گھر میں بازار میں
کہانی کی کہانی
کہانی سماج اور گھر میں عورت کے حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ شادی کے بعد عورت شوہر سے خرچ کے لیے پیسے مانگتے ہوئے شرماتی ہے۔ مائیکے میں تو ضرورت کے پیسے باپ کے کوٹ سے لے لیا کرتی تھی مگر سسرال میں شوہر کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے وہ خود کو بیسوا سی محسوس کرتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شوہر اپنی پسند کی چیزیں لاکر دیتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ واقعی بیسوا ہے۔ ایک روز اس کا شوہر اسے ایک بازارو عورت کے بارے میں بتاتا ہے تو وہ کہتی ہے گھر بھی تو ایک بازار ہی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں شور زیادہ ہے اور یہاں کمَ۔
دیوار پر لٹکتے ہوئے ’’شیکوشا‘‘ نے صبح کے آٹھ بجا دیے۔ درشی نے آنکھ کھولی اور ایک سوالیہ نگاہ سے نئے آبنوسی کلاک کی طرف دیکھا، جس کی آٹھ سریلی ضربیں اس کے ذہن میں گونج پیدا کرتی ہوئی ہر لحظہ مدھم ہو رہی تھیں۔۔۔ ایک گھٹیا سا قالین تھا اور یہی ایک کلاک جو درشی کے استاد نے اسے شادی کے موقع پر بطور تحفہ دیا تھا۔ شاید وہ چاہتا تھا کہ اس کی شاگرد ایک اچھی بیٹی ہونے کے علاوہ، ایک اچھی بیوی بھی ثابت ہو جائے۔۔۔ اور ہر روز صبح شیکو شا اپنے مستقل، طنزیہ انداز میں مسکراتا ہوا کہہ دیتا، ’’میں سب کچھ جانتا ہوں، لیکن اب تو آٹھ بج گئے ہیں، سست لڑکی!‘‘
درشی کا پورا نام تھا پریہ درشنی۔ پریہ کا مطلب ہے پیاری اور درشنی کا مطلب ہے۔۔۔ دکھائی دینے والی، یعنی جو دیکھنے میں پیاری لگے، دل کو لبھائے، آنکھوں میں نشہ پیدا کرے۔۔۔ شاید اسی لیے درشی کو رات بھر جاگنا پڑتا تھا اور شیکوشا سے نظریں چرانا ہوتیں۔۔۔ درشی بچپن ہی سے عصبی طور پر نحیف اور ضرورت سے زیادہ حساس تھی، اور اب شادی کے بعد محبت کی بے اعتدالیوں سے وہ نسوں کی اور بھی کمزور ہو گئی۔
سسرال میں چند دن کے بعد جو سب سے بڑی دقت درشی کو پیش آئی، وہ اپنے خاوند رتن لال سے پیسے مانگنا تھی۔ اس سے پہلے وہ اپنے باپ سے بلا تامل پیسے مانگ لیا کرتی تھی اور اگر کبھی وہ اپنے مربعوں کے کام میں چوک بھی جاتے، تو درشی، ان کی لاڈلی بیٹی، ان کے کوٹ کی جیب میں سے ضرورت کے مطابق نکال لیا کرتی، ’’پاپا‘‘ کا کوٹ ہمیشہ زنانے میں کسی پیٹی کوٹ کے اوپر ٹنگا ہوا مل جاتا تھا۔ اپنے میکے سے جتنے پیسے وہ ساتھ لائی تھی، وہ سب شگن کے پیسوں سمیت ایک خوبصورت، طلائی گھڑی پر ختم ہو چکے تھے۔ خرچ کی یہ مد وہ رتن سے چھپانا نہیں چاہتی تھی، البتہ رتن سے ضرورت کے مطابق پیسے مانگتے ہوئے بھی شرماتی تھی۔ جب ان کی روحوں کا ملاپ ہو گا، تب وہ پیسے مانگ لے گی۔ اس صورت میں وہ پیسے مانگ کر بکنا نہیں چاہتی۔
