- کتاب فہرست 180548
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1390
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1122
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
خواجہ احمد عباس کے افسانے
دیا جلے ساری رات
یہ محبت کو ایک نئی شکل میں پیش کرتی کہانی ہے۔ تراونکور میں کشتی میں بیٹھ کر سمندر میں گھومتے ہوئے کب شام ہوگئی اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ شام رفتہ رفتہ رات میں تبدیل ہوتی گئی اور کشتی آگے بڑھتی رہی۔ کنارے سے بہت دور نکل آنے پر اس نے پاس ہی میں ایک دوسری کشتی کو دیکھا، جس سے ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی۔ کشتی جب پاس آئی تو پتہ چلا کہ اس میں ایک عورت سوار ہے جو پاس کے ایک درخت پر دیا جلا کر واپس چلی گئی۔ اس نے اپنے ملاح سے اس عورت کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ عورت گزشتہ تین سال سے اپنے اس محبوب کا انتظار کر رہی ہے جومر چکا ہے۔ اسے راستہ بتانے کے لیے وہ ہر رات اس درخت پر دیا جلا کر جاتی ہے۔
میری موت
یہ ایک سچا واقعہ ہے۔ اس کہانی کا خاص کردار ایک فرقہ پرست مسلمان ہے۔ وہ مسلمان سرداروں سے ڈرتا ہے اور ان سے نفرت بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے پڑوسی سردار پر ذرا بھی بھروسہ نہیں کرتا۔ تقسیم کے وقت جب فسادات ہوتے ہیں تب وہی پڑوسی سردار اس مسلمان کو بچاتا ہے۔
آج کے لیلیٰ مجنوں
ایک تھی لیلیٰ، ایک تھا مجنوں۔ مگر لیلیٰ کا نام لیلیٰ نہیں تھا، للی تھا، للی ڈی سوزا۔ وہ دونوں اور ان کے قبیلے صحرائے عرب میں نہیں رہتے تھے۔ ماہم اور باندرہ کے بیچ میں سڑک کے نیچے اور کھاری پانی کی کھاڑی کے کنارے جو جھونپڑیوں کی بستی ہے وہاں رہتے
واپسی کا ٹکٹ
انسان نے انسان کو ایذا پہنچانے کے لیے جو مختلف آلے اور طریقے اختیار کیے ہیں ان میں سب سے زیادہ خطرناک ہے ٹیلی فون! سانپ کے کاٹے کا منتر تو ہوسکتا ہے مگر ٹیلی فون کے مارے کو تو پانی بھی نہیں ملتا۔ مجھے تو رات بھر اس کمبخت کے ڈر سے نیند نہیں آتی کہ
ماں کا دل
کہانی ایک فلم کی شوٹنگ کے گرد گھومتی ہے جس میں ہیرو کو ایک بچے کو گود میں لے کر ڈائیلاگ بولنا ہوتا ہے۔ اسٹوڈیو میں جتنے بھی بچے لائے جاتے ہیں ہیرو کسی نہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیتا ہے۔ پھر باہر جھاڑو لگا رہی اسٹوڈیو کی بھنگن کو اسکا بچہ لانے کے لیے کہا جاتا ہے، جو کئی دن سے بخار میں تپ رہا ہوتا ہے۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے کسی ڈاکٹر کو بھی نہیں دکھا پاتی ہے۔ ہیرو بچے کے ساتھ سین شوٹ کرا دیتا ہے۔ بھنگن اسٹودیو سے پیسے لے کر جب ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے تب تک بچہ مر چکا ہوتا ہے۔
ابابیل
انسانی فطرت کی پرتیں کھولتی ایک ایسے کسان کی کہانی ہے جسکے غصے کی وجہ سے گاؤں کے لوگ ہمیشہ اس سے فاصلہ بنا کر رکھتے ہیں۔ اس کے بے جا اور شدید غصے کی وجہ سے ایک دن اس کی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ کسان جب اپنے کھیت سے واپس آتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اب گھر میں تنہا ہے۔ایک دن اسے اپنے گھر کے چھپر میں ابابیل کا گھونسلا دکھایی دیتا ہے۔ گھونسلے میں ابابیل کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ابابیل کے بچوں سے ایک ایسا گہرا رشتہ ہو جاتا ہے کہ انھیں بارش سے بچانے کے لیے وہ بارش میں بھیگتا ہوا چھپر کو ٹھیک کرتا ہے۔ بارش میں بھیگ جانے کی وجہ سے وہ بیمار ہو جاتا ہے اور اسکی موت ہو جاتی ہے۔
