرض سے لے گیا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے
میں جھوٹ نہیں بولوں گا
جاوید نو دس سال کا لڑکا تھا، نہایت تمیزدار اور پڑھائی لکھائی میں تیز۔ نہ کسی سے لڑتا جھگڑتا تھا اور نہ ہی اپنی کسی بات سے کسی کی دل آزاری کرتا تھا۔ اس کی اچھی عادتوں کی وجہ سے اسکول میں اس کی تمام استانیاں اور دوست اور گھر میں اس کی امی اور ابو اس سے
حویلی کے چور
نوراں کی ساری زندگی مشقت میں بسر ہوئی تھی۔ وہ ایک چھوٹے سے گاوٴں میں رہتی تھی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو اسے پورے گھر کو سنبھالنا پڑتا تھا کیوں کہ اس کی ماں گاوٴں کے زمیندار کی حویلی میں ملازمہ تھی۔ وہ صبح سے شام تک حویلی میں کام میں مصروف رہتی۔ اس خدمت کے
شہزادے کی ضد
یہ بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا بھی تھا جس کی عمر چھ سال تھی اور نام تھا شامی۔ شہزادہ شامی اپنے باپ سے بہت محبّت کرتا تھا، مگر دوسرے بچوں کی طرح اس کی بھی باپ سے محبّت صرف دن دن کی ہوا کرتی تھی۔ رات
منی کے جوتے
ابرار گھی بنانے کی ایک کمپنی میں ملازمت کرتا تھا۔ اس کی رہائش گاہ اس کمپنی سے چار پانچ کل میٹر دور تھی اس لیے وہ سائیکل پر کمپنی آتا جاتا تھا۔ وہ ایک محنتی اور ایماندار شخص تھا اور دل لگا کر اپنا کام کرتا تھا ۔اس کے دو بچے تھے۔ ارسلان اور بتول۔ بتول
لکڑ ہارے کا بیٹا
ایک روز کا ذکر ہے شہزادی گل صنوبر محل کے باغ میں جھولاجھول رہی تھی۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والی کنیزیں بھی اس کے ساتھ ساتھ تھیں۔ ملکہ اوربادشاہ بھی وہیں تھے اور ایک تخت پربیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ شہزادی کو باغ میں جھولا جھولنا بہت اچھا لگتا
ضدی لڑکا
شہر یار کی چھٹی سالگرہ ہونے والی تھی- اس کے امی ابّو ہر سال اس کی سالگرہ دھوم دھام سے مناتے تھے- اس کی چھوٹی خالہ لاہور میں رہتی تھیں اور وہ بھی شہر یار سے بہت پیار کرتی تھیں- ان کے کالج کچھ دنوں کے لیے بند ہوگئے تھے اس لیے شہر یار کی امی نے سالگرہ
چالاک سوداگر
بہت پرانے زمانے کا ذکر کسی شہر میں امانت نامی ایک شخص رہتا تھا۔وہ غلہ فروشی کا کام کرتا تھا اور شہر کے بیچوں بیچ ایک بڑے بازار میں اس کی غلّے کی دکان تھی۔ اس دکان میں گندم، چاول، گڑ، شکر، مکئی اور دالیں فروخت ہوتی تھیں۔اس کی ایمانداری، خوش
عقلمند لکڑ ہارا
پرانے زمانے کی بات، کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ بادشاہ بہت رحمدل اور سخی تھا اور اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں ہر وقت فکر مند رہتا تھا۔ مگر اس بادشاہ میں ایک خامی بھی تھی۔ وہ اپنے وزیروں اور مشیروں کی تمام باتوں پر آنکھ بند
بادشاہ کا انعام
بادشاہ کو نہ تو شکار کا شوق تھا اور نہ ہی گھومنے پھرنے کا۔ اسے تو بس کھیلوں کے مقابلے بہت پسند تھے۔ وہ ایک سادگی پسند حکمران تھا۔ سال کے بارہ مہینے اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگا رہتا۔ اس کے وزیر بھی بہت عقلمند اور وفادار تھے۔ اپنے بادشاہ
ایک شکل کے دو شہزادے
شہزادہ ارجمند اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اپنی بہن شہزادی انجمن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ چند ہفتے پہلے اس کی شادی پڑوسی ملک کے ایک شہزادے سے ہوگئی تھی۔ شادی کے بعد وہ ایک مرتبہ بھی اپنے گھر نہیں آئی تھی۔ ملکہ نے قاصدوں کے ذریعے اسے پیغام بھی
نیک دل پڑوسی
کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا- اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی جس پر وہ گندم اور دوسری فصلیں اگاتا تھا- وہ دن بھر کھیتوں میں کام کرتا تھا اور اس کی بیوی گھر کے کاموں کے علاوہ کھیتوں میں بھی مختلف کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتی تھی- ان کے دو بچے تھے- ایک
ہمیں انعام نہیں چاہیے
شاکر صاحب صبح ہی سے ہی گاڑی کی صفائی ستھرائی میں لگے ہوئے تھے اور اب دوپہر ہونے کو آ گئی تھی۔ ان کے تینوں بچے عاقب، فہد اور ہانیہ بھی ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ ان کی بیوی نسرین کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی اور کبھی کبھی کھڑکی سے باہر جھانک کر انھیں
انگوٹھی اور بانسری کا راز
پرانے زمانے کی بات ہے کسی شہر میں دو دوست رہا کرتے تھے۔ ایک کا نام عدنان تھا اور دوسرے کا مانی۔ عدنان ایک سوداگر کا بیٹا تھا اور اور مانی کا باپ شہر کا کوتوال تھا۔ عدنان تجارت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا – جب کہ مانی فن سپاہ گری سیکھ
انوکھا چور
انسپکٹر رشید رات نو بجے گھر پہنچا تھا۔ وہ کسی خاص کیس کی تفتیش میں مصروف تھا اس لیے گھر پہنچنے میں اسے دیر ہوگئی تھی۔ گھر پہنچتے ہی اس نے اپنی گاڑی گیراج میں کھڑی کی- ڈیوٹی کے اوقات میں بھی وہ اپنی ذاتی گاڑی ہی استعمال کرتا تھا اور اس میں پٹرول بھی اپنی
اچھا کام
آسمان پر کئی دنوں سے گہرے کالے بادلوں کا ڈیرہ تھا۔ دن میں ہلکی اور رات کو تیز بارش کا سسلسلہ کئی روز سے جاری تھا۔ مسلسل بارشوں کی وجہ سے پکے گھروں میں رہنے والوں کو تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی، مگر وہ لوگ جو کچے گھروں اور جھونپڑیوں میں رہتے تھے ان
غلطی ہماری ہے
ثاقب صاحب آفس سے گھر آئے تو انھیں محسوس ہوا کہ ان کی بیوی کا موڈ کچھ خراب ہے۔انھیں دیکھ کر نہ تو وہ مسکرائیں اور نہ ہی اس خوشی کا اظہار کیا جو روز ان کے آفس سے آنے پر کرتی تھیں۔وہ کپڑے تبدیل کر کے آئے تو بیوی نے خاموشی سے چائے کا کپ ان کے سامنے
وزیر شہزادہ
ایک بادشاہ کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے کا نام شعیب اور چھوٹے کانام زوہیب تھا۔اگرچہ شعیب تھا تو بڑا مگر وہ بہت سیدھا سادہ تھا اور اس میں زیادہ عقل و شعور بھی نہ تھا۔جب کہ چھوٹا بیٹا زوہیب اس سے زیادہ عقلمند اور سمجھدار تھا- بادشاہ اس بات پر کڑھا کرتا
ایماندار موچی
سردیوں کے دن تھے۔ بالا موچی درخت کے نیچے اپنی چھوٹی سی دکان میں جوتوں کی مرمت کرنے میں مصروف تھا۔ اس کی دکان بغیر چھت اور دیواروں کے ایک ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے، گاؤں کے بالکل بیچوں بیچ ایک صاف ستھرے میدان میں تھی اور اس دکان کا کل اثاثہ لکڑی کا ایک صندوق
سنہری گھوڑا
