Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو شاعری کی اصناف

اردو شاعری کی مختلف اصناف اور ان کے منفرد عناصر کو سمجھنا

اردو دہلی اور اس کے آس پاس کی مقامی بولیوں سے پیدا ہوئی۔ یہ 13 ویں اور 14 ویں صدی کے دوران مقامی زبانوں کے ساتھ عربی اور فارسی الفاظ کے ایک مخصوص امتزاج کے ساتھ پیدا ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس زبان میں بہت سی تبدیلیاں آئیں اور یہ ہندی، ہندوی، دہلوی، گجری، دکنی اور ریختہ جیسے مختلف ناموں سے جانی جانے لگی۔ تاہم، آخر کار اسے اردو کے نام سے جانا گیا۔

امیر خسرو، 13ویں صدی کے ممتاز شاعر اور موسیقار، اردو زبان کو ادبی اظہار کے لیے اپنانے والی پہلی ممتاز شخصیت ہیں۔ ان کی غزل، جس کا آغاز ’ز حال مسکیں…‘ سے ہوتا ہے، اردو غزل کی قدیم ترین مثال ہے۔ اس میں خسرو نے ہر شعر میں ایک مصرع فارسی اور ایک مصرع ہندوی کا شامل کیا ہے۔


حیرت کی بات یہ ہے کہ خسرو کے بعد اردو کی دوسری اہم شخصیت دکن سے آئی۔ قلی قطب شاہ (1565-1611) کو اردو میں اپنا دیوان مرتب کرنے والا پہلا شاعر مانا جاتا ہے۔ ان کے بعد ولی دکنی (1635-1707) نے اردو شاعری کی ترقی میں اہم رول ادا کیا۔


'ولی' کا شمالی ہند خصوصاً دہلی کے شعراء پر بہت اثر پڑا اور وہ فارسی کے بجائے اردو میں غزلیں لکھنے پر آمادہ ہوئے۔ اس رجحان نے تخلیقی اظہار کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا، اور میر و غالب جیسے شاعروں کے ظہور کی راہ ہموار کی۔


اردو شاعری کی تین اہم درسگاہیں ہیں: دکن، دہلی اور لکھنؤ۔ دکن کے بعد فائز، شیخ ظہور الدین حاتم، مرزا مظہر جان جاناں اور بعد میں میر تقی میر، مرزا رفیع سودا اور خواجہ میر درد جیسے شاعروں کی آمد کے ساتھ دہلی اردو شاعری کا دارالحکومت بنا۔ لیکن دہلی پر مسلسل حملوں کی وجہ سے بہت سے شاعروں نے دہلی چھوڑ کر لکھنؤ کی راہ لی جن میں خود میر بھی شامل تھے۔


آہستہ آہستہ لکھنؤ نئے ثقافتی دارالحکومت کے طور پر ابھرا۔ اس دور میں اودھ کے نوابوں کی سرپرستی میں شاعروں نے ترقی کی جن میں غلام ہمدانی مصحفی (1725-1824)، انشاء اللہ خان انشا (1757-1817)، خواجہ حیدر علی آتش (1778-1846)، امام بخش ناسخ (1787-1838)، میر ببر علی انیس (1802-74)، اور مرزا سلامت علی دبیر (1803-1875) وغیرہ شامل ہیں۔ اس تہذیبی دور میں جہاں میر اور غالب غزل کے معترف استاد تھے، سودا کو قصیدہ نگاری میں پہچان ملی۔ مثنوی میر حسن کے ساتھ پروان چڑھی اور مرثیہ نے اپنا اظہار انیس اور دبیر کے ذریعہ پایا۔


آئیے ایک ایک کرکے ہر اصناف سخن پر قریب سے نظر ڈالیں:



غزل


غزل ایک عربی لفظ ہے جس کا مطلب ہے 'عورتوں سے بات کرنا'۔یہ صنف فارس میں دسویں صدی عیسوی میں قصیدہ سے تشبیب  کو الگ کرکے بنائی گئی ۔ یہ صنف ایران میں خوب  پروان چڑھی اور رفتہ رفتہ اردو میں بھی غزل کہی جانے لگی۔

 

غزل شاعری کی ایک ایسی صنف ہے،جس کی ہیٔت متعین ہے اور اگر کوئی شعری مجموعہ ان ساختیاتی اصولوں پر عمل نہیں کرتا تو اسے غزل کے زمرے میں نہیں رکھا جاتا۔



غزل کئی آزاد اشعار (شعر کی جمع) کا مجموعہ ہوتی ہے، جس میں بحر ، قافیہ ، ردیف کی رعایت کی جاتی ہے ۔