ایک لڑکی
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے ابتدائی دور میں لڑکیوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ اس کے لیے یونیورسٹی کے خلاف ایک صحافی نے مقدمہ داخل کیا۔ وہ مقدمہ ننٖانوے سال اور صحافی کی تین نسلوں تک چلا۔ اس کے بعد بھی کئی سال بعد تک یونیورسٹی نے لڑکیوں کو داخلہ نہیں دیا۔ پھر کسی طرح ایک لڑکی داخلہ پانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے داخلے کے بعد یونیورسٹی کے ماحول میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ آپ اس کہانی میں پڑھ سکتے ہیں۔
بنارس کا ٹھگ
ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو بنارس سیر کے لیے آتا ہے تو اسے ہر جگہ وارانسی لکھا دکھائی دیتا ہے۔ شہر میں گھومتے ہوئے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں جہاں ایک طرف بہت امیر لوگ ہیں وہیں دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کے تن پر کپڑے تک نہیں ہیں۔ سیر کرتے ہوئے وہ سارناتھ جاتا ہے، وہاں گوتم بدھ کی سونے کی مورتی دیکھتا ہے۔ سونے کی مورتی دیکھ کر اسے بہت غصہ آتا ہے اور وہ مورتی کو توڑ دیتا ہے۔ وہ شہر میں اسی طرح کے اور بھی تخریبی کام کرتا ہے۔ آخر میں اسے پولس پکڑ لیتی ہے اور پاگل خانے کو سونپتے وقت جب اسکا نام پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنا نام کبیر بتاتا ہے۔
اجنتا
یہ کہانی سچے واقعات پر مبنی ہے۔ اس کہانی میں اجنتا کے ذریعے گیتا کے اپدیشوں کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا ہیرو فسادات سے بھاگ کر اجنتا کی گپھاؤں میں پناہ لیتا ہے، وہاں اسے گُپھاوں میں گیتا کا اپدیش ملتا ہے، 'عمل کر، نتیجے کی فکر مت کر۔' اپدیش پڑھ کر ہیرو کو اپنے فرض کا احساس ہوتا ہے وہ واپس بمبئی چلا جاتا ہے۔
تین عورتیں
یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو زندگی کی دشواریوں سے تنگ آکر خودکشی کرنے کے لیے نکل پڑتی ہے۔ وہ ریلوے لائن پر چلی جا رہی ہے اور اس کے پیچھے پیچھے دو عورتیں اسے سمجھا رہی ہیں، وہ ان کی ہر دلیل کو اپنے منطق سے کاٹ دیتی ہے اور آخر میں ٹرین کے نیچے آکر اپنی زندگی ختم کر لیتی ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ مرنے والی ایک نہیں تین عورتیں تھیں۔
نیلی ساڑی
یہ کہانی قحبہ خانے سے برآمد کی گئی ایک لڑکی کے بیان کے گرد گھومتی ہے جو فلم میں اسٹار بننے کے چکر میں ایک رنڈی خانے میں پہنچ جاتی ہے اور جب وہ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے چہرہ پر تیزاب ڈال کر جلا دیا جاتا ہے۔
ایک لڑکی سات دیوانے
یہ ایک سیاسی علامتی کہانی ہے۔ ایک خوبصورت جوان لڑکی ہے جس سے شادی کی غرض سے مختلف قسم کے سات لوگ آتے ہیں۔ آنے والوں میں پنڈت ہے، راجا ہے، افسر ہے، سیٹھ ہے، انقلابی ہے، کسان ہے اور کھدر پوش نوجوان بھی ہے۔ لڑکی سب سے بات چیت کرتی ہے اور آخر میں ایک کو اپنا شوہر منتخب کر لیتی ہے۔ لڑکی کے شوہر کے انتخاب سے تاریکی میں سے ایک ہلکی سی روشنی کی جو کرن پھوٹتی ہے وہ ملک کے آزادی کی کرن ہوتی ہے۔
کھدر کا کفن
