سرخ سحر سے ہے تو بس اتنا سا گلہ ہم لوگوں کا
سرخ سحر سے ہے تو بس اتنا سا گلہ ہم لوگوں کا
ہجر چراغوں میں پھر شب بھر خون جلا ہم لوگوں کا
ہم وحشی تھے وحشت میں بھی گھر سے کبھی باہر نہ رہے
جنگل جنگل پھر بھی کتنا نام ہوا ہم لوگوں کا
اور تو کچھ نقصان ہوا ہو خواب میں یاد نہیں ہے مگر
ایک ستارہ ضرب سحر سے ٹوٹ گیا ہم لوگوں کا
یہ جو ہم تخلیق جہان نو میں لگے ہیں پاگل ہیں
دور سے ہم کو دیکھنے والے ہاتھ بٹا ہم لوگوں کا
بگڑے تھے بگڑے ہی رہے اور عمر گزاری مستی میں
دنیا دنیا کرنے سے جب کچھ نہ بنا ہم لوگوں کا
خاک کی شہرت دیکھ کے ہم بھی خاک ہوئے تھے پل بھر کو
پھر تو تعاقب کرتی رہی اک عمر ہوا ہم لوگوں کا
شب بھر اک آواز بنائی صبح ہوئی تو چیخ پڑے
روز کا اک معمول ہے اب تو خواب زدہ ہم لوگوں کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.