دھوپ کی تلاش
جیسے کوہ قاف کی کوئی ناراض اور پاگل سی پری اپنے داہنے ہاتھ میں جادو کی چھڑی گھماتی ہوئی زمین پر اتری ہو اور غصے سے چیخ کر بولی ہو ’’سروناش‘‘!
بالکل ایسا ہی اگلی صبح ہوا تھا۔ اپنے اپنے کاموں پر جانے کے لئے حسب معمول سو کر اٹھنے والے لوگ مقررہ وقت پر ہی اٹھے تھے مگر یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے تھے کہ ان کا سامنا آدھی رات کے گھپ اندھیرے سے ہوا تھا۔ وہ صبح اور صبحوں کی طرح نہیں تھی۔ لوگوں کی نیند کے دوران ہی کوہ قاف کی پری اپنا پاگل غصہ اتار کر جا چکی تھی۔
چاروں طرف اندھیرا اور خاموشی کا راج تھا۔ اندھے کنویں سا اندھیرا اور اجاڑ کھنڈ سی خاموشی۔ کچھ دیر تک سب نے الگ الگ سوچا تھا کہ شاید ان کی نیند آدھی شب میں ہی کھل گئی ہے۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور گھڑیوں کی سوئیاں دن شروع ہو جانے کا اشارہ کرکے آگے بڑھ گئیں تو لوگ چونک کر بستروں سے اتر پڑے۔ کسی انہونی کے خوف سے ان کے دل ڈوبنے لگے اور زبانیں اینٹھنے لگیں۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا اور سب اپنے اپنے خوف کی گرفت میں جکڑے سہمے سہمے اور خاموش خاموش تھے۔
آخر جب کام پر جانے کی دیر ہونے لگی تو لوگ سنبھل سنبھل کر پورے اندھیرے میں اپنی آنکھیں گاڑ کر آہستہ آہستہ باہر نکل پڑے۔ روزی روٹی کا انتظام کرنے تو انہیں جانا ہی تھا۔
باہر بھی پورا اندھیرا تھا اور پورا سناٹا۔ لوگ بےحد خاموش اور خوف زدہ تھے۔ سڑکیں روز کی طرح بھیڑ اور شور سے پر نہیں تھیں۔ لوگ ٹٹول ٹٹول کر اندھیرے میں راستہ ڈھونڈتے ہوئے سر جھکائے چل رہے تھے۔ پورا شہر جیسے اپنے کسی بے حد عزیز کے جنازے میں شریک اور گم سم تھا۔
اخبار والے چیخ چیخ کر اخبار نہیں بیچ رہے تھے۔ رکشہ، تانگے کا کوئی شور نہیں تھا۔ بسوں کے ہارن بےوجہ نہیں چیخ رہے تھے۔ فٹ پاتھوں پر بھکاری بھیک نہیں مانگ رہے تھے۔ پھلوں اور سبزیوں کے ٹھیلے بیچ سڑک میں نہیں کھڑے تھے۔ بچوں کے جھنڈ ہنستے بولتے اسکول نہیں جا رہے تھے اور نعرے لگاتے ہوئے جلوسوں نے ٹریفک جام نہیں کیا تھا۔ پورا شہر ایک طلسمی ڈھنگ سے منظم اوردہشت زدہ بن گیا تھا۔ عمر کی آخری سیڑھیوں پر پاؤں لٹکائے تجربہ کار بوڑھوں کی طرح پورا شہر کمر جھکاکر اور چونک چونک کر اپنے کام پر جا رہا تھا۔ اندھیرے کی دہشت نے پورے شہر کو ایک ساتھ منظم، پرسکون اور شریف عوام میں تبدیل کر دیا تھا۔ سورج ابھی تک نہیں نکلا تھا۔ شہر کے بےحساب سونے پن کو چیرتی ہوئی پولیس کی گاڑیاں تیزی سے ادھر ادھر گھوم رہی تھیں اور کسی بھی مکان، دوکان یا شخص کے سامنے اچانک رک جاتی تھیں وہ شخص، دوکان یا مکان بھر بھراکر گر پڑتا تھا۔ جگہ جگہ پولیس کی ٹکڑیاں ہاتھوں میں بندوق لے کر حملے کی سی تیاری میں کھڑی تھیں۔
