Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سندرتا کا راکشس

ممتاز مفتی

سندرتا کا راکشس

ممتاز مفتی

MORE BYممتاز مفتی

    کہانی کی کہانی

    یہ سماج میں عورتوں کے برابری کے حقوق کے ڈسکورس کے گرد گھومتی کہانی ہے، جس میں دو لڑکیاں ایک سوامی کے پاس عورت کی غیر برابری کا سوال لیکر جاتی ہیں۔ مگر وہاں ان کی سوامی سے تو ملاقات نہیں ہوتی، ان کے شاگرد ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک انہیں رانی وجیونتی کی کہانی کے ذریعے بتاتا ہے کہ مرد عورت کو دیوی بنا سکتا ہے، اس کی سندرتا کے لیے اس کی پوجا کر سکتا ہے۔ اس پر جان تک نیوچھاور کر سکتا ہے۔ مگر کبھی اسے اپنے برابر نہیں سمجھ سکتا ہے۔

    شام دبے پاؤں رینگ رہی تھی۔ ٹیلے پر درختوں کے سائے پھیلتے جا رہے تھے لیکن چوٹی کی جھولی سورج کی تھکی ماندی کرنوں سے ابھی تک بھری ہوئی تھی۔ سوامی جی کی کٹیا کا دروازہ صبح سے بند تھا۔ بالکا اور داس دونوں درختوں کی چھاؤں تلے بیٹھے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ ہر چند ساعت بعد وہ سر اٹھا کر سوامی جی کی کٹیا کے دروازے کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے کہ کب دروازہ کھلے اور درشن کے بھاگ جاگیں لیکن دروازہ نہیں کھلا تھا۔

    صبح داس نے تھالی میں بھوجن پروس کر سوامی جی کے دروازے پر رکھ دیا لیکن اب تک تھالی جوں کی توں دھری تھی۔ نہ دروازہ کھلا، نہ سوامی جی نے بھوجن اٹھایا۔ اب وہ رات کے بھوجن کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ پاس ہی بالکا منجھ کے بنے ہوئے جوتے کی مرمت کر رہا تھا۔ دور ٹیلے کے مغربی کونے کے پرے شہر کے مکانات صاف دکھائی دے رہے تھے۔ جیسے ماچس کی روغنی ڈبیاں نیچے اوپر دھری ہوں۔ شہر کے لو بھی بھنورے کی مدھم بھن بھن صاف سنائی دے رہی تھی۔ دفعتاً اس کے منہ سے ایک چیخ سی نکلی، ’’ہے رام‘‘ اور چاقو اس کے ہاتھ سے گر گیا۔

    ’’ہاتھ کٹ گیا تھا؟‘‘ بالکے نے سر اٹھا کر پوچھا۔

    ’’ناہیں مہاراج، وہ دیکھو۔۔۔ ادھر۔‘‘

    بالکے نے ادھر دیکھا۔ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ٹیلے کے مغربی کنارے پر دو لڑکیاں ان کی طرف آ رہی تھیں۔ چست لباس پہنے، بال پھیلائے، مکھ سجائے، پرس جھلاتی ہوئی۔ یوں جیسے وہ سوامی جی کا آشرم نہیں بلکہ پکنک سپاٹ ہو۔

    ’’یہ تو کالج کی دکھتی ہیں مہاراج۔‘‘ داس نے کہا۔

    ’’آج کل تو سبھی کالج کی دکھتی ہیں۔‘‘ بالکے نے جواب دیا۔ ’’کیا ماتا کی پتری۔۔۔ ‘‘ بالکا اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور گھبراہٹ میں ٹہلنے لگا۔

    داس چھلے ہوئے آلوؤں کو پھر سے چھیلنے میں لگ گیا۔ ٹیلے پر گھبراہٹ بھری خاموشی کے ڈھیر لگ گیے۔

    وقت تھم گیا۔

    پھر ایک لوچدار آواز نے تتلی کی طرح پر پھڑپھڑائے، ’’ہمیں سوامی جی سے ملنا ہے۔‘‘

    بالکے نے سر اٹھایا۔

    شیلا اور بملا کی کٹورا سی آنکھیں دیکھ کر بالکے نے گھبرا کر سر جھکا لیا اور بولا، ’’سوامی جی کی کٹیاں کے دوار کے پٹ کل سے بند ہیں دیوی۔ انہوں نے صبح کا بھوجن بھی نہیں اٹھایا۔‘‘

    ’’تو دوار کے پھٹ کھول دو۔‘‘ شیلا بولی۔

    ’’ہمیں اس کی آ گیا نہیں دیوی۔‘‘

    ’’سوامی جی کو بھی تو دوار بند کرنے کی آ گیا نہیں۔‘‘ بملا غصے میں چلائی، ’’اگر پرماتما کا دوار بھی بند ہو گیا تو منگتوں کا کیا ہوگا؟‘‘

    یہ سن کر بالکے کے ہاتھ پاؤں پھول گیے۔ سدھ بدھ ماری گئی۔ اب کیا جواب دے۔ کوئی ہو تو دے۔ ٹیلے پر خاموشی طاری ہو گئی۔

    پھر داس اٹھا۔ اس نے لپک کر چٹائی اٹھائی اور کنیاؤں کے سامنے بچھا کر نیچی نگاہوں سے بولا، ’’بیٹھو شریمتی بیٹھو۔‘‘

