تری کوشش ہم اے دل سعئ لا حاصل سمجھتے ہیں
سر منزل تجھے بیگانۂ منزل سمجھتے ہیں
اصول زندگی جاں دادۂ قاتل سمجھتے ہیں
نہ سر کو سر سمجھتے ہیں نہ دل کو دل سمجھتے ہیں
غریق بحر الفت آشنائے قلزم معنی
جہاں پر ڈوب کر ابھریں اسے ساحل سمجھتے ہیں
دیار عشق کے ساکن زمیں پر پاؤں کیا رکھیں
یہاں کے ذرے ذرے کو جب اپنا دل سمجھتے ہیں
کریں کیا ان سے شکوہ جو کسی کے دل جلانے کو
فروغ گرمیٔ ہنگامۂ محفل سمجھتے ہیں
جھکانا آستاں پر سر کوئی مشکل نہیں لیکن
جبین بندگی کو ہم کب اس قابل سمجھتے ہیں
شکستہ دل لیے یہ سوچ کر اس بزم سے نکلا
شکایت کیجیے ان سے جو دل کو دل سمجھتے ہیں
یہ دل حاضر ہے بسم اللہ وہ کھولیں گرہ اس کی
اگر آسان حل عقدۂ مشکل سمجھتے ہیں
لب فریاد اگر کھولوں تو کیا ہنگامہ برپا ہو
خموشی کو مری جب گفتگوئے دل سمجھتے ہیں
وہ خلوت ہو کہ جلوت ہو تجلی ہو کہ تاریکی
جہاں تم ہو اسی کو ہم بھری محفل سمجھتے ہیں
ارادہ ہو تو دل مضبوط کر اے ڈوبنے والے
جب ایسا وقت ہو دھارے کو بھی ساحل سمجھتے ہیں
دم آخر رکا ہے ایک آنسو دیدۂ تر میں
اسی کو ہستئ ناکام کا حاصل سمجھتے ہیں
وفا کی حد دکھا کر جلنے والے دل خدا حافظ
تجھے بھی اک چراغ کشتۂ منزل سمجھتے ہیں
مٹا ڈالا مجھے پھر بھی یہ ہے بیداد کی حسرت
ابھی فہرست موجودات میں شامل سمجھتے ہیں
مرا طرز سلوک اس راہ کے رہ رو نہ سمجھیں گے
مگر جو راہ بر راہ حق و باطل سمجھتے ہیں
نثار دوست ہے یہ موتیوں کا بے بہا مالا
ہر اک آنسو کو ہم ٹوٹا ہوا اک دل سمجھتے ہیں
جنہیں معلوم ہے تیری نگاہ ناز کا عالم
وہ اپنے ضبط کے دعووں کو خود باطل سمجھتے ہیں
عزیزؔ افکار دنیا اور مشاغل شعر گوئی کے
احبا کی محبت ہے جو اس قابل سمجھتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.