سورج طلوع ہونے کے انتظار میں بے چین ایک شخص نے وقت پوچھنے کے لئے ایک دوسرے آدمی کے کندھے پر اچانک ہاتھ رکھا تو دوسرا آدمی دونوں ہاتھ اوپر اٹھاکر گڑ گڑا پڑا، ’’میں بےقصور ہوں۔ میرا کسی بھی آدمی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں گذشتہ پانچ سالوں سے سرکاری دفتر میں نوکر ہوں۔ آپ چاہیں تو میرا شناختی کارڈ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
وقت دریافت کرنے والا شخص اچانک اس حادثے سے بوکھلا گیا۔ اسے بہت دکھ ہوا کہ اس نے ایسے گمبھیر اور نازک وقت میں ایک شریف آدمی کو بلاوجہ ڈرا دیا۔ ابھی وہ اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہوکر معافی مانگنے کی بات پر غور کر ہی رہا تھا کہ پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ افواہیں پھیلانے، دہشت پیدا کرنے اور امن پسند لوگوں کو تنگ کرنے کے جرم میں اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ایک پان کی دوکان پر تین آدمی اس اچانک اندھیرے کو لے کر باتیں کر رہے تھے کہ پولیس ان کے پاس پہنچ گئی۔ دیش دروہ کی باتوں کا پرچار کرنے کے الزام میں تینوں کو حراست میں لے لیا گیا اور پان والے کی دوکان پر سرکاری تالا ڈال کر پان والے کو بھی پولیس وین میں بٹھا دیا گیا۔
اندھیرا ابھی تک قائم تھا۔ لیکن اب تک لوگوں کی آنکھیں، کان اور قدم اندھیرے کے عادی ہو گئے تھے۔
لالہ جی کی آنکھیں پھٹ گئیں۔
انہیں لگایا تو ان کا ذہن ہی کند ہو گیا ہے یا پھر یہ دنیا ہی کسی طلسمی دنیا میں بدل گئی ہے۔ سورج کے اچانک غائب ہو جانے جیسا بڑا عجوبہ اپنی اب تک کی زندگی میں نہیں ہوا تھا۔ نہ ہی انہوں نے اپنے باپ دادا کے منہ سے اس قسم کی انہونی کے بارے میں سنا تھا۔ کیا قیامت آنے والی ہے؟ انہوں نے سوچا اور تھک گئے۔ اوب کر بستر سے اترے اور بغل کی چارپائی پر سوئے اپنے بیٹے کو آواز دینے لگے۔
ان کا بیٹا دوبرس کا تھا جب لالہ جی کی دھرم پتنی کا سور گباش ہو گیا تھا۔ اب بیٹا آٹھ برس کا ہے اور انہوں نے گذشتہ چھ برسوں سے اپنے بیٹے کی ماں بن کر ہی پرورش کی ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو بہت بڑا آدمی بنائیں گے، انہوں نے یہ طے کر رکھا ہے۔ وہ اسے اپنی طرح کسی پرائمری اسکول کا مدرس تو ہرگز نہ بننے دیں گے۔ اگر وہ اس لائن میں اتر بھی گیا تو وہ حتی الامکان کوشش کریں گے کہ اوتار کسی یونیورسٹی میں لکچرر بنے۔ وہ اوتار کو اعلی تعلیم دلائیں گے، چاہے اس کیلئے انہیں اپنا ایک ایک بال گروی رکھ دینا پڑے۔
’’اوتار۔۔۔‘‘ لالہ جی نے پھر آواز لگائی، ’’دیکھو، اٹھ کر دیکھو بیٹے آج سورج لاپتہ ہو گیا ہے۔‘‘ لالہ جی اندھیرے میں ٹٹول کر بستر تک پہنچ گئے۔ انہیں حیرت ہو رہی تھی کہ ان کی ایک آواز پر بستر سے اچھل پڑنے والا اوتار ابھی تک کیوں نہیں جگا ہے؟ شاید وہ اندھیرے سے ڈر گیا ہے۔ آخر بچہ ہی تو ہے۔