    ’’ہمارے پاس بیٹھنے کا ٹائم نہیں۔‘‘ شیلا نے کہا۔

    ’’سوامی جی سے کوئی مانگ کرنا ہے یا پوچھنا ہے؟‘‘ داس نے پوچھا۔

    ’’مانگ بھی، پوچھنا بھی۔‘‘ شیلا نے کہا۔

    ’’ہم تمہارا سندیس پہنچا دیں گے دیوی۔‘‘ بالکا بولا۔

    ’’اونہوں۔‘‘ شیلا نے تیوری چڑھا کر کہا، ’’ہم خود سوامی جی سے بات کریں گے۔‘‘

    ’’پر دیوی جی! سوامی جی استریوں سے نہیں ملتے۔‘‘ بالکے نے کہا۔

    ’’کیا کہا؟‘‘ شیلا اور بملا دونوں چلائیں۔

    ’’کیا وہ پرش استری کو برابر نہیں جانتے؟‘‘ شیلا نے تلخی سے کہا۔

    بالکے نے سر لٹکا لیا اور چپ سادھ لی۔ اب وہ کیا کہے، کیا جواب دے۔ ٹیلے پر خاموشی چھا گئی، گہری لمبی خاموشی۔ آخر شیلا زیر لب بولی۔ جیسے خود سے کہہ رہی ہو۔ اس کی آواز میں مایوسی کی جھلک تھی، ’’بے کار ہے بملا۔ استری کے لئے پرماتما کا دوار بھی بند ہے۔ یہاں بھی اندھیر نگری ہے۔ یہ دیش بھی پرش کا دیش نکلا۔‘‘

    بملا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ وہ چلا کر بولی، ’’سوامی جی پرش سے ملتے ہیں، استری سے نہیں، کیا سوامی جی استری سے ڈرتے ہیں۔‘‘ بالکے نے جواب دیا، ’’استری سے سوامی جی نہیں، ان کے اندر کا پرش ڈرتا ہے اور پرش استری سے نہیں، خود سے ڈرتا ہے۔ اس میں اتنی شکتی نہیں دیوی کہ وہ اندر کے مرد کو روک میں رکھ سکے۔‘‘

    یہ سن کر دونوں کنیائیں سوچ میں پڑ گئیں۔ اس سہمے داس نے دو پیالے چائے کی تھالی میں دھرے اور کنیاؤں کے سامنے رکھ کر بولا، ’’دیوی چائے پیو۔ تم تھک گئی ہو گی۔ بڑی کٹھن چڑھائی ہے اس ٹیلے کی۔‘‘

    ’’بی بی یہ تو ہمارا اندر کا کھوٹ ہے۔‘‘ بالکے نے کہا، ’’کہ استری سے بچنے کے لیے ہم اسے دیوی بنا دیتے ہیں۔‘‘

    ’’تمہارے اندر بھی کھوٹ ہے کیا؟ تم جو دن رات رام نام کی دھنکی سے دل کو پوتر کرنے میں وقت گزارتے ہو۔‘‘ بملا نے پوچھا۔

    ’’دیوی۔‘‘ بالکا بولا، ’’من کا کھوٹ کنوئیں کے پانی کی طرح ہوتا ہے۔ جتنا نکالو، اتنا ہی بھیتر سے رس کر باہر آ جاتا ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ دونوں چپ ہو گئیں۔ دفعتاً انہوں نے محسوس کیا کہ وہ بہت تھک گئی ہیں۔ اس لئے چٹائی پر بیٹھ کر چائے پینے لگیں۔

    ’’ہاں!‘‘ شیلا سوچ میں گم بڑبڑائی۔ ’’میرے پتی نے بھی مجھے دیوی بنا رکھا تھا۔ اتنا پیار کرتا تھا کہ وہ پوجا لگتی تھی۔ میں کہتی، پرکاش مجھے دیوی نہ بناؤ۔ مترنم بناؤ، ساتھی جانو، برابر کا ساتھی۔۔۔‘‘

    ’’اونہوں۔‘‘ بملا نے آہ بھری، ’’وہ برابر کا نہیں جانتے۔ ساتھی نہیں مانتے یا تو دیوی بنا کر پوجا کرتے ہیں اور یا باندی سمجھ کر حکم چلاتے ہیں۔‘‘

    ’’ایسا کیوں ہے بالکا جی؟‘‘ بملا نے پوچھا۔

    ’’کیا سوامی جی سے یہی پوچھنے آئی ہو دیوی؟‘‘ بالکے نے کہا۔

    ’’ہاں!‘‘ شیلا بولی، ’’جب پرش اور استری ایک گاڑی کے دو پہئے ہیں تو پھر بڑا چھوٹا کیوں؟‘‘

    ’’سچ کہتی ہو شریمتی۔۔۔ سچ کہتی ہو۔‘‘ بالکے نے آہ بھری، ’’یہ تو استری کی جنم جنم کی پکار ہے۔ اس دن سے استری برابر کی بھیک مانگتی پھرے ہے جس دن رانی وجے ونتی نے راج پاٹ کو تیاگ کر برابری کے کھوج میں راج بھون سے پاؤں باہر دھرا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر بالکا چپ ہو گیا۔

