شاہد میر
غزل 16
اشعار 9
اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن
میری چادر مرے پیروں کے برابر کر دے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے میں نے
آ کسی دن مرے احساس کو پیکر کر دے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
پہلے تو چھین لی مری آنکھوں کی روشنی
پھر آئینے کے سامنے لایا گیا مجھے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
شجر نے لہلہا کر اور ہوا نے چوم کر مجھ کو
تری آمد کے افسانے سنائے جھوم کر مجھ کو
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
وہی سفاک ہواؤں کا صدف بنتے ہیں
جن درختوں کا نکلتا ہوا قد ہوتا ہے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
دوہا 10
جیون جینا کٹھن ہے وش پینا آسان
انساں بن کر دیکھ لو او شنکرؔ بھگوان
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
ہر اک شے بے میل تھی کیسے بنتی بات
آنکھوں سے سپنے بڑے نیند سے لمبی رات
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
ذہن میں تو آنکھوں میں تو دل میں ترا وجود
میرا تو بس نام ہے ہر جا تو موجود
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
کاغذ پر لکھ دیجئے اپنے سارے بھید
دل میں رہے تو آنچ سے ہو جائیں گے چھید
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
آنگن ہے جل تھل بہت دیواروں پر گھاس
گھر کے اندر بھی ملا شاہدؔ کو بنواس
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے