پالی ہل کی ایک رات
کہانی کی کہانی
ڈرامے کی شکل مٰیں لکھا گیا ایک ایسا افسانہ ہے جس کے سارے کردار علامتی ہیں۔ افراد خانہ جب عبادت کی تیاری میں مصروف تھا جبھی بارش میں بھیگتا ہوا ایک غیر ملکی جوڑا دروازے پر دستک دیتا ہے اور اندر چلا آتا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ نو وارد کا تعلق ایران سے ہے۔ اس کے بعد واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔
(ایک تمثیل جس کے سارے کردار قطعی فرضی ہیں۔)
کردار۔
(۱) ہومائے ارد شیر جنک والا
(۲) رودا بہ جنک والا
(۳) آنٹ فیروزہ
(۴) آغائے وار اب کا ظم زادہ
(۵) خانم گلچہر اسفند یاری
مقام: پالی ہل، بمبئی
زمانہ: جولائی ۱۹۷۶ء وقت آٹھ بجے شب
وسیع اسٹیج۔۔۔ عقبی دیوار کے وسط میں کھلا دریچہ۔ اس کے دونوں طرف گوا کی سیاہ تپائیوں پر منگؔ گلدان، بائیں دیوار پر دو روغنی اکیڈمی پورٹریٹ، ان کے عین نیچے کوئن این صوفہ، دو کرسیاں، ایک کارڈ ٹیبل، کونے میں کاٹیج پیانو، اس کے اوپر رو پہلی فریم میں ایک متبسم خوب رو نوجوان کا بہت بڑا فوٹو گراف۔ بلوری مرتبان میں ایک جنک (چینی جہاز) کا ماڈل۔ ایک یونانی گلدان۔ دیواروں پر ولایتی وال پیپر جو جگہ جگہ سے اکھڑ چکا ہے۔ اسٹیج کے دائیں حصے میں گول ڈائننگ ٹیبل اور دو کرسیاں وکٹورین سائڈ بورڈ۔ اس پر ایک شمع دان willow pattern کی نیلی برطانوی پلیٹیں۔۔۔ اور ملکہ الزبتھ، پرنس فلپ، شہنشاہ ایران اور شہ بانو فرح پہلوی کی تصاویر۔ دو ٹوبی مگ (Toby mugs) میز پر تین افراد کے لیے پلیٹیں، چھری کانٹے اور گلاس مع نیپکن۔
فٹ لائٹس کے قریب اسٹیج کے بائیں کنارے چوبی منقش چینی صندوق پر ایک سیاہ ایرانی بلی نخوت سے متمکن ہے۔ کمرے کا سارا سازو سامان خستہ اور بوسیدہ۔ دائیں اور بائیں پہلو کی دیواروں میں دروازے۔ دریچے کے اوپر کُکو کلاک جو آٹھ بجا رہا ہے۔ سیاہ ریشمی کیمونو پہنے، جس پر رنگ برنگے دھاگے سے ایک مہیب ڈریگن کڑھا ہے۔ ناظرین کی طرف سے پشت کیے ہومائے جنک والا دریچے میں کھڑی ہے۔ رودابہ جنک والا انگریزی ڈریس میں ملبوس پیانو کے سامنے بیٹھی Let's all go down the strand بجا رہی ہے۔ پھر وہ اچانک On richmond hill there lives a lass شروع کردیتی ہے۔
ہومائے: اوہ، شٹ اپ۔ روڈی۔۔۔ میں دعا میں مصروف ہوں، ڈسٹرب مت کرو۔
(رودابہ Tis the last rose of summer left blooming alone بجانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔)