کئی دفعہ بازار میں کسی چیز کی خرید ہوتی تو درشی اپنی پتلی پتلی، نازک، کانپتی ہوئی انگلیاں اپنے صابر کے خوبصورت لیکن خالی بٹوے میں ڈال دیتی اور کہتی، ’’چھوڑیے، رہنے دیجیے۔۔۔ پیسے میں دوں گی۔‘‘
رتن لال اسی وقت درشی کا ہاتھ تھام لیتا اور سیلزمین سے نظریں چراتا ہوا، محبت کے انداز سے درشی کی طرف دیکھتا اور کہتا، ’’ایک ہی بات تو ہے، درشی۔‘‘
اس وقت درشی محبت کی ایک پر لطف ٹیس محسوس کرتے ہوئے چپ ہو جاتی۔ اسے یقین تھا کہ رتن کبھی بھی اسے پیسے ادا کرنے نہیں دے گا۔ کیا وہ اس کی بیوی نہیں ہے؟ آخر کیا اس کا فرض نہیں کہ وہ خود ہی اس کے تمام چھوٹے موٹے خرچوں کا کفیل ہو؟
ان دنوں برسات شروع تھی اور رتن کا برساتی کوٹ بہت پرانا ہو چکا تھا۔ بارش کے قطرے اس میں کسی نہ کسی طرح گھس ہی آتے تھے۔ اسے خریدنے کے لیے درشی اور رتن بازار گئے۔ سو سٹیکا سٹورز میں انھیں ایک اچھا سا کوٹ مل گیا۔ قیمت طے ہونے سے پہلے ہی درشی نے حسب دستور بیگ کے بٹن کھول دیے اور بولی، ’’پیسے میں دیتی ہوں، رہنے دیجیے۔‘‘ رتن لال نے اپنے ہاتھوں میں دس کا نوٹ مسلتے ہوئے کہا، ’’اچھا، تو تمھارے پاس ریزگاری ہو گی؟‘‘ درشی گھبرا گئی۔ اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اس نے یونہی کچھ دیر کے لیے بیگ کو ٹٹولا اور زبردستی مسکراتے ہوئے بولی، ’’اوہ! بھول گئی میں۔۔۔ ریزگاری تو میرے پاس بھی نہیں۔‘‘ رتن لال نے اسی اثنا میں انگلی کے گرد نوٹ کے بہت سے چکر دے ڈالے اور عصبی طور پر کمزور درشی خاموش رہنے کی بجائے کہنے لگی، ’’ریز گاری تو گھر ہی رہ گئی۔۔۔ میرے پاس تو پانچ پانچ کے نوٹ ہوں گے۔‘‘
درشی نے غالبا یہی سمجھا کہ رتن لال پھر ایک دفعہ میٹھی نگاہ سے اس کی طرف دیکھ لے گا اور پھر پیسوں کی ادائیگی کا سوال ہی نہیں اٹھے گا۔ لیکن وہ یہ بھول ہی گئی کہ شادی کو ایک ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور اب تکلف کی چنداں بات نہیں رہی۔ رتن نے کوٹ کو اتارتے ہوئے کہا،
’’تو اچھا، پانچ پانچ کے دو نوٹ ہی دے دو، یہ لو، رکھ لو دس کا نوٹ۔‘‘
اس وقت درشی کے کان گرم ہو گئے۔ جسم پر چیونٹیاں رینگنے لگیں۔ اس نے بلاوجہ برساتی کو ادھر ادھر الٹانا شروع کیا۔ برساتی کے ایک کنارے پر سوراخ تھا۔ اس سوراخ میں اسے نجات کی راہ دکھائی دی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے نہایت خشمگیں انداز سے کہا،