    ’’وجے ونتی کون تھے بالکے جی؟‘‘ بملا نے پوچھا۔

    ’’تمہیں نہیں پتہ کیا؟‘‘ بالکا بولا، ’’آج بھی راج گڑھی کی ڈھیری میں آدھی رات کے وقت رانی وجے ونتی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔‘‘

    ’’آج بھی۔۔۔؟‘‘ بملا نے پوچھا۔

    ’’ہاں آج بھی، اس کی ڈھونڈ آج بھی جاری ہے۔‘‘

    یہ سن کر شیلا بملا کو چپ لگ گئی۔ سائے اور بھی لمبے ہو گیے۔ درختوں کی ٹہنیاں ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کر رونے لگیں۔ سورج کے لہونے رس رس کر بادلوں کو رنگ دیا۔ وقت رک گیا۔ پھر شیلا کی مدھم آواز آئی، ’’بالکا جی۔ وجے ونتی کون تھی؟‘‘

    اور پھر بالکے نے وجے ونتی کی کہانی سنانی شروع کی۔ بالکا بولا، ’’وجے ونتی راج گڑھی کے مہاراج ماتری راج کی رانی تھی۔ مہاراج کا سنگھاسن اس کے چرنوں میں دھرا تھا۔ مہاراج اسے آنکھوں پر بٹھاتے۔ وارے نیارے جاتے۔۔۔ اس کی کوئی بات نہ ٹالتے، الٹا پلے باندھ لیتے۔ انہیں وجے سب رانیوں سے پیاری تھی۔ کیسے نہ ہوتی، سندرتا میں وہ سب سے اتم تھی۔ صرف ناک نقشہ ہی نہیں، اس کی چال ڈھال، رنگ روپ سبھاؤ سبھی کچھ سندرتا میں بھیگا ہوا تھا۔ پلکیں اٹھاتی تو دیئے جل جاتے۔ ہونٹ کھولتی تو پھول کھل اٹھتے۔ بانہہ ہلاتی تو ناگ جھولتے۔ بھرپور نجر سے دیکھتی تو رنگ پچکاری بھگو کر رکھ دیتی۔ مہارانی راج بھون میں بڑے آنند سے جیون گجار رہی تھی۔‘‘

    بالکا رک گیا۔ پھر کچھ دیر بعد بولا، ’’پھر ایک روز آدھی رات کے سمے مہارانی کا دوار بجا، وہ سمجھی، مہاراج آئے ہیں۔ اٹھ کر دروازہ کھولا تو کیا دیکھتی ہے کہ مہاراج نہیں ایک بوڑھی کھوسٹ استری کھڑی ہے۔‘‘

    ’’کون ہے تو؟‘‘ وہ غصے سے چلائی۔ اس کی آواز سن کر مہارانی کی باندی شوشی جاگ اٹھی اور دوڑ کر دروازے پر آ گئی۔ اس کی اتنی جان کہ آدھی رات کو مہارانی کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ رانی نے شوشی سے کہا، ’’کون ہے تو؟‘‘ شوشی بڑھیا کی طرف جھپٹی۔

    ’’میں شو بالا ہوں۔‘‘ بڑھیا نے جواب دیا، ’’میرا دارو کھتم ہو گیا ہے۔ دارو بنا میری رات نہیں کٹے گی۔ میں نے سوچا کہ رانی کے آگے جھولی پھیلاؤں۔ جو کرپا کریں تو میری رات کٹ جائے۔‘‘

    ’’تو استری ہو کے دارو پیتی ہے۔‘‘ رانی نے گھن کھا کر جھرجھری لی۔

    ’’نہ مہارانی، جو میں استری ہوتی تو دارو پینے کی کیا ضرورت تھی۔ جب میں استری تھی تو دارو پیتی نہیں تھی۔ پلایا کرتی تھی۔ لیکن اب۔۔۔ اب میں وہ دن بھولنے کے لیے دارو پیتی ہوں۔‘‘

    ’’یہ کیا بول رہی ہے شوشی؟‘‘ وجے نے کہا، ’’کہتی ہے، میں استری نہیں۔‘‘

    شوبالا بولی، ’’استری ایک سوگند ہوتی ہے جو کچھ دناں رہتی ہے، پھر اڑ جاتی ہے اور پھر پھول کی جگوں ڈنٹھل رہ جاتا ہے۔‘‘

    ’’تو راج بھون کی باندی ہے کیا؟‘‘ شوشی نے پوچھا۔

    ’’نہیں‘‘ شوبالا نے کہا، ’’میں باندی نہیں ہوں۔ آج سے تیس ورش پہلے میں بھی اسی رنگ بھون میں رہتی تھی۔ اسی دلان میں جس میں تو رہتی ہے۔ اسی سیج پر سوتی تھی۔ جب مہاراج ماتری راج کے پتا راج سنگھاسن پر براجمان تھے۔ مہاراج مجھے آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ جیسے تجھے بٹھاتے ہیں۔ بات منہ سے نکلتی تو پوری ہو جاتی۔ یہ سو چونچلے سندرتا کے کارن تھے۔ جیسے آج تیرے چاؤ چونچلے ہیں۔ پھر ایک دن آئے گا جب تو بھی ان دنوں کو بھولنے کے لئے دارو کا سہارا لے گی۔‘‘