ہومائے: روڈی۔۔۔ آج پورنماشی کی رات ہے اور میں آج ہی وضو کرنے میں گڑبڑا گئی۔۔۔ بتاؤ۔۔۔ منہ دھونے سے پہلے واشیمؔ ووہو پڑھتے ہیں نا۔۔۔ پھر کلّی کرنا۔ پھر تین دفعہ پنجے دھونا۔۔۔ پھر تین دفعہ کہنیوں تک ہاتھ۔۔۔ ہاتھ کی طرف کہنیوں تک نا۔۔۔؟ پھر پاؤں۔۔۔ ذرا سی بھول چوک میں گناہ ہوگا۔
(رودابہ منہ اٹھا کر ’’لاسٹ روز آف سمر‘‘ گانا شروع کردیتی ہے۔ دونوں عورتوں کے چہرے اب تک چھپے ہوئے ہیں۔ اب ہومائے پہلی بار حاضرین کی طرف رخ کرتی ہے۔ ایک معمر پریشان صورت عورت)
ہومائے: روڈی۔۔۔ بتاؤ اسکولی چھوکریوں کی طرح شورمت کرو۔۔۔ کل میں نے پنج گاہ کی نمازیں قضا کردیں۔ قضا پڑھنا فرض ہے نا۔۔۔؟ کل دستور جمشید جی سے پوچھوں گی۔ آج پورنماشی ہے۔ میں ماہ ینایشؔ کی تلاوت کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن بادلوں میں چاند نظر ہی نہیں آرہا۔۔۔ بڑے زور کی بارش آنے والی ہے۔ ہوشنگ کیسے پہنچے گا۔ (رودابہ سنی ان سنی کر کے پیانو بجاتی رہتی ہے۔ باہر بارش شروع ہوجاتی ہے بجلی چمکتی ہے۔ اوپر چھت پر سے کھٹ کھٹ کھٹ کی آواز آنے لگتی ہے۔ باہر بلّیاں رو رہی ہیں۔ چینی صندوق پر بیٹھی ایرانی بلی کاہلی سے اترکر صوفے کے نیچے چلی جاتی ہے۔ بادل گرجتے ہیں۔ ہومائے اونچی آواز میں خدا کے ایک سوناموں کا ورد شروع کردیتی ہے)
ہومائے: یزد۔۔۔ ہروسپ تواں (۱) ہروسپ آگاہ(۲) ہروسپ خدا (۳) اوری انجام۔ افزا۔ پرورا۔ خروشیدتم۔ ہریمد۔ ہر نیک فرہ۔ فرمان کام۔ افرموش۔ اترس۔ افرازدم۔ آورباد گرد۔
رودابہ: (زور سے گاتی ہے)
Weep no more my lady O weep no more today we shall sing one song of the old kentucky home of the old kentucky home, Far away
ہومائے: (کانوں پر ہاتھ رکھ کر) آدرنمگر۔ بادگل گر۔ اگمان۔ ازمان۔ فیروزگر۔ نیا فرید۔ دادار۔ خرہ مند۔ داور۔ (باہر دریچے کے نیچے قدموں کی چاپ)
رودابہ: (رک کر) (دائیں دروازے کی کال بیل بجتی ہے) (کواڑ ذرا سا کھول کرباہرجھانکتی ہے پھر رودابہ سے کہتی ہے) ینگ فارنرز۔۔۔! رودابہ: ہپّی۔۔۔؟
ہومائے: نہیں۔۔۔ ہپی نہیں۔ نہایت شان دار انگریز۔۔۔ (دروازہ کھولتی ہے۔ ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی پانی میں شرابور ذرا جھجھکتے ہوئے اندر آتے ہیں)
لڑکا: (اوکسفرڈ لہجے میں) تھنک یو میم۔۔۔ موسٹ کائنڈ آف یو۔ (برساتی اتارنے میں لڑکی کی مدد کرتاہے پھر اپنی برساتی اتارتا ہے۔۔۔ لڑکی سنہرے بال، خوب صورت۔۔۔ بیش قیمت امریکن فراک، دونوں بہت متمول معلوم ہوتے ہیں۔ لڑکی کے ہاتھ میں ایک پارسل ہے)
لڑکی: (امریکن لہجے میں) معاف کیجئے گا ہم نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔ ہم مسز کلثوم زری والاکا بنگلہ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ کیا