’’یہ تو پھٹی ہوئی ہے۔۔۔ کوڑی کام کی نہیں یہ۔‘‘
اور پھر دکاندار کو مخاطب ہوئے اسی لہجے میں بولی، ’’بھلا آپ نے ہمیں کیا سمجھ رکھا ہے جی، جو پھٹاوا کوٹ ہمیں مڑھ رہے ہیں؟‘‘
سیلزمین بالکل گھبرا گیا اور فورا نئے کوٹ لینے کے لیے دکان کے اوپر چلا گیا۔ درشی کی برہمی کی وجہ سے رتن بھی سہم گیا اور ایک مصنوعی غصے سے دکاندار کی طرف دیکھنے لگا۔ اسی وقت درشی نے رتن کو بازو سے پکڑا اور باہر لے آئی۔ سامنے سیڑھی پر سیلزمین برساتیوں کے بوجھ سے لدا ہوا اسٹاک روم سے نیچے اتر رہا تھا، لیکن اس کی حیرانی کی حد نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ وہ حسین جوڑا نظروں سے غائب ہو چکا تھا۔
رتن نے دیکھا درشی کے منھ پر سیاہی بکھر گئی تھی اور ماتھے پر ایک بڑے سے قرمزی دھبے میں سے پسینہ کے قطرے بے تحاشا امڈ رہے تھے۔ بازار سے لے کر گھر تک اس کی بیوی لکنت بھری باتیں کرتی رہی۔ اور رتن اس کی ایک بات کا بھی مطلب نہ سمجھا، اور جب اس نے تانگے پر سے ہاتھ دے کر درشی کو اتارا تو اسے معلوم ہوا کہ درشی کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ اور چونکہ وہ عورت کے سیدھے سادے تسلسل کی ایک کڑی کھو بیٹھا، اس نے مرد کی دیرینہ عادت کے مطابق کہنا شروع کیا۔ عورت ایک معما ہے۔ شوپنہار کہتا تھا۔
اگلے دن درشی سو کر اٹھی تو آٹھ کی بجائے آٹھ پینتیس ہو چکے تھے اور سورج ان کے دریچہ پر آ گیا تھا۔ اس کی شعاعیں کلاک کے شیشے میں سے منعکس ہوتی ہوئی درشی کے چہرے پر پڑنے لگی تھیں۔ کلاک کے بڑے بڑے رومن ہندسوں میں خالی سفید جگہ، بڑے بڑے دانت بن گئی تھی۔ یوں دکھائی دیتا تھا جیسے شیکوشا طنز کی حد سے گزر چکا ہے اور کھلکھلا کر ہنس رہا ہے۔ اور شیکوشا اکیلا ہی نہ تھا۔ اس کے ساتھ ککو کی ماں بھی تو شریک ہو گئی تھی۔ ککو کی ماں رتن کے ہاں ملازمہ تھی۔ وہ ایک بیوہ عورت تھی۔ صبح جب وہ چائے لے کر آئی تو رانی جی کو یوں تھکے تھکے دیکھ کر ’’خی غی۔۔۔ غی خی‘‘ کے انداز سے ہنسنے لگی۔ گویا کہہ رہی ہو ہم بھی بہت دن گئے جاگا کرتے تھے۔ ہماری آنکھوں میں بھی خمار ہوتا تھا اور اب راتوں کو جگانے والے بھگوان کے دوارے ہی چلے گئے، آہ! مجھے وہ دن یاد ہے جب وہ میرے لہنگے کے لیے بہت سندر گوٹا اور کنگری لائے تھے۔ اس دن تو وہ پہلے اندر ہی نہیں آئے۔ دروازے پر ہی کھڑے مسکراتے رہے اور جب اندر آئے تو ان کا بات کرنے کا ڈھنگ بھی عجیب تھا اور وہ گوٹا دیکھ کر میری سب تکان اتر گئی تھی۔
درشی نے چلاتے ہوئے کہا، ’’ککو کی ماں!‘‘
