صحراؤں میں دریا بھی سفر بھول گیا ہے
صحراؤں میں دریا بھی سفر بھول گیا ہے
مٹی نے سمندر کا لہو چوس لیا ہے
دنیا کی ملامت کا بھی اب خوف ہے دل کو
خاشاک نے موجوں کو گرفتار کیا ہے
منزل ہے نہ جادہ ہے نہ سایہ ہے نہ پانی
تنہائی کا احساس فقط راہنما ہے
سورج بھی پڑا روتا ہے اک گہرے کنویں میں
برسوں ہوئے آکاش بھی دھندلایا ہوا ہے
بچھڑے ہوئے خواب آ کے پکڑ لیتے ہیں دامن
ہر راستہ پرچھائیوں نے روک لیا ہے
کرنوں سے تراشا ہوا اک نور کا پیکر
شرمایا ہوا خواب کی چوکھٹ پہ کھڑا ہے
پھولوں سے لدی ٹہنیاں پھیلائے ہیں بانہیں
خوشبو کا بدن خاک میں پامال پڑا ہے
دیوار و در شہر پہ ہیں خون کے دھبے
رنگوں کا حسیں قافلہ صحرا میں لٹا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.