تقدیر کا شکوہ بے معنی جینا ہی تجھے منظور نہیں
تقدیر کا شکوہ بے معنی جینا ہی تجھے منظور نہیں
آپ اپنا مقدر بن نہ سکے اتنا تو کوئی مجبور نہیں
یہ محفل اہل دل ہے یہاں ہم سب مے کش ہم سب ساقی
تفریق کریں انسانوں میں اس بزم کا یہ دستور نہیں
جنت بہ نگہ تسنیم بہ لب انداز اس کے اے شیخ نہ پوچھ
میں جس سے محبت کرتا ہوں انساں ہے خیالی حور نہیں
وہ کون سی صبحیں ہیں جن میں بیدار نہیں افسوں تیرا
وہ کون سی کالی راتیں ہیں جو میرے نشے میں چور نہیں
سنتے ہیں کہ کانٹے سے گل تک ہیں راہ میں لاکھوں ویرانے
کہتا ہے مگر یہ عزم جنوں صحرا سے گلستاں دور نہیں
مجروحؔ اٹھی ہے موج صبا آثار لیے طوفانوں کے
ہر قطرۂ شبنم بن جائے اک جوئے رواں کچھ دور نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.