ککو کی ماں کے لبوں پر تبسم نہیں رہا۔ صرف اس کا سایہ رہ گیا۔ ہلکی سی سرخی سے اس کا رنگ سپیدی اور سپیدی سے زردی اور سیاہی مائل ہو گیا اور وہ حیرت سے کلاک کی ٹک ٹک کو سننے لگی۔ درشی کے لیے وہ معمولی ٹک ٹک ہتھوڑے کی ضربوں سے کم نہ تھی۔ استاد کی عزت ملحوظ خاطر نہ ہوتی تو وہ پتھر مار کر اس کی ٹک ٹک کو روک دیتی۔ ککو کی ماں سوچ رہی تھی۔ آخر مالکن کیوں خفا ہو رہی ہے۔ حالاں کہ رتن بابو نے اسے ایک نئی ساڑی خرید کر لادی ہے، جس پر پورا ایک ہاتھ چوڑا طلائی باڈر لگا ہے اور اس کے اندازے کے مطابق اس کی تمام تھکاوٹ دور کر دینے کے لیے کافی ہے۔
درشی نے کہا، ’’آج پھر تو نے چمچہ بھر چائے کے پانی میں دودھ کی گاگر انڈیل دی۔‘‘
ککو کی ماں نے سہمے ہوئے کہا، ’’رتن بابو نے کہا تھا، رانی۔‘‘
’’کیا کہا تھا انھوں نے؟‘‘
’’کہا تھا۔۔۔ رانی بیمار ہے۔‘‘
ککو کی ماں نے ٹرے اٹھائی اور آنکھوں سے ایک ہاتھ چوڑے طلائی باڈر کو دیکھتی اور دل میں بھگوان کو کوستی ہوئی چلی گئی۔ درشی سوچنے لگی، کیا رتن کو اس کی کمزوری کا پتہ چل گیا ہے؟ اسی لیے تو وہ اس قسم کی چائے کو میرے لیے غیر مفید سمجھنے لگا ہے، اور کیا معلوم جو اس نے سوتے میں میرے بیگ کی تلاشی بھی لی ہو۔ اس نے زناٹے سے ایک ہاتھ سرہانے کے نیچے مارا۔ بیگ موجود تھا، اور تھا بھی جوں کا توں بند۔
بیگ کے ایک کونے میں جھومروں کی ایک جوڑی پڑی تھی۔ درشی جھومروں کی بہت شوقین تھی۔ لیکن اس کے بیاہ میں جتنے بھی زیور دیے گئے تھے، وہ سب کے سب وزنی تھے اور دیہاتی طرز کے بنے ہوئے۔ اکیلے جھومر ہی ڈیڑھ تولہ کے تھے۔ درشی جانتی تھی کہ رتن ان لمبے جھومروں کو پہنے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ خود بھی رتن کو خوش رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن اس بات کا کیا علاج کہ وزنی جھومر پہننے سے اسے اپنے کان ٹوٹتے ہوئے محسوس ہوتے تھے اور وہ انھیں نصف گھنٹہ سے زیادہ دیر تک نہیں پہن سکتی تھی۔
پریہ درشی کی خواہش تھی کہ وہ ہلکے سے جھومر خرید لیتی۔ یہی کوئی سستی سی جوڑی۔ لیکن ان کے لیے وہ رتن سے پیسے نہ مانگے گی، تا وقتیکہ وہ خود اپنے فرض کو محسوس کرتا ہوا پیسے اس کے ہاتھ میں نہ دیدے۔
معا اس کا خیال پاپا کی طرف چلا گیا۔ ان سے تو وہ پیسے لڑ کر بھی مانگ لیتی تھی۔ کسی خیال کے آنے سے درشی اٹھی اور اپنے ہی کمرے میں جب اس نے الماری کھولی تو اس کی جارجٹ کی ساڑی کے اوپر، رتن کا کوٹ ٹنگا ہوا تھا۔ درشی کے منھ پر ایک سرخی کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے سوچا تمام مرد ایک ہی سے لاپروا ہوتے ہیں۔ یہی مردوں کا جوہر ہے اور پھر زنانے میں پیٹی کوٹ یا جارجٹ کی ساڑی کے اوپر اپنا کوٹ شاید عمدا بھول جانے کا کیا یہ مطلب نہیں کہ اس کوٹ کے ساتھ جیسا سلوک مناسب سمجھا جائے، کیا جائے۔ گویا کوٹ زبان حال سے کہہ رہا ہو، ’’میں نے تجھے مسل ڈالا ہے، تو اس کے عوض میں میری جیبیں کاٹ ڈال۔‘‘ درشی نے دروازے پر نظر گاڑے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کے ہاتھ میں دس دس کے چار نوٹ اور کچھ ریزگاری آ گئی۔ اس نے سوچا اگر وہ اس میں سے ضرورت کے مطابق کچھ اڑا لے تو رتن کیا کہے گا۔ لیکن۔۔۔ چوری تو ایک ذلیل حرکت ہے۔ ابھی تو روحوں کا ملاپ نہیں ہوا۔ وہ یوں جیب میں سے پیسے اڑا کر بیسوا، نہ کہلائے گی؟
دو تین دن تک درشی کو ہری پال پور، اپنے مربعوں سے بذریعہ تار سو روپئے آ چکے تھے۔ شگن کے اور روپئے اکٹھے ہو گئے۔ انھوں نے بہت حد تک درشی کی عصبی کمزوری کو آرام پہنچایا۔ ککو کی ماں بھی خوش تھی اور بھگوان کو کم یاد کرتی تھی۔ درشی نے کئی مرتبہ رتن کو کہا کہ بازار جا کر برساتی کوٹ خرید لینا چاہیے۔ برسات کے بعد اس کا کیا فائدہ ہو گا۔ لیکن چند دنوں سے رتن لال اپنے دفتر میں اسمبلی کے لیے ہندسے تیار کر رہا تھا اور اس کے لیے اسے بارش، دھوپ، ساڑی کسی چیز کی پروا نہ تھی اور اس بات نے درشی کو بہت غمگین کر دیا تھا۔
ایک شام رتن گھر واپس آیا تو درشی کی حیرانی کی حد نہ رہی۔ اس کے ہاتھ میں جھومروں کی ایک جوڑی تھی۔ جو تھی بھی بہت ہلکی اور جدید فیشن کی۔ درشی خوش نہیں ہوئی، کیونکہ وہ جھومر اس نے خود نہیں خریدے تھے، رتن نے انھیں اپنی خاطر خریدا تھا۔ وہ خود بھی تو اسے جھومر پہنے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ مرد کبھی بھی عورت کی فرمائش پر زیور خریدنا پسند نہیں کرتے، بلکہ ان کو اپنے لیے سجانے کو خریدتے ہیں۔ درشی کو تسکین ہوئی بھی تو محض اسی لیے کہ رتن انھیں خودبخود خرید لایا اور ایسا کرنے میں اس نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیا۔
جھومروں کی جوڑی کو ہاتھ میں لیتے ہوئے وہ طنزیہ انداز سے بولی، ’’ختم ہو گئے آپ کے ہندسے؟‘‘
’’ختم ہو گئے۔‘‘
رتن نے درشی کا ہاتھ پکڑا تو اس نے جھٹکے سے چھڑا لیا۔ بولی، ’’اب میرے ہندسے شروع ہیں۔ سردیاں آنے والی ہیں۔ کم سے کم تین بھتیجوں کے سوئٹر بننے ہیں۔‘‘
رتن نے پھر ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا، ’’تو کیا تمھیں جھومر پسند نہیں؟‘‘
’’جھومر۔۔۔؟ اوہ! ہاں‘‘ درشی منھ پھلاتے ہوئے بولی، ’’آپ نے بہت تکلیف کی۔‘‘