بستر کے قریب جاتے ہی لالہ جی کا چہرہ فق پڑ گیا۔ ان کے قدم ڈگمگانے لگے اور حلق میں سوئیاں سی چھبنے لگیں۔ اپنی ٹانگ پر چکوٹی کاٹ کاٹ کر انہوں نے دیکھا۔۔۔ اوتار کا بستر خالی تھا، بالکل خالی! ’’اوتار بیٹے۔۔۔‘‘ لالہ جی کانپتی آواز میں پکارتے ہوئے گھر کے اندر گھس گئے اور سب جگہ اوتار کو تلاش کرنے کے بعد واپس آنگن میں بچھی چارپائیوں کے پاس آ گئے۔
کہاں گیا؟ لالہ جی نے اپنے ماؤف ذہن پر زور ڈالتے ہوئے سوچا۔ اسے سلا دینے کے بعد ہی تو وہ سوئے تھے۔ سوتے سوتے کوئی کیسے غائب ہو سکتا ہے۔ کوئی جنگل میں تو رہتے نہیں ہیں کہ سوچیں لکڑبگا اٹھالے گیا ہوگا۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ لالہ جی کا کلیجہ منہ کو آ گیا اور ایک نامعلوم خوف کا احساس انہیں اپنی گرفت میں لینے لگا۔ وہ خوف اور بدحواسی میں کانپتے ہوئے محلے والوں کی مدد مانگنے باہر نکل آئے۔ شاید کسی نے اسے دیکھا ہو۔
باہر نکلتے ہی لالہ جی کا دماغ قلابازیاں کھانے لگا۔ انہیں دیکھنے کے باوجود کسی نے انہیں آداب وغیرہ نہیں کی اور جس بھی شناسا کے سامنے جاکر کھڑے ہوئے وہی انہیں دیکھ کر اس طرح پلٹ گیا جیسے ان کے ساتھ اس کی کبھی جان پہچان رہی ہی نہ ہو۔ پورا محلہ اچانک سارا اپناپن کھو کر مشینی پرزوں میں بدل گیا تھا۔ لالہ جی بوکھلا گئے۔ ایک آدھ خاص جان پہچان والے کو زبردستی روک کر انہوں نے اوتار کے غائب ہونے کی بات سنائی بھی مگر اس نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور لالہ جی کی بات ختم ہوتے ہی بغیر کوئی جواب دیئے خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔
کیا وہ اپنا سر پھوڑ لیں یا لوگوں کو پیٹنا شروع کر دیں؟ لالہ جی جھلا گئے۔ یہ اچانک سبھی لوگ اتنے سنگدل اور بےحس کیوں ہوگئے ہیں؟ انہیں سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس زمین پر زندہ ہیں یا کسی خطرناک خواب کا شکار ہو گئے ہیں۔ سورج کیوں نہیں طلوع ہوا؟ لوگ پتھر کے بتوں میں کیسے بدل گئے اور تارکہاں چلا گیا؟ کیا کسی شیطانی قوت نے راتوں ہی رات قہر برپا کیا ہے؟ انہیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اندھیرے میں سنبھل سنبھل کر اپنے دکھ اور حیرت میں ڈوبتے اتراتے وہ سڑک پر چلے جا رہے تھے۔ انہیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور کیوں؟
اچانک ایک دھندلی سی امید کی کرن ان کے اندر پھیل گئی اور تیز قدموں سے شہر کے پولیس تھانے کی طرف دوڑنے لگے۔ انہیں یقین تھا کہ اوتار کو ڈھونڈنے میں پولیس ان کی ضرور مدد کرےگی۔