    یہ سن کر وجے کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی، ’’تو کیا یہ ساری چاننی روپ کی ہے؟ میں کچھ بھی نہیں؟‘‘

    ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ شوبالا نے جواب دیا، ’’جب تک دکان سجی ہے۔ گاہکوں کی بھیڑ ہے۔ جب دکان لٹ جائے تو استری کو کون جانے ہے مہارانی۔‘‘

    ’’تو بکتی ہے، سب جھوٹی ہے۔‘‘ وجے نے چیخ کر کہا، ’’ایسا نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا۔‘‘

    بالکا رک گیا۔ داس نے چونک کر دیکھا۔ تو پڑا ہوا پھلا جل کر کالا ہو گیا تھا۔ بملا سر جھکائے چٹائی کو کرید رہی تھی۔ شیلا کی نگاہیں چلتے بادلوں پر ٹکی ہوئی تھیں۔

    ’’پھر کیا ہوا بالک مہاراج؟‘‘ داس کی آواز سن کر وہ سب چونک پڑے۔ بالکے نے بات چلا دی۔ بولا، ’’شوبالا کے جانے کے بعد وجے رانی بیکل ہو گئی۔ کیا یہ سچ ہے سندرتا ہی سبھی کچھ ہے؟ استری کسی گنتی میں نہیں؟ نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ جھوٹ ہے۔ شوشی نے اسے بہت سمجھایا۔ مہارانی سچ کے کھوج کی لگن نہ لگا۔ سچ کوئی میٹھا پھل نہیں۔ وہ جھوٹ جو شانت کر دے، اس سچ سے اچھا ہے جو اندر بھٹی سلگاوے ہے۔ پرنتو مہارانی کو سچ کی ڈھونڈ کا تاپ چڑھا تھا۔ بولی، ’’منش کی رتھ میں دو پہئے لگے ہیں۔ پرش اور استری۔ رتھ کیسے چل سکتی ہے جد توڑی دونوں پہئے برابر نہ ہوں۔‘‘

    ’’نہیں رانی۔‘‘ شوشی نے کہا، ’’دو پہئے برابر نہیں۔ کارن یہ کہ پرش کا پہیہ چلے ہے۔ استری کھالی سجاوٹ کے لئے ہے۔ چلتا نہیں۔‘‘

    باندی نے وجے کو بہت سمجھایا پر وہ نہ مانی۔ بالکا رک گیا۔ پھر اس نے سر اٹھا کر بملا شیلا کی طرف دیکھا۔ بولا، ’’کنیاؤ! جس کے من میں سچ کی ڈھونڈ کا کیڑا لگ جائے پھر جیون بھر اسے نہ سکھ ملتا ہے نہ شانتی۔‘‘

    ’’یہ کیا کہہ دیا بالک مہاراج؟‘‘ داس بولا۔

    دوار کا داس بالک نے کہا، ’’سچ کو اپناؤ، سچ جیو پرنتو سچ کی ڈھونڈ میں نہ نکلنا۔ سدا چلتے رہو گے۔ چلنے کے بھر میں آ جاؤ گے۔ نہ رستہ ہو گا۔ نہ ڈنڈی، نہ اور۔۔۔ اور نہ کہیں پہنچو گے۔ صرف چلنا، چلتے رہنا۔‘‘ بالکے نے آہ بھری اور کہانی سنانے لگا، ’’لاکھ سمجھانے پر بھی وجے رانی سچ کی ڈھونڈ میں چل نکلی۔ سب سے پہلے اس نے مہاراج کو پرکھنے کی ٹھانی کہ وہ مجھے برابر کا جانیں ہیں کہ نہیں۔ اس کے من میں چنتا کا کانٹا لگ گیا۔ جوں جوں اس کی چنتا بڑھتی گئی، توں توں مہاراج اسے اپنے دھیان کی گود میں جھلاتے گئے۔ اس کے سامنے یوں سیس نواتے گئے جیسے وہ سچ مچ کی دیوی ہو۔ جوں جوں وہ دیوی کو مناتے گئے، توں توں رانی کی کلپنا بڑھتی گئی مہاراج مجھے مورتی نہ بنائیے۔ مندر میں نہ بٹھائیے۔ اپنے پاس بٹھائیے، اپنے برابر جانئے۔

    مہاراج کو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ برابر کیسے جانیں۔ جسے دھیان دیا جائے۔ مان دیا جائے، اونچا بٹھایا جائے، وہ برابر کیوں چاہے۔ جسے سارا دیا جائے وہ آدھا کیوں مانگے؟ وجے رانی کو جلد ہی پتہ چل گیا کہ مہاراج اسے دیوی کے سمان بنا سکتے ہیں، مہارانی بنا سکتے ہیں، چہیتی سمجھ سکتے ہیں، ساتھی نہیں بنا سکتے۔ یہ جان کر وجے نے ٹھان لی کہ وہ راج بھون کو چھوڑ دے گی۔ رانی نہیں بلکہ استری بن کر جئے گی۔ سندرتا کے جور پر نہیں، جیؤ کے جور پر۔ بھبھوت مل کر سندرتا چھپائے رکھے گی اور کسی کے ساتھ بیاہ نہ کرے گی جب تک وہ اسے برابر کی نہ سمجھے، ساتھی نہ جانے۔