شیکوشا بدستور مسکرا رہا تھا۔ وہ محض ایک کلاک ہی نہیں تھا، چوبیس گھنٹے متواتر ٹک ٹک کرنے والا۔ وہ درشی کا استاد بھی تھا، جس کے ڈائل اور سوئیوں نے درشی کو ایک اچھی لڑکی کے طور پر دیکھا تھا اور اب شاید ایک اچھی بیوی کی صورت میں دیکھنا چاہتا تھا۔
رتن پہلی کڑی کھو دینے سے منزل مقصود پر نہ پہنچ سکا۔ وہ درشی کی باتوں میں طنز نہ پا سکا، تو وہ بولی،
’’آپ تو یونہی میرے لیے پیسے برباد کرتے ہیں۔۔۔ بھلا اور بھی کوئی ایسے کرتا ہے؟‘‘
رتن پھٹی پھٹی آنکھوں سے درشی کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ اگر درشی اسی وقت وہ جھومر اپنے کانوں میں نہ ڈال لیتی تو دنیا کی تاریخ کسی اور ہی ڈھب سے لکھی جاتی۔ اس نے نہ صرف جھومر پہنے، بلکہ اپنی گردن کو عجب انداز سے ادھر ادھر ہلا دیا اور رتن ایک ایماندار آدمی کی طرح اس کی گردن اور اس کے ہلتے ہوئے جھومروں کے متعلق سوچنے لگا۔
یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے ابھی تک درشی کی تسلی نہیں ہوئی۔ وہ بولی،
’’کیا لاگت آئی ہے اس پہ؟‘‘
’’کوئی بہت نہیں۔‘‘
’’تو بھی۔‘‘
’’ساڑھے اکتیس روپئے۔‘‘
درشی نے اپنے صابر کے بیگ کو ٹٹولنا شروع کیا۔ رتن ایک لمحہ کے لیے ٹھٹک گیا۔ وہ شاید اس بات کو مذاق سمجھ کر جانے دیتا۔ لیکن درشی کے چہرے نے اسے مذاق کی حدود سے بلند و بالا اٹھا دیا تھا۔ کچھ دیر بعد رتن نے اندھیرے میں اپنے پاؤں تلے زمین محسوس کی۔ گویا کوئی کھوئی ہوئی کڑی اس کے ہاتھ آ گئی ہو۔ اس نے اپنی جیب میں سے تمام نقدی نکالی اور اندھیرے میں درشی کے قدموں پر رکھتے ہوئے بولا، ’’تم اس دن اپنی کسی ضرورت کا ذکر کر رہی تھیں۔ لو، یہ اپنی مرضی سے خرچ کر لینا۔‘‘
درشی نے ایک ثانیہ کے لیے سوچا۔ رتن نے ایسا کرنے میں عورت کو سب سے بری گالی دی ہے۔۔۔ ’’بیسوا!‘‘
بیاہ کو ایک دو سال گزر گئے، لیکن دونوں کی روحوں میں کوئی خاص بالیدگی نہیں آئی۔ بلکہ رتن اب کچھ کھچا کھچا سا رہنے لگا۔ اس عرصہ میں درشی بیوی کے تمام ہنر سے واقف ہو چکی تھی۔ وہ حساس ویسے ہی تھی۔ آج تک اس نے کھلے بندوں رتن سے پیسے نہیں مانگے تھے۔ وہ بسا اوقات اپنی کمزوری پر اپنے آپ کو کوسا کرتی۔ عموما یوں ہوتا کہ بچے کے فراک یا اسے کیلشیم دینے کا ذکر ہوتا تو وافر پیسے مل جاتے اور پھر رتن اس کی ضرورت اور اپنے شوق سے متاثر ہو کر خود بھی اسے کچھ نہ کچھ لا دیا کرتا۔ ہری پال پور میں بھی آنا جانا بنا ہی ہوا تھا۔ اگرچہ درشی کی ماں سوتیلی تھی، باپ تو سوتیلا نہیں تھا۔ بڑا بھائی ایگزیکٹو انجنیئر ہو چکا تھا اور پھر دفتر اور ہندسوں کے بعد رتن کا کوٹ اس کے پیٹی کوٹ پر ٹنگا ہوتا۔