لیکن کوتوالی کے منظر نے لالہ جی کے دل کے دھڑکنوں کو اور تیز کر دیا۔ کوتوالی کے باہر پولیس کی جیپیں اور لاریاں، مشین گنوں، ہتھ گولوں، ہندوقوں اور وائرلیس سیٹوں کو سنبھالے سیکڑوں سپاہیوں کو اپنے اندر سمائے کھڑی تھیں اور کوتوالی کے اندر بھی جیسے کسی بڑے جنگ کے لئے تیار سپاہیوں کی کافی تعداد تھی۔
لالہ جی سہمے ہوئے اندر داخل تو ہو گئے لیکن انہیں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اوتار کے گم ہونے کی رپورٹ کس سے کریں؟ یہاں تو لگتا ہے جیسے کسی زبردست لڑائی کی تیاری میں پوری کوتوالی مصروف ہے۔ کہیں پھر کسی دشمن ملک نے اپنے ملک پر حملہ تو نہیں کر دیا ہے؟ لالہ جی نے اپنی ماسٹری عقل کو دوڑانا چاہا۔
’’کیا بات ہے بے؟‘‘ اچانک ایک داروغہ نے جو اپنی موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے جا رہا تھا۔ لالہ جی کو ڈانٹ کر پوچھا۔
’’جی ۔۔۔‘‘ لالہ جی کی گھگھی سی بندھ گئی۔ ’’جی، میں اوتار کا پتا ہوں، وہ کل رات۔۔۔‘‘
’’اوتار سنگھ۔۔ ‘‘ اچانک داروغہ کا ہاتھ اپنی کمر پر پہنچ گیا جہاں ریوالور لٹکا ہوا تھا۔
’’ہاں جی۔۔۔ ‘‘ لالہ جی سہم گئے، ’’سنگھ نہیں، صرف اوتار، میرا آٹھ سال۔۔۔‘‘
’’رام سنگھ، دلاور، شکور۔۔۔ ‘‘ داروغہ نے چیخ کر سپاہیوں کو بلایا۔ ’’ڈال دو سالے کو آپریشن روم میں، یہ اوتار سنگھ کا باپ ہے۔‘‘
’’سنگھ، نہیں جی‘‘ لالہ جی نے گڑگڑاکر کہا۔ مگر ان کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی تین چار قد آور سپاہی شکاری کتوں کی طرح لالہ جی پر ٹوٹ پڑے۔
’’آپ کو کوئی غلط فہمی۔۔۔‘‘لالہ جی نے بے بسی سے کہا۔ مگر ان کی آواز درمیان میں ہی ٹوٹ گئی۔ ایک سپاہی نے اپنا بھاری ہاتھ ان کے سر پر پٹک دیا تھا۔ جس کی چوٹ سے لالہ جی کا جسم تو نہیں لیکن روح ضرور تڑپ گئی تھی۔
’’یہ کیا کر رہے ہیں آپ لوگ؟‘‘ لالہ جی نے ہمت جٹاکر کہا۔ ’’ایک شریف انسان کو آپ لوگوں کو اس طرح ذلیل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ میں اس شہر کا ایک معزز۔۔۔‘‘
’’چپ ما۔۔۔‘‘ ایک سپاہی نے اچانک لالہ جی کے منہ پر تھپڑ مار دیا اور باقی انہیں گھسیٹ کر آپریشن روم کی طرف بڑھنے لگے۔
لالہ جی سے آج تک کسی نے اونچی آواز تک میں بات نہیں کی تھی ان کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے بھی نہیں۔ پتھر جیسے تھپڑ کی مار سے یکبارگی انہیں چکر سا آ گیا اور نچلا ہونٹ کٹ گیا۔ بےعزتی اور چوٹ سے لالہ جی کی روح کانپ اٹھی۔
تھوڑی ہی دیر بعد لالہ جی ایک سیلن بھرے بدبودار تنگ تہہ خانے میں پڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ہتکڑیاں ڈال دی گئی تھیں اور پیروں میں بیڑیاں۔ سپاہیوں کے جانے کے بعد لالہ جی نے سوچا۔۔۔ وہ اپنے ہی ملک میں یا دشمن ملک کے سپاہیوں کی گرفت میں آ چکے ہیں؟ مگر دشمن ملک کے سپاہی بھی بھلا انہیں کیوں گرفتار کریں گے؟ ایک پرائمری اسکول کے غریب ماسٹر سے کسی بھی ملک کو بھلا کیا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