ایک ایسی بوڑھی عورت کی کہانی جس نے ساری عمر خود کما کر کھایا اور اپنے بچوں کی پرورش کی۔ اس کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ اس کی اپنی کمائی سے جوڑا ہوا تھا۔ جب آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو اس نے اپنا سارا زیور عطیہ کر دیا اور گھر میں رہ کر سوت کاتنے لگی۔ مرنے سے قبل اس نے اپنے بچوں کو تاکید کی کہ جب اس کی موت ہو تو اسے کھدر کے کفن میں دفنائیں جسے وہ چھوڑ کر جا رہی ہے۔ اس کی خواہش کے مطابق ا س کی میت کو کھدر کا کفن پہنایا گیا۔
نئی جنگ
یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جس نے اپنی پوری زندگی فوج میں گزار دی۔ پہلے عالمی جنگ میں اپنی بہادری کے کئی تمغے حاصل کرنے کے بعد کور کے ساتھ زندگی گزارنے کے خواب لے کر وہ اپنے گاؤں گیا تھا مگر وہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی تو تین سال پہلے شادی ہو گئی ۔ وہ اپنی چھٹیاں منسوخ کرا کر واپس فوج میں چلا آیا اور پھر کبھی گاؤں نہیں گیا۔ ملک کی آزادی کے بعد دیش کی غربت کے خلاف نئی جنگ کے بارے میں سنا۔ اسی درمیان اس کی ملاقات کور کے بیٹے سے ہوئی جس نے اسے اپنی ماں کا پیغام دیا اور وہ اس نئی جنگ سے مقابلہ کرنے کے لیے کور کے گاؤں کی طرف چل دیا۔
زعفران کے پھول
کشمیر کے سیاسی تنازع کو مرکزی موضوع بناکر لکھی گئی کہانی ہے۔ شاہراہ سے گزرتے ایک ڈرائیور کی گاڑی خراب ہو جاتی ہے۔ گاڑی کے ٹھیک ہونے تک وہ پاس ہی زعفران کے کھیت کے پاس جاکر کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہاں ایک بوڑھیا اسے بتاتی ہے کہ زعفران کے پھول لہو کے رنگ جیسے سرخ کیوں نہیں ہیں؟ ان کی سرخی میں اس کے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کا خون شامل ہے جو یکے بعد دیگرے کشمیر کی آزادی کی جنگ کے نذر ہو جاتے ہیں۔
ٹڈی
یہ ایک طنز آمیز کہانی ہے۔ کسان پورے سال شب و روز محنت کر کے بنجر زمین میں فصل تیار کر لیتا ہے۔ فصل تیار ہوتے ہی ٹڈیوں کا ایک گروہ کھیتوں پر حملہ کر دیتا ہے۔ کسان ٹڈیوں سے کسی طرح اپنی فصل کہ بچا لیتا ہے، لیکن وہ سماج میں بیٹھے رشوت خور پٹواری اور سود خور ساہوکار جیسے ٹڈیوں سے خود کی حفاظت نہیں کر پاتا ہے۔ انھیں سماجی ٹڈیوں کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کو ہنسلی بنا کر دینے کے خواب بھی پورے نہیں کر پاتا ہے اور اسے اگلے سال کے لیے ملتوی کر دیتا ہے۔
آئینہ خانے میں
یہ ایک سوانحی افسانہ ہے جس میں مصنف نے اپنے خاندانی پس منظر۔ تخلیقی محرکات اور انسانی قدروں پر اپنے اعتماد کو بیان کیا ہے۔
تین بھنگی
کہانی ایک سرکاری اعلان کے گرد گھومتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اونچی ذات کے لوگوں کو صفائی کا کام کرنے پر زیادہ معاوضہ دیا جائے گا۔ اعلان کے بعد تین نئے بھنگی جمعدار کے سپرد کیے گیے، ان میں ایک مسلمان تھا اور دو ہندو۔ دو ہندووں میں سے جمعدار ایک کو جانتا تھا مگر جو دوسرا ہندو تھا اس کے بارے میں اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ اس نے سوچا شاید ذات کا کائستھ ہوگا۔ مگر جب اس کے کام کرنے کا ڈھنگ دیکھا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا، جسے وہ کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
شکر اللہ کا