    پھر ایک رات جب گرج چمک جوروں پر تھی اور راج بھون کے چوکیدار کونوں میں سہمے بیٹھے تھے تو وجے نے بھیس بدلا اور شوشی کو ساتھ لے کر چور دروازے سے باہر نکل گئی۔ چلتے چلتے وہ راج نگری سے دور ایک شہر میں رکیں۔ وجے گجارے کے لئے پھلکاریاں بناتی، شوشی انہیں باجار میں بیچ کر دیتی۔

    کچھ دنوں میں وجے کی پھلکاریوں کی مانگ بڑھ گئی، ’’اتنی صاف ستھری پھلکاریاں کون بناوے ہے؟‘‘ منڈی میں باتیں ہونے لگیں۔ پھر بدیش سے ایک گھبرو بیوپاری آنند آ نکلا۔ پھلکاریاں دیکھ کر بھونچکا رہ گیا۔ اس نے شوشی کو ڈھونڈ نکالا۔ بولا، ’’یہ پھلکاریاں کون کاڑھتی ہے؟ مجھے اس کے پاس لے چل۔‘‘ شوشی اسے گھر لے آئی۔ وجے کو دیکھ کر وہ پھلکاریاں بھول گیا۔ وجے پھلکاریاں دکھاتی رہی۔ آنند وجے کو دیکھتا رہا۔ وجے سمجھتی تھی کہ بھبھوت سندرتا کو ڈھانپ لیتی ہے۔ آنند سوچتا رہا کہ جس گن کو استری اچھالتی ہے، یہ شریمتی اسے چھپا رہی ہے۔ اوش کوئی بھید ہے۔

    آنند بہت سیانا تھا۔ اس نے شہر شہر کا پانی پی رکھا تھا۔ اس نے سوچا، پاؤں دھیرے دھیرے دھرو۔ بڑی پھسلن ہے اور جوگرا تو یہاں سہارا دے کر اٹھانے والا کوئی نہیں۔ پہلے تیل دیکھ، تیل کی دھار دیکھ، پھر پاؤں دھرنا، تو وہ تیل کی دھار جانچنے کے لئے پھلکاریوں کے بہانے وجے کے گھر آنے جانے لگا۔

    دوچار پھیروں میں اسے پتہ چل گیا کہ سندرتا کی بات نہیں چلے گی۔ پریم کی بات نہیں چلے گی۔ ملائم بات نہیں چلے گی، لگاؤ کی نہیں، بے لاگ، کھردری، گنوار۔ وہ بولا، ’’بی کاڑھن۔ تو تو چیونٹی کی چال چلے ہے۔ پر مجھے تو بہت سی پھلکاریاں چاہئیں تاکہ انہیں بیچ کر اپنا پیٹ پال سکوں۔‘‘

    پھر چار ایک دن کے بعد آنند وجے سے بہت بگڑا۔ سب جھوٹ موٹ، بولا، ’’تو کام چور ہے ری۔ میں تیرے سر پر بیٹھ کر کام کراؤں گا۔‘‘ اس بہانے وہ سارا سارا دن وجے کے گھر رہنے لگا۔ جوں جوں وہ اس کے نیڑھے ہوتا گیا۔ اس کا من ہاتھوں سے نکلتا گیا۔ پھر ایک دن آنند نے اس کی بانہہ پکڑ لی۔ بولا، ’’بی کاڑھن میرا دھندا نہیں چلتا۔ اتنی کمائی بھی نہیں ہوتی کہ سوکھا گجارا کر سکوں۔ جو تو مجھ سے بیاہ کر لے تو جیون سکھی ہو جائے۔ تو پھلکاریاں کاڑھے، میں انہیں بیچوں، کام تیرا، دوڑ دھوپ میری۔‘‘

    وجے اس کی چال میں آ گئی، اس کی ممتا جاگ اٹھی، بولی، ’’میں تو اس سے بیاہ کروں گی جو پتنی کو برابر کا سمجھے۔ نہ اسے دیوی بنائے نہ باندی۔ اپنا جیون ساتھی جانے، دکھ سکھ کا ساتھی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ آنند بولا، ’’تو میری ساتھن ہے، ساتھن رہے گی۔‘‘

    جب وجے دلہن بنی تو بھبھوت کا پردہ بھی اٹھ گیا۔ اندر سے رانی نکل آئی۔ آنند دھک سے رہ گیا۔ پر بھو ایسی مورتی!‘‘ بالکا رک گیا۔ داس منہ کھولے بیٹھا تھا۔ چولہا جل رہا تھا۔ توا جو کھالی پڑا تھا تپ تپ کر کالا ہو گیا تھا۔ پیڑا ہاتھ میں یوں دھرا تھا جیسے بالک کے ہاتھ کا کدو ہو۔ شیلا کی نگاہیں گھاس پر بچھی ہوئی تھیں جیسے ڈھونڈ میں لگی ہوں۔ بملا کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔ اب روئی کہ اب روئی۔ ٹیلے پر سائے منڈلا رہے تھے۔ بادلوں میں آگ چل رہی تھی۔ شام دبے پاؤں جا رہی تھی۔ رات اپنے پر پھڑپھڑا رہی تھی۔