اس ایک دوبرس کے عرصہ میں شیکوشا کا چہرہ قدرے پیلا ہو گیا تھا۔ اس کی نگاہوں میں وہ پہلی سی شرارت اور طنز آمیز مسکراہٹ نہ رہی تھی۔ کبھی کبھی اس کا کوئی پرزہ خراب ہو جاتا تو اس کی مرمت کر دی جاتی۔
ایک دن رتن لال شب کو کسی دوست کے ہاں ٹھہر گیا۔ صبح واپس آیا تو درشی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا،
’’آج صبح میں نے ایک واقعہ دیکھا۔‘‘
درشی نے بچے کو اس کی گود میں دیتے ہوئے کہا، ’’کیا دیکھا ہے آپ نے؟‘‘ رتن بولا، ’’میں کہتا ہوں۔۔۔ یہ بازاری عورتیں کتنی بے حیا ہوتی ہیں۔ آج میں نے ایک ایسی عورت کو دیکھا، جس کے بال الجھے ہوئے تھے، جس کی آنکھیں خمار آلودہ تھیں، جسم سے بیمار دکھائی دیتی تھی۔ صبح صبح سر بازار اس نے ایک بابو کو کالر سے پکڑا ہوا تھا اور پیسے مانگ رہی تھی۔ وہ بابو بیچارہ کوئی بہت ہی شریف آدمی تھا۔ وہ چیختا تھا، چلاتا تھا۔ کہتا تھا میں نے اسے ایک خوبصورت ساڑی لا کر دی ہے۔ گرگابی خرید دی ہے اور اب پیسے طلب کرتی ہے۔
وہ بے غیرت بھرے بازار میں کہہ رہی تھی کہ وہ تو سب حسن کی نیاز ہے۔ اس نے اپنے لیے مجھے وہ ساڑی پہنوائی تھی۔ اپنے لیے گرگابی، جسے پہن کر میں اس کے ساتھ لارنس باغ کی سیر کو گئی۔ لیکن مجھے پیسے چاہئیں۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے، مجھے اپنے بچے کے لیے کپڑے چاہئیں، میں نے کرایہ دینا ہے، مجھے پوڈر کی ضرورت ہے۔‘‘
اور اس کے بعد رتن ہنسنے لگا۔ بے معنی، بے مطلب ہنسی اور اس عرصہ میں اپنا سلوٹوں سے بھرا ہوا کالر چھپاتا رہا۔ اس بات کو سن کر درشی کی ساری طبعی کمزوری واپس آ گئی۔ درشی نے محسوس کیا، اس میں جتنی کمزوریاں تھیں وہ بیسوا میں مفقود تھیں۔ وہ اس کے جسم کا بقیہ حصہ تھی جسے اپنے آپ میں محسوس کرتے ہوئے وہ ایک مکمل عورت ہو گئی تھی۔ درشی نے سر سے پاؤں تک شعلہ بنتے ہوئے کہا، ’’وہ بابو، پاجی آدمی ہے۔ کمینہ ہے۔ اور وہ بیسوا کسی گرہستن سے کیا بری ہے؟‘‘
رتن لال کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ مشکوک نگاہوں سے اس نے درشی کے چہرے کا مطالعہ کرتے ہوئے کہا،
’’تو تمھارا مطلب ہے۔۔۔ اس جگہ اور اس جگہ میں کوئی فرق نہیں؟‘‘
درشی نے اسی طرح بپھرے ہوئے کہا، ’’فرق کیوں نہیں۔۔۔ یہاں بازار کی نسبت شور کم ہوتا ہے۔‘‘
کلاک کی ٹک ٹک بند ہو گئی۔ رتن لال سوچنے لگا، ’’عورت سچ مچ ایک معما ہے اور شوپنہار نے۔۔۔!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.