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک میں ایک امیر کبیر سوداگر رہتا تھا۔اس سوداگر کا ایک بیٹا تھا جس کا نام ہادی تھا اور وہ اپنے باپ کے تجارت کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ ہادی کا ایک دوست بھی تھا اور وہ تھا اس ملک کا شہزادہ جمال۔ان کی دوستی کی ابتدا
جھوٹ پکڑا گیا
جواد چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ ایک تمیز دار اور ہونہار بچہ تھا۔ پڑھائی لکھائی میں تیز تھا اور کبھی اسکول سے چھٹی نہیں کرتا تھا۔ اس کا دوسرے بچوں سے برتاؤ بہت اچھا تھا اور وہ ان کے ساتھ پیار محبّت سے رہتا تھا۔ وہ اپنے بڑوں سے نہایت دھیمے لہجے اور
کام چور لڑکا
نونی یوں تو بڑا اچھا بچہ تھا مگر اس میں ایک بات بہت بری تھی اور وہ بات یہ تھی کہ وہ ایک کام چور لڑکا تھا۔ اس سے اگر کسی کام کو کرنے کا کہا جاتا تو وہ صاف منع کر دیتا تھا۔ اس کی امی باہر برآمدے میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہوتیں اور اس سے کہتیں۔ ’’نونی بیٹے۔
بونے کی انگوٹھی
زمانہ گزرا کسی ملک میں ایک گاؤں تھا جس میں ایک کسان اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی بیٹی کا نام لالہ رخ تھا اور وہ پندرہ سولہ سال کی ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی۔ وہ بہت با اخلاق اور ہر کسی کے دکھ درد میں کام آنے والی لڑکی تھی۔ لالہ رخ
شرارتی بچے
ہنی گرائمر اسکول پہلی کلاس سے لے کر پانچویں کلاس تک تھا۔یہ اسکول اپنی پڑھائی لکھائی اور مناسب فیسوں کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔یہاں ڈسپلن کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔اس کی ایک انوکھی بات یہ بھی تھی کہ مختلف مضمون پڑھانے کے لیے الگ الگ ٹیچرز نہیں تھیں
سائیکل کی چوری
احمد کو بہت شوق تھا کہ وہ سائیکل چلائے مگر اس کے پاس سائیکل ہی نہیں تھی اس کے دوست جب شام کو اپنی اپنی سائیکلوں پر گلی میں چکر لگاتے تو وہ دل مسوس کر رہ جاتا اور حسرت بھری نظروں سے انھیں دیکھتا۔ ایک دفعہ وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے تایا ابّو کے
جادو کی چھڑی
پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک میں ایک گاؤں تھا۔ اس گاؤں کے تمام لوگ سیدھے سادھے تھے مگر بے چارے تھے بہت غریب۔ان کی غربت کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ کاہل اور آرام پسند تھے اور اپنا اپنا کام محنت اور دل لگا کر نہیں کرتے تھے۔ دل چاہا تو کام پر چلے گئے،
پینسل کی چوری
فواد ایک مصور تھا۔ اس کا حلیہ بھی ایسا ہی تھا جیسا کہ اکثر مصوروں کا ہوتا ہے۔ بھاری بھرکم جسم، گورا رنگ، شانوں تک لمبے لمبے بال، جسم پر ململ کا کرتا اور پاجامہ اور منہ میں پان۔ اس نے ایک پر رونق علاقے میں اپنا ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو کھول رکھا تھا۔ یہاں
بونے کے جوتے
مونگی ایک موچی تھا۔ اس کی دکان گاؤں میں تھی۔ وہ روزانہ صبح دکان کھولتا، دن بھر گاؤں والوں کے پھٹے پرانے جوتوں کی مرمت کرتا اور جب شام ہوتی تو دکان بند کر کے گھر چلا آتا۔ چونکہ وہ بہت غریب تھا اس لیے اس کی دکان نہایت ٹوٹی پھوٹی حالت میں تھی۔ اس کے پاس
انوکھا بندر
اقرا آٹھ نو سال کی ایک بہت اچھی، خوبصورت اور تمیز دار لڑکی تھی۔ اس کی ایک بڑی بہن بھی تھیں جن کی چند سال پہلے شادی ہوگئی تھی اور اس سے بڑا ایک بھائی بھی تھا جس کا نام ظفر تھا۔ شادی کے بعد اس کی آپی اپنے شوہر کے ساتھ دبئی چلی گئی تھیں۔ اس کا
ہنر مند لڑکی
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں حارث نامی ایک لڑکا رہتا تھا۔اس کے ماں باپ بہت غریب تھے۔اس کا باپ کھیتوں میں کام کر کے اپنے بیوی بچے کا پیٹ پالتا تھا۔وہ اتنا غریب تھا کہ اس کے پاس ہل میں جوتنے کے لیے کوئی بیل بھی نہیں تھا۔بے چارے کو
شہزادے کا اغوا
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کے نظم و نسق اور نیک دلی کی وجہ سے اس کی رعایا بہت چین اور سکون سے اپنی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس ملک کے لوگوں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر وقت اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے
پراسرار دستانے
عظیم کے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کے اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں اس لیے انہوں نے کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ عظیم کے والد بغرض ملازمت اس چھوٹے سے شہر میں مقیم تھے۔یہ
عقلمندی کا انعام
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی گاؤں میں عادل نامی شخص اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ اس کے دو بچے تھے۔ عارف اور شاہینہ۔ وہ دونوں ابھی چھوٹے تھے مگر بہت سمجھدار تھے۔ وہ ہر کام میں اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان کے ماں باپ ان سے بہت خوش تھے۔ انھیں
لکڑ ہارے کا بیٹا
ایک روز کا ذکر ہے شہزادی گل صنوبر محل کے باغ میں جھولاجھول رہی تھی۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والی کنیزیں بھی اس کے ساتھ ساتھ تھیں۔ ملکہ اور بادشاہ بھی وہیں تھے اور ایک تخت پربیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ شہزادی کو باغ میں جھولا جھولنا بہت اچھا
طلسمی جھیل کا راز
کسی گاؤں میں ایک کسان اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بیٹے کا نام انور تھا۔ اس کے باپ نے اسے بچپن ہی سے ایک مدرسے میں پڑھنے کے لیے بٹھا دیا تھا۔ وہ ذہین تھا اس لیے استاد جو بھی سبق دیتے تھے، اس کو دوسرے بچوں کی بہ نسبت جلدی یاد کر لیا کرتا
خزانے کی چوری
بہت پرانے زمانے کی بات ہے، کسی ملک میں دولت آباد نامی ایک شہر تھا۔ اس شہر میں حامد نام کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کے ماں باپ بہت غریب تھے۔ اس کے باپ نے اس کو ایک نانبائی کی دکان پر چھوٹے موٹے کام کرنے کے لیے رکھوا دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات چلانے میں
کرائے کی لائبریری
سہیل جب آٹھویں جماعت پاس کرکے نویں جماعت میں گیا تو اس کے امی ابّا بہت خوش ہوئے۔ سہیل کے دوسرے رشتے دار تو بہت دور دور رہتے تھے مگر دو چچا اسی شہر میں تھے اور ایک ساتھ رہتے تھے۔ بڑے چچا شادی شدہ تھے۔ چھوٹے چچا کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ سہیل کے ابّا
join rekhta family!
-
ادب اطفال1920
-