    ’’پھر کیا ہوا بالک جی؟‘‘ داس نے جیسے ہچکی لی۔ بالک بولا، ’’آنند بہت بڑا سوداگر تھا۔ حویلیاں تھیں، نوکر چاکر تھے۔ دھن دولت تھی۔ کس بات کی کمی تھی اسے، وہ تو وجے کو رام کرنے کے لئے اس نے نردھن کا سوانگ رچایا تھا۔ بس ایک بات سچ تھی۔ وہ تن من دھن سے وجے کا ہو چکا تھا۔‘‘

    اس کا باہر جانے کو جی نہیں چاہتا پر کیا کرتا، اتنا بڑا بیوپار تھا۔ اس کی دیکھ بھال تو کرنی ہی تھی۔ اسے جانا ہی پڑتا۔ پھلکاریاں بیچنے کے بہانے چلا جاتا، دنوں باہر رہتا۔ چلا جاتا تو جیسے گھر کا دھیان ہی نہ ہو۔ آجاتا تو جیسے جانے سے ہول کھاتا ہو۔ پھر یہ بھی تھا کہ اس نے وجے کو پھلکاریاں کاڑنے سے روک دیا تھا۔ بولا، ’’پتنی تو سال میں ایک ٹھاٹھ کی پھلکاری بنا دیا کر۔ ایسی جو راجا رانی جوگی ہو۔ ایسی جو ایک بیچ لی تو گھر میں لہر بہر ہو گئی۔‘‘

    اس پر وجے سوچ میں پڑ گئی۔ سوچتی رہی، سوچتی رہی۔ جب وہ آیا تو اسے کہنے لگی، ’’رے تو مجھ سے اپنے بیوپار کی بات کیوں نہیں کرتا‘‘

    آنند نے جواب دیا، ’’ساتھن بیوپار میں اونچ نیچ ہوتی ہے۔ پھن پھریب ہوتا ہے۔ چھل بٹے ہوتے ہیں، بیوپار کی بات سن کر کیا کرے گی؟‘‘

    وجے بولی، ’’دیکھ میں تیری ساتھن ہوں، برابر کی ساتھن اور ساتھی کھالی سکھ کا نہیں ہوتا، دکھ کا بھی ہوتا ہے۔ اونچ کا نہیں نیچ کا بھی ہوتا ہے۔ تو مجھے اپنے بیوپار کی ساری بات بتا۔ اپنے دکھ گنوا۔‘‘

    اس پر آنند نے ایک لمبی چوڑی طوطا مینا کی کہانی سنا دی کہ کس طرح نگر نگر پھرا۔ راجاؤں، رانیوں سے ملا۔ انہیں پھلکاری دکھائی اور انت میں اک راج نر تکی پھلکاری کو دیکھ کر اس پر لٹو ہو گئی۔ بولی، ’’بول بیوپاری منہ مانگے دام دوں گی۔‘‘

    اس رات وجے کو یوں لگا جیسے آنند اس کا جی بہلانے کے لئے کہانی سنا رہا ہو۔ سلانے کے لئے لوری دے رہا ہو۔ اس پر وہ سوچ میں کھو گئی۔ من میں گھنڈی پڑ گئی، بولی، ’’شوشو یہ تو وہ نہیں جو یہ کہے ہے۔ جو بھید ہی نہ دے، وہ ساتھی کیا بنے گا۔‘‘

    ’’دیکھ رانی۔‘‘ شوشی بولی، ’’وہ اوش بھید رکھے ہے پر اس کے من میں دوج نہیں، کھوٹ نہیں، پرش پتنی کو اپنے بیوپار کا بھید کبھی نہیں دیتا، وہ اسے ساری بات کبھی نہیں بتاتا۔ جرور ڈنڈی مارے ہے، یہی جگ کی ریت ہے۔‘‘

    ’’تو کیا وہ استری کو اس جوگا نہیں جانتا کہ ساری بات جانے، یہ تو ساتھ نہ ہوا برابری نہ ہوئی۔ جا شوشی منڈی میں جا کر پوچھ گچھ کر، اس کے بھید کا پتہ لگا۔‘‘

    شوشی نے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ آنند تو ایک راج بیوپاری ہے۔ اس نے بیجانگری کی مہارانی کے لئے شیش بھون بنوانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ جب وجے نے یہ سنا تو اس کا دل ٹوٹ گیا، ’’تو پھلکاریاں بیچ کر گجارہ کرنے کی بات اک بہانہ تھی۔ کیوں شوشی۔۔۔ تو کیا کہتی ہے؟‘‘

    شوشی نے وجے کو بہت سمجھایا بجھایا کہ دیکھ دئیا اس سے اچھا جیون ساتھی تجھے نہیں ملے گا۔ اس سے جیادہ برابری کوئی نہیں دے گا لیکن وجے نہ مانی۔ شوشی اتنے پردے اوپر کچھ، بھیتر کچھ، نہ شوشی جہاں پردے ہوں، جھوٹ ہو، دکھاوا ہو، برابری کیسی۔ چل شوشی کسی ایسی جگہ چلیں جہاں پردہ نہ ہو، جھوٹ نہ ہو، اب یہاں میرا دم گھٹتا ہے۔‘‘ بالکا رک گیا۔