چالیس برس گذارے ہیں انہوں نے اس دنیا میں وہ آزادی سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔ غلامی کے خطرناک دنوں کی باتیں ان کے سامنے نہیں گزریں مگر اپنے پتا کے منہ سے سنی باتوں کی بنیاد پر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انگریزوں کی پولیس اتنی بےرحم اور پاگل نہ تھی۔ ان دنوں شریف لوگوں کو مارا نہیں جاتا تھا۔ پولیس کا جھگڑا حکومت کے باغیوں سے ہوتا تھا۔ اس طرح سڑک چلتے کسی عزت دار آدمی کی ٹوپی نہیں اتاری جاتی تھی۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آدمی جائے پولیس سے مدد مانگنے اور پولیس اسے بند کر کے پیٹنے لگے۔ نہیں چاہئے ایسا ملک۔ لالہ جی نے بےحد تکلیف کے ساتھ سوچا، ان کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ گلا پھاڑ کر رو پڑیں۔
دو سپاہی لالہ جی کے چہرے پر چھینٹے مار رہے تھے تاکہ وہ ہوش میں آ جائیں۔
لالہ جی پٹتے پٹتے بے ہوش ہو گئے تھے۔ داروغہ کمر پر ہاتھ لٹکائے ان کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ تبھی ایس پی داخل ہوئے۔’’کچھ ہاتھ لگا۔‘‘
’’ابھی نہیں سر!‘‘ داروغہ نے ادب سے جواب دیا۔’’مگر اب کی بار اسے اگلنا ہی پڑےگا، سر!‘‘
’’دھیان رکھنا، مرنے نہ پائے۔ یہ مر گیا تو اوتار سنگھ تک پہنچنے کا واحد سہارا بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائےگا۔ ہوم منسٹری سے برابر اوتار سنگھ کی رپورٹ مانگی جا رہی ہے۔‘‘
’’میرا ایک مشورہ ہے سر!‘‘ داروغہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’کیا؟‘‘
’’اس آدمی کے نام سے اخباروں میں اوتار سنگھ کے لئے ایک اپیل چھاپی جائے۔‘‘
’’تو ۔۔ تو۔۔!‘‘ ایس پی ہنس پڑے،’’ تم شاید اوتار کو نہیں جانتے۔ ایک ایس ایچ او، تین سپاہیوں، دو زمینداروں اور ایک لیبر افسر کا قاتل ہے وہ۔۔۔ خونخوار نکسلی۔۔۔ تم سوچتے ہو ایک اعلان سے سرینڈر کر دے گا؟‘‘
’’باپ پھر باپ ہوتا ہے۔ سر۔‘‘ داروغہ نے دبی زبان سے کہا۔ ’’ہو سکتا ہے باپ کو رہا کروانے کی کوشش میں ہی گرفتار کر لیا جائے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، یہ طریقہ بھی دیکھ لو!‘‘ ایس پی نے حکم دیا، ’’بس یاد رہے کہ یہ بوڑھا مرنا نہیں چاہئے۔‘‘
’’او کے سر!‘‘ داروغہ نے فوراً جواب دیا اور ایس پی صاحب کو گاڑی تک چھوڑ آیا۔
لالہ جی نے کراہ کر آنکھیں کھول دی تھیں۔ بوڑھے تو وہ پہلے ہی نظر آتے تھے مگر دو دن کی جیل نے ان کے چہرے پر بے تحاشہ جھریاں بنا دی تھیں اور کمر کو اور جھکا دیا تھا۔ اپنے پیٹ پر انہوں نے اتنے گھونسے کھائے تھے کہ اب ان کے لئے سیدھا کھڑا ہو پانا بھی ممکن نہیں تھا۔
’’کیا ارادہ ہے؟‘‘ داروغہ جی نے لپک کے لالہ جی کے ہاتھ پکڑ لئے اور پھر ایک زوردار گھونسا ان کے پیٹ پر دے مارا۔
