یہ گرد باد تمنا میں گھومتے ہوئے دن
یہ گرد باد تمنا میں گھومتے ہوئے دن
کہاں پہ جا کے رکیں گے یہ بھاگتے ہوئے دن
غروب ہوتے گئے رات کے اندھیروں میں
نوید امن کے سورج کو ڈھونڈتے ہوئے دن
نہ جانے کون خلا کے یہ استعارے ہیں
تمہارے ہجر کی گلیوں میں گونجتے ہوئے دن
نہ آپ چلتے نہ دیتے ہیں راستہ ہم کو
تھکی تھکی سی یہ شامیں یہ اونگھتے ہوئے دن
پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات
گزر گیا ہے یہی بات سوچتے ہوئے دن
تمام عمر مرے ساتھ ساتھ چلتے رہے
تمہیں کو ڈھونڈتے تم کو پکارتے ہوئے دن
ہر ایک رات جو تعمیر پھر سے ہوتی ہے
کٹے گا پھر وہی دیوار چاٹتے ہوئے دن
مرے قریب سے گزرے ہیں بارہا امجدؔ
کسی کے وصل کے وعدے کو دیکھتے ہوئے دن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.