اس کہانی میں رجعت پسندی کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ممدو جو ایک حادثہ میں اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھا ہے، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے۔ ایام جوانی میں جس تحصیلدار کے یہاں وہ ملازم تھا اس کی بیٹی بانو نے اپنی سوتیلی ماں کے مظالم سے تنگ آ کر ممدو سے بھاگ چلنے کی درخواست کی تھی لیکن ممدو تحصیلدار کے خوف سے بیمار ہو کر گھر آگیا تھا۔ طویل مدت کے بعد بانو اس کو ایک کوٹھے پر ملتی ہے، وہ بانو کو وہاں سے نکال لاتا ہے اور بطور بیوی ساتھ رکھتا ہے۔ اخیر عمر میں بانو کی دماغی حالت خراب ہو جاتی ہے اور وہ ممدو کو پہچاننے سے بھی قاصر رہتی ہے۔ ممدو خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ بانو ساتھ میں ہے اور وہ کم از کم اسے دیکھ تو سکتا ہے۔
دیوالی کے تین دیے
یہ دولت کی دیوی لکشمی کو متوجہ کرنے کے لیے دیوالی پر جلائے گیے تین دیوں کی کہانی ہے جو اپنی حیثیت کے مطابق تین مختلف گھروں میں جل رہے ہیں۔ ایک سیٹھ کے گھر میں بہت بڑے دیے کے ساتھ ہزاروں اور بھی دیے ہیں۔ دوسرا گھر کسی افسر کا ہے جس کے یہاں کچھ کم دیے ہیں اور آخری گھر کسی غریب کا ہے جس میں محض ایک دیا جل رہا ہے۔ ایک غریب عورت سر پر گٹھری رکھے سیٹھ کے یہاں رات بھر کے لیے آسرا مانگنے آتی ہے، لیکن اسے منع کر دیا جاتا ہے۔دوسرے گھر بھی جاتی ہے وہاں بھی اسے انکار کر دیا جاتا ہے۔ وہ اس غریب کے گھر جاتی ہے اور اس جھونپڑی میں جاتے ہی اس جھونپڑی کا دیا باقی گھروں سے زیادہ تیز جلنے لگتا ہے۔
بارہ گھنٹے
بارہ گھنٹے ایک انقلابی وجے سنگھ کی کہانی ہے جو سولہ سال بعد جیل سے چھوٹ کر آتا ہے اور اگلے ہی دن پھر اس کی گرفتاری یقینی ہے۔ انقلابی پارٹی کی رکن بینا کے گھر وہ شب باشی کرتا ہے اور بینا اس کی خدمات، جذبہ حب وطن، اس کے ایثار اور قربانیوں نیز اس کی جنسی محرومیوں کو یاد کرکے قربانی کے ایک جذبہ کے تحت اس کی جنسی خواہش پوری کر دیتی ہے۔
دل ہی تو ہے
انسان کے جنون اور جذبہ انتقام کو اس کہانی میں نمایاں کیا گیا ہے۔ قتل کے مجرم فوجی کو عدالت جب پھانسی کی سزا سناتی ہے تو وہ آخری خواہش کے طور پر اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کرتا ہے اور وہاں سے اپنی فوجی ٹریننگ کی بدولت فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ شکاری کتوں کی مدد سے جب وہ گرفتار ہوتا ہے تو اس کے دل میں گولی مار دی جاتی ہے۔ جج کے بے پناہ اصرار کے بعد ڈاکٹر آپریشن کے ذریعہ اس کے نیا دل لگا دیتا ہے۔ صحافی مجرم سے اس کے اگلے پروگرام کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میں صرف زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ تین مہینے کے بعد ہاسپیٹل سے اس کی چھٹی ہو جاتی ہے اور اس کے بعد عدالت کے حکم کے مطابق پھانسی۔
سونے کی چار چوڑیاں
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو بچپن میں ہی یتیم ہو گیا اور سڑک پر گاڑیوں کے پیچھے دوڑ کر اپنی روزی کماتا تھا۔ اس کی معشوقہ کے باپ کو اس کا یہ کام پسند نہیں تھا اور اپنے اس کام سے اس کی بیٹی کو سونے کی چار چوڑیاں بھی خرید کر نہیں دے سکتا تھا۔ اپنی معشوقہ کی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے اس نے ہر جائز و ناجائز کا م کیے مگر اسے کامیابی نہیں ملی۔ پھر ایک روز نیم گیری کی پہاڑی سے ٹکرا کر ایک ہوائی جہاز کریش ہو گیا، اس حادثے نے اس کی زندگی ہی بدل دی۔
تین مائیں ایک بچہ
کہانی ایک ایسے بچے کی ہے جسے حال ہی میں بمبئی پولس نے برآمد کیا تھا۔ ٹی وی پر جب بچے کے بارے میں خبر چلی تو امیر گھرانوں کی عورتوں نے اس بچے پر اپنا حق جتایا۔ کورٹ میں جب وکیل نے ان سے بچے اور ان کی گزشتہ زندگی سے وابستہ سوال پوچھے تو کسی نے بھی صحیح جواب نہیں دیا۔ مقدمہ ختم ہونے ہی کو تھا کہ ایک بھکارن کورٹ میں حاضر ہوتی ہے اور بچے پر اپنا حق جتاتی ہے۔ وکیل اس سے بھی سوال کرتا ہے۔ جج عورتوں کے جواب سننے کے بعد یہ کہتے ہوئے فیصلہ بچے پر چھوڑ دیتا ہے کہ بچہ جس عورت کے پاس جائے گا وہی اس کی ماں ہوگی۔
