Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پہاڑوں کے بیٹے

مجید امجد

پہاڑوں کے بیٹے

مجید امجد

مرے دیس کی ان زمینوں کے بیٹے جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں صدیوں سے تنہا

جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما

پہاڑوں کے بیٹے

چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں سنگ خارا کے ریزے

سجل دودھیا نرم جسم اور کڑے کھردرے سانولے دل

شعاعوں ہواؤں کے زخمی

چٹانوں سے گر کر خود اپنے ہی قدموں کی مٹی میں اپنا وطن ڈھونڈتے ہیں

وطن ڈھیر اک ان منجھے برتنوں کا

جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں در بہ در ڈھونڈھتی ہیں

وطن وہ مسافر اندھیرا

جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ شاداب شہروں میں رک کر

کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے

ندی بھی زر افشاں دھواں بھی زر افشاں

مگر پانیوں اور پسینوں کے انمول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما

ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں

تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں!

مأخذ :
  • کتاب : Kulliyaat-e-majiid Amjad (Pg. 407)
  • Author : Majiid Amjad
  • اشاعت : 2011

موضوعات

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

You have remaining out of free content pages per year. Log In or Register to become a Rekhta Family member to access the full website.

بولیے