’’مار ڈالو، کم بختو!‘‘ لالہ جی نے کراہتے ہوئے کہا، ’’ایسی غنڈہ گردی تو۔۔۔‘‘
’’مطلب کی بات۔۔۔‘‘ داروغہ نے لالہ جی کا ہاتھ بےمروتی سے مروڑ دیا۔
’’آہ ۔۔۔!‘‘ لالہ جی دوہرے ہو گئے۔
’’سلاخیں۔۔۔‘‘ وہاں موجود سپاہیوں کو داروغہ نے حکم دیا۔
تھوڑی ہی دیر میں آگ میں تپاکر سرخ کی گئی سلاخیں لالہ جی کی آنکھوں کے آگے چمکنے لگیں۔ وہ اندر تک کانپ گئے۔ یہ کن جنموں کاپاپ بھگتنا پڑ رہا ہے؟ انہوں نے سوچا اور تھر تھر کانپنے لگے۔
’’دونوں سلاخیں اس کے گالوں پر رکھ دو۔‘‘ داروغہ نے حکم دیا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ لالہ جی چیخ پڑے۔ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ سرخ گرم سلاخیں زندہ آدمی میں بھی پیوست کی جا سکتی ہیں۔ ایسے خوفناک ظلم کے بارے میں ان کی کلپنا دوزخ تک ہی جاتی تھی۔ پر ایسی بات وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
یکبارگی لالہ جی کی گھگھی بندھ گئی اور جب تک ان کے منہ سے کوئی جملہ نکلتا تب تک گرم سلاخیں ان کے گالوں پر آکر چپک گئیں۔
’’آہ ۔۔۔‘‘ لالہ جی کی خوفناک چیخ گونج گئی اور تکلیف سے ان کی آنکھیں باہر نکل پڑیں۔ لالہ جی کی چیخ سن کر دونوں سپاہی بھی بوکھلا گئے اور دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔
لالہ جی پنکھ کٹے پرندے کی طرح زمین پر گر کر تڑپنے لگے اور مسلسل چیختے رہے۔ ان کے منہ سے جھاگ نکلنے اور آنکھوں سے پانی بہہ نکلا تھا۔ ان کے گالوں کے گوشت جلنے کی تیز مہک پورے کمرے میں پھیل گئی تھی۔
مگر اوتار سنگھ تب بھی گرفت میں نہیں آ سکا۔ لالہ جی کی طرف سے اخباروں میں اپیل چھاپی گئی جسے پڑھ کر بھی اوتار سنگھ پولیس کے نزدیک نہیں آیا۔
قریب ہفتے بھر بعد لالہ جی کی دسوں انگلیوں کے ناخن اکھاڑے جا چکے تھے، ان کا چہرہ بے آب کر دیا گیا اور ان کی ایک بانہہ کوہنی پر سے توڑ دی گئی تھی، کلکتہ پولیس نے رپورٹ بھیجی کہ اوتار سنگھ ہاوڑہ کے پولیس انسپکٹر کا خون کر کے مدھیہ پردیش کے کسی علاقے میں کہیں غائب ہو گیا ہے۔
اس رپورٹ کے تین دن بعد پولیس نے لالہ جی کے شہر کوتوالی میں اوتار سنگھ کے ہاتھ کا لکھا ایک خط بھیجا جس پر لکھا تھا۔ ’’میرے باپ کو مرے ہوئے بیس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور اس کا نام لالہ جی نہیں ہرن جیت تھا۔‘‘
اور اس خبر کے بعد لالہ جی کو بی کلاس سہولتوں والی ایک تنہا کوٹھری میں منتقل کر دیا گیا۔ جہاں وہ سورج نکلنے کے انتظار میں مسلسل جاگ رہے ہیں۔ انہوں نے طے کیا ہے کہ اب وہ کبھی نہیں سوئیں گے۔ سونے سے ہی اس رات ان کا اوتار لاپتہ ہو گیا تھا، جس رات سورج ڈوب کر پھر نہیں نکلا۔!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.