بے قراری سی بے قراری ہے 
وصل ہے اور فراق طاری ہے 


جو گزاری نہ جا سکی ہم سے 
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے 


نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر 
اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے 


بن تمہارے کبھی نہیں آئی 
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے 


آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن 
سانس جو چل رہی ہے آری ہے 


اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں 
رات دن تیری انتظاری ہے 


ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو 
ہم ہیں اور اس کی یادگاری ہے 


اک مہک سمت دل سے آئی تھی 
میں یہ سمجھا تری سواری ہے 


حادثوں کا حساب ہے اپنا
ورنہ ہر آن سب کی باری ہے 


خوش رہے تو کہ زندگی اپنی 
عمر بھر کی امیدواری ہے 


مصرع: شعر کی ہر سطر کو مصرع  کہتے ہیں۔ پہلی سطر مصرع اولی کہلاتی ہے جبکہ دوسری سطر مصرعہ ثانی کہلاتی ہے۔



ردیف: شعر کے آخر میں بار بار دہرائے جانے والے الفاظ کو ردیف کہتے ہیں۔ چونکہ غزلوں کا کوئی عنوان نہیں ہوتا، اس لیے غزل کو روایتی طور پر ردیف کا استعمال کرتے ہوئے حوالہ دیا جاتا ہے۔



قافیہ: ردیف سے ذرا پہلے آنے والا لفظ قافیہ کہلاتا ہے۔



مطلع :  غزل کا پہلا شعر ہوتا ہے اور اس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف کا استعمال ہوتا ہے۔ باقی شعروں میں قافیہ اور ردیف صرف دوسرے مصرع میں استعمال ہوتے ہیں۔



نظم


نظم  ایک مرکزی عنوان کے تحت منظم اور منطقی شکل میں پروان چڑھتی ہے۔  جس میں ہر شعر یا مصرع  کا دوسرے سے گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ اس کو قید ، آزاد  یا نثری پیرائے میں لکھا جاتا ہے۔ 20ویں صدی میں نظم کو ترقی پسند شاعروں کے ساتھ میرا جی، اخترالایمان اور ن  م  راشد جیسے شاعروں نے مقبولیت عطا کی، جنہوں نے غزلوں کے بجائے صرف نظمیں لکھیں۔



نظموں کا عام طور پر ایک عنوان ہوتا ہے اور یہ اردو کی ایسی صنف ہے جس کا جدید انگریزی شاعری سے زیادہ موازنہ کیا جاتا ہے۔



قطعہ


دو یا دو سے زیادہ شعروں  کا مجموعہ جس کے ہر شعر میں ایک ہی مفہوم اور عنوان کے متعلق  بیان کیا گیا ہو، قطعہ کہلاتا ہے۔ قطعہ غزل کا بھی  حصہ ہو سکتا ہے۔



قصیدہ


قصیدہ  شاعری کی ایسی صنف  ہے جس میں کسی بادشاہ یا رئیس کی تعریف بیان کی جاتی ہے۔ اس کا آغاز غزل نما مطلع سے ہوتا ہے اور اس کے بعد اس زمین میں مختلف شعر کہے جاتے ہیں۔



مرثیہ


لفظ مرثیہ عربی زبان کے لفظ 'رثا' سے ماخوذ ہے جو کہ گہرے سانحے یا مرنے والی روح کے لئے ماتم کی علامت ہے۔ یہ ایک قسم کی عزاداری ہے، اور اس کا کربلا کی کہانی سے گہرا تعلق ہے۔ مرثیہ عام طور پر چھ سطری اکائیوں پر مشتمل ہوتا ہے جسےمسدس کہتے ہیں، جس میں ایک ہی قافیہ ردیف کے چار مصرعوں کے ساتھ ایک الگ زمین کا مطلع شامل کیا جاتا ہے۔



مثنوی


مثنوی ایک ایسی صنف ہے جو طویل کہانیوں کو نظموں کی شکل میں پیش کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس میں ہر شعر مطلع کی شکل کا ہوتا ہے۔



رباعی


رباعی چار مصرعوں کی ایک نظم ہوتی ہے جس میں ایک ہی خیال کا اظہار کیا گیا ہو۔ اس کی بحر غزلوں میں مستعمل بحروں سے مختلف ہوتی ہے۔ عام طور پر پہلے، دوسرے اور چوتھے شعر میں قافیہ،ردیف کی رعایت کی جاتی ہے لیکن بعض رباعیوں کے چاروں مصرعوں میں قافیہ ردیف کی پابندی بھی نظر آتی ہے۔



ریختہ نے اردو شاعری کی مختلف اصناف کو محفوظ کیا ہے۔ شاعری کی اصناف کے بارے مزید میں جاننے کے لئے  ریختہ ایکسپلورر پر جائیں۔


Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے