یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ
یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ
ترے خیال کی خوشبو سے بس رہے ہیں دماغ
دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ
جھلکتی ہے کھنچی شمشیر میں نئی دنیا
حیات و موت کے ملتے نہیں ہیں آج دماغ
حریف سینۂ مجروح و آتش غم عشق
نہ گل کی چاک گریبانیاں نہ لالے کے داغ
وہ جن کے حال میں لو دے اٹھے غم فردا
وہی ہیں انجمن زندگی کے چشم و چراغ
تمام شعلۂ گل ہے تمام موج بہار
کہ تا حد نگہ شوق لہلہاتے ہیں باغ
نئی زمین نیا آسماں نئی دنیا
سنا تو ہے کہ محبت کو ان دنوں ہے فراغ
جو تہمتیں نہ اٹھیں اک جہاں سے ان کے سمیت
گناہ گار محبت نکل گئے بے داغ
جو چھپ کے تاروں کی آنکھوں سے پاؤں دھرتا ہے
اسی کے نقش کف پا سے جل اٹھے ہیں چراغ
جہان راز ہوئی جا رہی ہے آنکھ تری
کچھ اس طرح وہ دلوں کا لگا رہی ہے سراغ
زمانہ کود پڑا آگ میں یہی کہہ کر
کہ خون چاٹ کے ہو جائے گی یہ آگ بھی باغ
نگاہیں مطلع نو پر ہیں ایک عالم کی
کہ مل رہا ہے کسی پھوٹتی کرن کا سراغ
دلوں میں داغ محبت کا اب یہ عالم ہے
کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں پچھلی رات چراغ
فراقؔ بزم چراغاں ہے محفل رنداں
سجے ہیں پگھلی ہوئی آگ سے چھلکتے ایاغ
- کتاب : Gul-e-Naghma (Pg. 39)
- Author : Firaq Gorakhpuri
- مطبع : Maktaba Farogh-e-urdu Matia Mahal Jama Masjid Delhi (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.