ہائی وے پر ایک درخت
گردن میں پھندا سخت ہوتا جا رہا تھا۔ آنکھیں حلقوں سے باہر نکلنے کے لئے زور لگانے لگی تھیں۔ منھ کا لعاب جھاگ بن کر ہونٹوں کے کونوں پر جمنے لگا تھا۔ موت اور زندگی کے درمیان چند لمحوں کافاصلہ اب باقی رہ گیا تھا۔ دم نکلنے سے پہلے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس نے شاخ کو دیکھا، جس میں وہ لٹکا دیا گیا تھا۔ وہ ہرابھرا نیا نیا جوان ہوا ایک درخت تھا۔ سڈول تنا، گھنی گھنی اجلی اجلی پتیاں، لچکیلی اور شاداب شاخیں۔
جس وقت اس کا بھاری بھرکم جسم شاخ میں لٹکایا گیا تھا اور اس کے بوجھ سے شاخ ہوا میں اوپر نیچے جھولی تھی اور اس کا لٹکا ہوا جسم رسی کے سہارے اوپر نیچے ہوا تھا اور تلوے ایک بار زمین سے چھوگیے تھے تو اس کے کانوں میں درخت کی شاخ سے ہلکی سی چرچراہٹ کی آواز سنائی دی تھی۔
جن قزاقوں نے اسے لٹکایا تھا وہ سب اپنے تنومند اور مچلتےہوئے گھوڑوں کو ایڑ لگاکر اپنے راستے پر ہو لیے تھے۔ اس نے ابلتی ہوئی آنکھوں سے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑتی ہوئی گرد کو ایک پل کے لیے دیکھا تھا اور پھر اسے لچکتی ہوئی شاخ کی چرچراہٹ نے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ اس نے اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے جن میں ابھی بصارت کی آخری کرن باقی تھی، اس جھولتی ہوئی شاخ کو دیکھا تھا۔ شاخ بہت موٹی نہ تھی اور اس کی لچک سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس کے بوجھ کے پہلے جھٹکے پر کچھ چوٹ کھا گئی ہو۔ وہ اس طرح جھول رہی تھی جیسے اب ٹوٹی اور تب ٹوٹی۔ لیکن دماغ کے کسی گوشے میں وہ اس بات سے بھی باخبر تھا کہ چوٹ کھائی ہوئی شاخ نرم تھی، گیلی تھی۔ اس کی تازگی کے سبب شاخ کے سارے ریشے، ریشم کے دھاگوں کی طرح آپس میں مل کر مضبوط ہو چکے تھے۔ اگر وہ شاخ سوکھی ہوتی تو ریشے جگہ چھوڑ دیتے، لچکتے نہیں ٹوٹ جاتے اور حقیقت صرف اتنی تھی کہ شاخ صرف اس کے جسم کے ساتھ جھول رہی تھی۔
وہ سب اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگاکر ہائی وے پر فرار ہو چکے تھے اور درخت سے کچھ ہی فیصلے پر حد نظر تک لیٹی ہوئی پکی چمکیلی اور سیاہ ہائی وے سنسان پڑی تھی۔
درخت کے پرے، کچھ ہی فاصلے پر وہ رہتا تھا۔ قزاقوں نے اس پر حملہ کیا تھا، جس کا اس آدمی نے خاصہ مقابلہ کیا تھا۔ بلکہ ایک کے منھ پر اس نے تھوک بھی دیا تھا۔ آخرکار جب وہ بےبس ہو گیا تو اس نے ہاتھ پیر ڈال دیے۔ جب قزاقوں نے اس کی تلاشی لی تو انھیں یہ دیکھ کر شدید غصہ آیا کہ اس کے پاس ان کے مطلب کی کوئی چیز نہیں تھی۔ جس قزاق کے منھ پر تھوکا گیا تھا وہ سب کا سردار تھا۔ سردار نے اسے سر کے بال پکڑ کر گھسیٹا اور ایک قزاق سے کہا،’’حرام زادے کے پاس نکلا بھی کچھ نہیں، لٹکا دو کم بخت کو۔ ‘‘
پھر اس نے دیکھا کہ ان میں سے ایک نے بڑے آرام سے زمین پر کھڑے کھڑے بڑی آسانی کے ساتھ درخت کی ایک شاخ پر رسی پھندا دی اور پھر اس کی گردن کو رسی کے ایک سرے میں پھنسا کر دوسرے سرے کو کھینچ لیا اور درخت کے تنے سے باندھ دیا۔ گھٹے ہوئے گلے کے ساتھ اس کی باہر نکلی ہوئی آنکھوں میں بصیرت کی جو آخری کرن باقی تھی اس کے سہارے اس نے مرنے سے پہلے بہت کچھ دیکھ لیا۔
