سید محمد میر اثر کے اشعار
کیا کہوں کس طرح سے جیتا ہوں
غم کو کھاتا ہوں آنسو پیتا ہوں
بے وفا کچھ نہیں تیری تقصیر
مجھ کو میری وفا ہی راس نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جس گھڑی گھورتے ہو غصہ سے
نکلے پڑتا ہے پیار آنکھوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنے نزدیک درد دل میں کہا
تیرے نزدیک قصہ خوانی کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کام تجھ سے ابھی تو ساقی ہے
کہ ذرا ہم کو ہوش باقی ہے
نہ کہا جائے کہ دشمن نہ کہا جائے کہ دوست
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے اثرؔ کون ہے وہ
جنت ہے اس بغیر جہنم سے بھی زبوں
دوزخ بہشت ہے گی اگر یار ساتھ ہے
اب تیری داد نہ فریاد کیا کرتا ہوں
رات دن چپکے پڑا یاد کیا کرتا ہوں
تو ہی بہتر ہے آئنہ ہم سے
ہم تو اتنے بھی روشناس نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لیا ہے دل ہی فقط اور جان باقی ہے
ابھی تو کام تمہیں مہربان باقی ہے
رقیب دیکھ سنبھل کر کے سامنے آنا
برہنہ تیغ ہیں اک دست روزگار میں ہم
یوں خدا کی خدائی برحق ہے
پر اثرؔ کی ہمیں تو آس نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کن نے کہا اور سے نہ مل تو
پر ہم سے بھی کبھو ملا کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس سنگ دل کے دل میں تو نالے نے جا نہ کی
کیا فائدہ جو اور کے جی میں اثر کیا
آسودگی کہاں جو دل زار ساتھ ہے
مرنے کے بعد بھی یہی آزار ساتھ ہے
تو کہاں میں کہاں پہ کہتے ہیں
کہ یہ آپس میں دونوں رہتے ہیں
کچھ نہ لکھا نہ پڑھا ہوں ولے ہوں معنی شناس
مدعا تیرا سمجھتا ہوں عبارات سے میں
یوں آگ میں سے بھاگ نکلنا نظر بچا
اپنے تئیں تو وضع نہ بھائی شرار کی
درد دل چھوڑ جائیے سو کہاں
اپنی باہر تو یہاں گزر ہی نہیں