بھوک
کہانی ایک مجسمہ کے گرد گھومتی ہے جس کا نام اس کے تخلیق کار نے 'بھوک' رکھا ہے۔ ایک روز وہ مجسمہ چوری ہو جاتا ہے۔ پولس اس کی تلاش میں ہر اس جگہ جاتی ہے جہاں انھیں شبہ ہوتا ہے۔ مجسمہ ساز بھی پولس کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے جو 'بھوک' کی تلاش میں اپنی بھوک کو مٹاتا جاتا ہے۔
بھولی
تعلیم کی بدولت خواتین میں خود اعتمادی پیدا ہونے کی کہانی ہے۔ نمبردار کی سب سے چھوٹی بیٹی بھولی پیدائشی طور پر ہکلاتی ہے۔ گاؤں میں جب اسکول کھلتا ہے تو تحصیلدار کے حکم پر وہ بھولی کو اسکول میں داخل کرا دیتا ہے، حالانکہ اسے اس کی تعلیم کی مطلق پروا نہیں ہوتی۔ اسکول کی استانی کی شفقت اور توجہ کے نتیجہ میں بھولی کی جھجک دور ہو جاتی ہے۔ استانی اسے دلاسہ دیتی ہے کہ ایک دن تم بولنا سیکھ جاؤگی۔ اس طرح سات سال گزر جاتے ہیں۔ بھولی کی طرف سے اب بھی سب غافل ہیں اور اسے ہکلی، کم عقل اور گائے ہی سمجھتے ہیں۔ جس کے چیچک کے داغ ہیں اور جس سے کوئی شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ نمبردار ایک بوڑھے اور لنگڑے آدمی سے بھولی کی شادی طے کر دیتا ہے لیکن وہ ہار ڈالنے سے پہلے جب بھولی کے چہرے پر چیچک کے داغ دیکھتا ہے تو پانچ ہزار روپے کا مطالبہ کر دیتا ہے۔ نمبردار عزت بچانے کی خاطر پانچ ہزار روپے لا کر اس کے قدموں میں ڈال دیتا ہے لیکن بھولی شادی کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور برات واپس چلی جاتی ہے۔ بھولی کی اس قوت گویائی کو دیکھ کر گاؤں والے حیران اور استانی مسرور ہوتی ہے۔
کالی گھٹا
ٹیکسی روانہ ہوئی توبملانے سوچا، یہ سین بالکل ایسا ہے جیسا فلموںمیں ہوتاہے۔سامنے اس کے اپنے مادھو کے چہرے کاکلوزاپ ہے۔ اتنے قریب کہ وہ اس کے ہلکے سانولے گالوں پرخوب اچھی طرح گھٹی ہوئی داڑھی کی نیلاہٹ کودیکھ سکتی ہے، اس کی ریشمی سفیدقمیص اورریشمی نیلی
ٹیری لین کی پتلون
شیشے کی دیوار کے پیچھے کھڑا ہوا صاحب اپنی نیلی کانچ کی آنکھوں سے منگو کو گھور رہا تھا۔ شیشے کی دیوار کے سامنے کھڑا ہوا منگو اپنی چمکیلی کالی آنکھوں سے صاحب کو گھور رہاتھا۔ صاحب کے سر پر سلیٹی رنگ کا ’’ٹوپ‘‘ تھا۔ (اور دل ہی دل میں منگو نے اپنے آپ کو
سلمہ اور سمندر
والدین کی جانب سے بچوں پر بے جا پابندیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی نفسیاتی الجھنوں کو اس کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔ معروف وکیل سر عظیم اللہ اپنی بیٹی کے مہاوت کی لڑکی جھنیا سے ملنے پر نہ صرف سخت پابندی عائد کرتے ہیں بلکہ اسے سمندری جہاز سے لندن پڑھنے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ دوران سفر معصوم ذہن میں اٹھنے والے سوالات، یاد داشت، مشاہدات اور تخیلات کے نتیجہ میں اس کے لا شعور میں سمندر کا ایسا خوف بیٹھ جاتا ہے کہ کیمبرج سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی وہ خوف نہیں نکلتا۔ جب ڈاکٹر انور سے اس کی لو میرج ہو جاتی ہے تو انور کشتی میں ہی بٹھا کر اس کا نفسیاتی علاج کرتا ہے، اور ساحل سمندر پر درد زہ میں مبتلا جو مچھیرن اس سے ملتی ہے اس کا نام بھی جھنیا ہوتا ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-