    ’’تو کیا وجے آنند کو چھوڑ کر چلی گئی؟‘‘ شیلا نے پوچھا۔

    ’’ہاں!چلی گئی۔‘‘ بالکا بولا۔

    بملا نے ایک لمبی آہ بھری۔

    ’’پھر وے کہاں گئی؟‘‘ داس نے پوچھا۔

    پہلے وہ ایک پجاری کے پھندے میں پھنس گئی۔ پجاری نے اسے داسی بنا لیا۔ پر بھوکی داسی، پھر آپ پر بھوبن بیٹھا۔ وہاں سے بھاگی تو ایک نر تکی کے جال میں جا پھنسی۔ اس نے اسے اپنے چوبارے میں سجا لیا۔ چوبارے سے اسے ایک راج گائیک لے اڑا۔ وہاں سے بھی اسے برابری نہ ملی۔ گائیک سارا دن ستار سینے سے لگائے رکھتا۔ پھر تھک کر ماندگی اتارنے کے لئے وہ وجے سے دل بہلاتا۔

    ’’چل شوشی۔‘‘ ایک دن وجے نے کہا، ’’یہاں تو راگ ودھیا کا راج ہے۔‘‘ شوشی بولی، ’’دئیا جو چاہے ہے، وہ ادھر نہیں ملے گا۔ جہاں دھنوان بستے ہیں۔ وہ ادھر ملے گا جہاں نردھن بستے ہیں۔ کامی بستے ہیں، جہا ں پرش پتنی کے سہارا لیے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ جہاں پتنی نہ موہ ہوتی ہے نہ مایا۔ بس اک باجو ہوتی ہے۔ پہلے سہارا ہوتی ہے، پھر کچھ اور۔ جہاں دوجے کے بنا گجارا نہیں ہوتا۔ وہاں استری کو برابری مل جائے تو مل جائے۔‘‘

    ’’وہ کون سی جگہوں ہے؟ کہاں ہے شوشی؟‘‘ وجے نے پوچھا۔

    ’’وہ جگہ وہاں ہے جہاں دھن کا جور نہیں ہوتا۔ کام کا ہوتا ہے۔ دیکھو دئیا تو مان نہ مان۔ پرنتو استری جیو کی دھرتی ہے۔ جس کے دم سے جیو کونپل ہری رہتی ہے۔ استری کی سار وہی جانے ہے۔ جو دھرتی کی سار جانے ہے، جو بوٹا لگانا جانے ہے، جو کھیتی اگائے ہے۔ جس کا گجارا دھرتی کی پیدا پر ہے۔ بس وہی استری کو باجو سمجھے ہے۔ اپنے سا جانے ہے۔‘‘

    وجے کے دل پر بات اتر گئی۔ اک بار پھر وہ گھر چھوڑ کر نکل گئیں۔ شہر سے دور گاؤں کی اور۔ شوشی نے وجے کو موٹے کپڑے پہنا دیئے۔ منہ پر ہلدی مل دی، کالک کا ابٹن مل دیا۔ بولی، ’’یہاں استری استری ہوتی ہے۔ گن کے جور پر نہیں، جیو کے جور پر۔ یہاں سندرتا شوبھا نہیں رستے کی روک ہے۔ تو اپنی سندرتا کو چھپا رکھنا، جو نجر آ گئی تو گڑبڑی ہو گی۔‘‘

    ’’شوشی۔‘‘ وجے بولی، ’’میں اس سندرتا کے کارن بڑا دکھی ہوں۔ کوئی بس بھری بوٹی ڈھونڈ لا کہ میں مکھ پر مل لوں جو سندرتا کی کاٹ کر دے۔‘‘

    شوشی ہنسی۔ بولی، ’’بھولی رانی، سندرتا مکھ پر نہیں ہوتا۔ سارے پنڈے میں ہوتی ہے۔ انگ انگ سے پھوٹی ہے۔ بات ہلانے میں ہوتی ہے۔ پگ دھرنے میں ہوتی ہے۔ آنکھ اٹھانے میں ہوتی ہے۔ ہونٹ کھولنے میں ہوتی ہے۔ تو اسے اپنے سبھاؤ سے کیسے نچوڑ پھینکے گی؟‘‘

    گاؤں میں پہنچ کر انہوں نے ایک جھگی میں ڈیرا کر لیا اور کھیت میں کپاہ کے پھول چننے لگیں۔ ایک دن لاکھا کسان نے وجے سے کہا، ’’تو کیسی جنانی ہے ری۔ تیری انگلیاں تو قینچی سی چلتی ہیں۔‘‘ اس نے وجے کا ہاتھ پکڑ لیا۔ انگلیاں دیکھیں تو سٹپٹا گیا۔ ’’ری یہ کیسی انگلیاں ہیں؟ انگلیاں ہیں یا کہ رس بھری پھلیاں۔ اتنی لمبی اتنی پتلی۔‘‘

    پھر وہ روز اس کی چلتی چنتی انگلیاں دیکھنے لگا۔ دیکھتے دیکھتے ایک دن انگلیاں پکڑ کر بولا، ’’ری تو میرے گھر کیو نہیں بیٹھ جاتی۔ میں اکیلا ہوں۔ پتا جی پرماتما کو پیارے ہو گئے۔ ماتا بہت بوڑھی ہے۔ میرا ہاتھ نہیں بٹا سکتی۔ بھائی بہن ہیں نہیں۔ اکیلا ہوں۔ تو میرا باجو بن جا ری۔ میں ہل چلاؤں گا تو بیج ڈال۔ میں پانی دوں گا تو کھیت کی بوٹی چن۔ میں گیہوں کاٹوں گا تو دانے نکال۔ پھر ہم کسی سے ہیٹے نہیں رہیں گے۔ جو آدھا ہوں، پورن ہو جاؤں گا۔‘‘ اس کی بات میں نہ موہ تھی نہ کامنا، نہ لوبھ۔

