Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Dilawar Figar's Photo'

دلاور فگار

1929 - 1998 | کراچی, پاکستان

مشہور اور مقبول مزاح نگار

مشہور اور مقبول مزاح نگار

دلاور فگار کے اشعار

471
Favorite

باعتبار

عورت کو چاہئے کہ عدالت کا رخ کرے

جب آدمی کو صرف خدا کا خیال ہو

جوتے کے انتخاب کو مسجد میں جب گئے

وہ جوتیاں پڑیں کہ خدا یاد آ گیا

آ کے بزم شعر میں شرط وفا پوری تو کر

جتنا کھانا کھا گیا ہے اتنی مزدوری تو کر

وہاں جو لوگ اناڑی ہیں وقت کاٹتے ہیں

یہاں بھی کچھ متشاعر دماغ چاٹتے ہیں

سیاہ زلف کو جو بن سنور کے دیکھتے ہیں

سفید بال کہاں اپنے سر کے دیکھتے ہیں

ایک شادی تو ٹھیک ہے لیکن

ایک دو تین چار حد کر دی

پوچھی جو اس کی وجہ تو کہنے لگے جناب

سردی بہت شدید تھی مصرعہ سکڑ گیا

کل چودھویں کی رات تھی آباد تھا کمرا ترا

ہوتی رہی دھن تاک دھن بجتا رہا طبلہ ترا

پکڑی گئی ردیف تو فوراً یہ کہہ دیا

لکھنا کبھی تھا اور میں یہاں لکھ گیا ابھی

ایک روایت یہ بھی ہے وہ بیاہ کے قابل نہ تھا

ورنہ لیلیٰ کو بھگا لینا کوئی مشکل نہ تھا

ہمارا دوست طفیلی بھی ہے بڑا شاعر

اگرچہ ایک بڑے آدمی کا چمچہ ہے

کہیں گولی لکھا ہے اور کہیں مار

یہ گولی مار لکھا جا رہا ہے

بس میں بیٹھی ہے مرے پاس جو اک زہرہ جبیں

مرد نکلے گی اگر زلف منڈا دی جائے

مردماں بسیار ہوں گے اور جائے قبر تنگ

قبر کی تقسیم پر مردوں میں چھڑ جائے گی جنگ

سوچا تھا آدمی کا قصیدہ لکھیں گے ہم

مطلع کہا ہی تھا کہ گدھا یاد آ گیا

اک روایت یہ بھی ہے لیلیٰ کی ماں تھی بد چلن

وہ تو بننا چاہتی تھی خود ہی مجنوں کی دلہن

ایک اچھا خاصا مرد زنانے میں گھس پڑا

گویا کہ ایک چور خزانے میں گھس پڑا

غزل چرا کے کبھی خدمت ادب کر لی

پکڑ گئے تو وہیں معذرت طلب کر لی

وصل کی رات جو محبوب کہے گڈ نائٹ

قاعدہ یہ ہے کہ انگلش میں دعا دی جائے

خوش قسمتی سے ہم ہیں سوار اس جہاز پر

ساحل پہ جس جہاز کا کپتان رہ گیا

میں بھی تھا حاضر بزم میں جب تو نے دیکھا ہی نہیں

میں بھی اٹھا کر چل دیا بالکل نیا جوتا ترا

پایان کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ

میں نے کہا حضور تو بولے کہ شکریہ

ہر بات پر جو کہتا رہا میں بجا بجا

اس نے کہا کہ یوں ہی مسلسل بجا کرو

افسوس کہ اک شخص کو دل دینے سے پہلے

مٹکے کی طرح ٹھونک بجا کر نہیں دیکھا

اس کا کیا ہوگا یہ جو عنوان آدھا رہ گیا

یہ بھی لیتے جائیں جو سامان آدھا رہ گیا

ٹھیلے پر دیوان لایا ہے یہ شخص اس سے ملو

اس کی غزلوں کا نیا مجموعہ دو روپے کلو

سنا یہ ہے کہ وہ صوفی بھی تھا ولی بھی تھا

اب اس کے بعد تو پیغمبری کا درجہ ہے

کل تک مجھے تھا تم سے ملاقات سے گریز

اب شوق سے ملو کہ میں سابق وزیر ہوں

گھر کی تہذیب اور ہے دفتر کا کلچر اور ہے

گھر کے اندر اور ہیں ہم گھر کے باہر اور ہم

صرف زندوں ہی کو فکر عیش و آسائش نہیں

اب تو اس دنیا میں مردوں کی بھی گنجائش نہیں

موت بھی اس شخص تک آتے ہوئے گھبرائے گی

جس کے سر پر نزع میں ڈفلی بجائی جائے گی

یہ لسٹ چوروں کی وقتی و اتفاقی ہے

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

یہ ادارے بھی نہ ہوں گے جب تو ہے اس کا بھی ڈر

چلتی پھرتی شاعری ہوگی یہاں ہر روڈ پر

جو نان میٹرک تھے وہ افسر بنے یہاں

اب جو پی ایچ ڈی ہیں وہ بیچیں کرانا کیا

غزل کی شکل بدل دی ہے آپریشن سے

سخن وری ہے اگر یہ تو سرجری کیا ہے

اس کو کہتے ہیں خدا کی دین یہ ہوتی ہے دین

اب سول سرجن بنے گا جانشین تان سین

نہ کوئی دوست نہ ہم دم نہ آشنا نہ حبیب

اسی سے خوف زیادہ جو ہے زیادہ قریب

کتنے غالب تھے جو پیدا ہوئے اور مر بھی گئے

قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک

کیا بتاؤں میں تمہیں اس شہر کا جغرافیہ

بمبئی ہے اک غزل گڑ بڑ ہے جس کا قافیہ

اغوا ہی کرنا تھا تو کوئی کم تھے لکھ پتی

کس نے کہا تھا روڈ سے کنگلا اٹھائیے

آپ کو مرنا ہے تو پہلے سے نوٹس دیجیے

یعنی جرم انتقال ناگہاں مت کیجیے

قبض کے مارے ہوئے بیمار کو کر دو خبر

ایک ٹھمری میں ہے اطریفل زمانی کا اثر

یوں بھی اک دفتر نے مجھ پہ خوف طاری کر دیا

بل رقیبوں کا تھا میرے نام جاری کر دیا

تمہارے گھر میں میں کودا ضرور ہوں لیکن

وصال اصال کی نیت سے میں نہیں آیا

خودی بلند ہو بے شک یہی تھی میری رائے

یہ کب کہا تھا کہ قوال اس میں ہاتھ لگائے

شاعر تھے بند ایک سنما کے حال میں

پنچھی پھنسے ہوئے تھے شکاری کے جال میں

جنوں یہ اور بڑھے گا تو رنگ لائے گا

یہ آدمی کبھی کتے کو کاٹ کھائے گا

میں نے کہا کلام روشؔ لا جواب ہے

کہنے لگے کہ ان کا ترنم خراب ہے

ایک شوہر ایک بیگم ایک بھاوج ایک نند

بے تکلف ایک ہی کھولی میں ہو جاتے ہیں بند

اختلاج قلب کی واحد دوا ہے آج کل

بیکلؔ اتساہی سے سنئے اے مری جان غزل

Recitation

بولیے