بس وہ پل۔۔۔ آخری کرن کے ڈوبنے سے پہلے کا لمحہ۔ اس پل جب وہ لچکتی ہوئی شاخ کے چرچراکر ٹوٹ جانے کی ایک ہلکی سی امید لیے اس پر آنکھیں ٹکائے تھا، اسے وہ دن یا دآیا جب وہ درخت ایک ننھا سا پودا تھا۔ اس پودے کی تازگی، اس کا بےزور سا خوبصورت اور معصوم وجود، وہ بھی ایک بھاری بھرکم اور لحیم شحیم سڑک کے کنارے۔ اس وقت اس پودے کی اونچائی مشکل سے اس کے گھٹنوں سے تھوڑا نیچے ہی رہی ہوگی۔ وہ ایک لمحہ اس پودے کے قریب ٹھہر گیا تھا اور پیا رسے اس تروتازہ ننھے سے خود رو پودے کو دیکھتا رہا تھا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ یہ ننھا سا پودا ہائی وے کے اس قدر قریب اگا ہے کہ کسی بھی بھاری بھرکم ٹرک، لاری یا جیپ کے پہیے کی زد میں آکر کچل سکتا تھا۔
اسے حیرت تھی کہ ابھی تک یہ پودا کس طرح سڑک کے نیچے اتر جانے والے پہیوں کی زد سے بچا رہا۔ کسی چرند نے بھی اسے نہیں دیکھا اور تب ہی اس نے سوچا تھا کہ اگر یہ پودا بچ جائے تو ہو سکتا ہے پروان چڑھ کر ایک گھنا درخت بن سکے، پھر اسے یہ بھی خیال آیا کہ ہائی وے کے دونوں کنارو ں پر دور دور تک کوئی درخت نہیں تھا۔ تبھی اس نے کچھ پتھر اٹھاکر اس پودے کے چاروں طرف رکھ دیے تھے۔ ایک دن ان پتھروں کے گھیرے میں کھڑے پودے کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا تھا۔ پودے کی تازگی میں کمی آ گئی تھی۔ اسے خیال آیا پودے کو پانی کی ضرورت ہے پھر ہر دوسرے تیسرے روز اس پودے کو پانی دینا اور اس کا خیال رکھنا اس آدمی کامعمول بن گیا۔
پھر یہ ہوا کہ جیسے جیسے وہ پودا بڑھتا گیا، اس آدمی کی دلچسپیاں بھی بڑھتی گئیں۔ اس نے اپنی کمر سے بھی اونچے ہونے والے پودے کے چاروں طرف لکڑی کا ایک جنگلہ سا بناکر لگا دیا تھا تاکہ جانور اس کی پتیاں نہ چبا سکیں۔ پودے کے چاروں طرف اس نے گڑھا کھود کر اچھی مٹی اور کھاد بھی ڈالی تھی۔ دھیرے دھیرے کچھ جانے اور کچھ انجانے میں وہ اس پودے کی خدمت کرتا رہا۔ پودا بڑھا، اس کا تنا موٹا ہوا، شاخیں پھیلیں، لیکن اس درخت کے پورے وجود میں ایک نمی اور لچیلا پن سا قائم رہا۔ جس توانائی، مضبوطی، بلندی اور استقامت کی ایک ہرے بھرے درخت کو ضرورت ہوتی تھی وہ اس میں نہ آتی تھی۔ اس کے ذہن پر اندھیرا سا چھا رہا تھا۔ لیکن مرتے مرتے زندگی کے گزرے ہوئے مناظر بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اس کے سامنے آ جا رہے تھے۔ اسے یاد آیا وہیں کہیں ایک اسکول کے ننھے منے بچے پکنک پر آئے تھے اور جب یکایک بارش آ گئی تھی اور اس ننھے سے درخت نے ان میں سے کچھ بچوں کو اپنے نیچے اپنی بساط بھر پناہ دی تھی تو اسے بڑا اچھا لگا تھا۔
آج ہائی وے کے کنارے کھڑے ہوئے اس درخت کی شاخ میں رسی سے بندھا وہ جھول رہا تھا اور جس کے بوجھ سے اس کی گردن کی ہڈی ریڑھ کی ہڈی سےٹوٹ کر الگ ہونے جا رہی تھی۔ اس کی موت تیزی سے سرکتی ہوئی گلے کی شریانوں کے اندر سے گزرتی ہوئی اس کی آنکھوں کے حلقوں میں پہنچ کر انہیں ٹھیل رہی تھی۔ اس کی زبان دانتو ں سے قدرے باہر آ گئی تھی۔ چہرہ پہلے نیلا اور پھر کالا ہو چلا تھا۔ جھولتی ہوئی شاخ اب لگ بھگ ساکت ہو چلی تھی۔
تبھی اس کی آنکھوں کی ڈوبتی ہوئی روشنی نے دیکھا۔ اس تنہا درخت کے پاس جیسے سلسلے وار گھنے گھنے بھرے بھرے بدن والے بھاری بھرکم درخت اگتے چلے جا رہے ہیں، موٹی موٹی شاخوں والے سایہ دار درخت اتنے اونچے کہ ان کی شاخو ں پر زمین پر کھڑے کھڑے رسی کا پھندا ڈالنا اتنا آسان نہ تھا۔ اپنی اس خام خیالی اور فریب نظر پر وہ مسکرا دیا۔ اس کی یہ ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر جم گئی اور وہ مر گیا۔
اسی عرصے میں اس کے کانوں نے ایک آواز سنی جو ہائی وے کی دوسری سمت سے آ رہی تھی۔ دور، بہت دور گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمین کانپ رہی تھی۔ یہ آوازیں جانے والے گھوڑوں کی نہیں بلکہ آنے والے گھوڑوں کی تھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.