    وجے کو اپنی شرط بھی بھول گئی۔ اس نے ہاں کر دی۔ پھر وہ دونوں کھیت پر کام میں جت گئے۔ لاکھ نہ اسے نرمل سمجھتا نہ ماڑی۔ نہ سندر نہ دیوی۔ وہ تو اس کا باجو تھی۔ پھر کوئی بات اس سے چھپاتا بھی تو نہ تھا۔ کیسے چھپاتا۔ ہر سمے وہ دونوں اکٹھے رہتے۔ کھیت میں، گھر میں، ہر بات میں اس کی مرضی پوچھتا۔ کام میں اسے ذرا چھوٹ نہ دیتا۔ وجے نہال ہو گئی۔ سمجھی جیسے جل ککڑی جوہڑ میں آ گئی ہو۔

    لاکھے کسان کو وجے کی ایک بات پر بڑی چڑ تھی۔ کہتا، ’’ری تو گندی کیوں رہتی ہے۔ نہاتی دھوتی کیوں نہیں؟ منہ پر جردی چھائے رہتی ہے۔ الیاں بلیاں لگی رہتی ہیں۔ بال چکٹ۔ آنکھوں میں کیچ۔‘‘ وجے یہ سن کر گردن لٹکا لیتی۔

    ایک دن جب وہ دونوں ندی کے کنارے کھڑے تھے تو لاکھا نے تاؤ کھا کر بالٹی اٹھائی اور وجے پر انڈیل دی۔ پھر بالٹی پر بالٹی گرانے لگا۔ وجے بھاگی تو اس نے اسے پکڑ کر ندی میں چھلانگ لگا دی اور اسے یوں دھونے اور مانجھنے لگا جیسے وہ کوئی رسوئی کی گڈوی ہو۔ پھر جب وہ اسے کھینچ کر پانی سے باہر لایا تو اسے دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ سنہرے لانبے بال۔ مور سی گردن، کٹورہ سی آنکھیں، دھار سی ناک، پھول سے ہونٹ، چھوئی موئی سا بدن۔۔۔ ’’تو کون ہے ری؟‘‘ وہ گھگھیا کر بولا، ’’تو استری نہیں۔ تو تو پری ہے ری پری۔‘‘

    بالکا کچھ دیر کے لئے چپ ہو گیا، ’’بس اس دن سے لاکھے کے من میں جھجھک بیٹھ گئی اور وہ وجے سے دور ہٹتا گیا۔ وجے نے بار بار اسے سمجھایا۔ ’’دیکھ لاکھے میں پری نہیں، استری ہوں۔ استری۔‘‘ پر اس کی جھجک نہ گئی۔ بولا، ’’تو پری نہیں تو استری بھی نہیں۔ تو مور ہے میں کاگ ہوں، تیرا میرا کیا سمبندھ؟ کارن یہ کہ تو کامیوں میں سے ناہیں۔‘‘

    کچھ دن وجے اس کا منہ تکتی رہی۔ پھر نراش ہو گئی، پھر ایک دن وہ شوشی سے بولی، ’’چل شوشی۔ یہاں ہمارا دانا پانی کھتم ہو گیا۔‘‘

    شوشی نے سر جھکا لیا اور جوں کی توں بیٹھی رہی۔ جیسے بات سنی ہی نہ ہو۔ کچھ دیر وہ اسے دیکھتی رہی۔ پھر بات اس کی سمجھ میں آ گئی۔ شوشی اب لاکھے کی ہو چکی تھی۔

    وجے کا دل دھک سے رہ گیا اور وہ چپ چاپ اکیلی باہر نکل گئی۔

    بالکا چپ ہو گیا۔ سبھی چپ ہو گیے تھے۔

    کسی کو ’’پھر کیا ہوا‘‘ پوچھنے کا دھیان نہ رہا تھا۔

    پھر بالکے نے کہا، ’’پھر پتہ نہیں۔۔۔ کہتے ہیں۔ وہ آج تک برابری کی ڈھونڈ میں بھٹکتی پھر رہی ہے۔‘‘

    ’’آج بھی آدھی رات کے سمے راج گڑھی سے آواجیں آتی ہیں۔۔۔ پربھو باہر کی سندرتا کو بھیتر میں رچا دے کہ استری، استری بن جائے۔۔۔ پرش کی کامنا کے ہاتھ کا کھلونا نہ رہے۔‘‘

    بالکا چپ ہو گیا، ٹیلے پر خاموشی چھا گئی۔ پھر کوئی دور سے بولا۔ وجے رانی نے سچ کو پا لیا۔ جو اپنی سندرتا کو اچھالتی ہیں۔ بناؤ سنگھار کا راکشش کھڑا کر لیتی ہیں، انہیں برابری مانگنے کا کوئی ادھیکار نہیں۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا۔ سوامی جی دوار کے باہر کھڑے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے